ملا ڈسکو مائیکل اور میکائیل


تحریر ،شازیہ عندلیب
معروف پاپ سنگر مائیکل جیکسن حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے جاں بحق ہو گئے۔دنیا میں پاپ موسیقی کے دلدادہ اور شائقین کے لیے ئی خبر نہائیت افسوسناک تھی۔دنیائے موسیقی کا شہنشاہ اپنا دل ہار کے اس فانی دنیا سے منہ موڑ گیا۔اسکی تدفین منگل کے روز کی جائے گی۔ اسکے آخری دیدار پر ٹکٹ لگ چکی ہے۔ اب تک سولہ لاکھ ٹکٹیں فروخت ہو چکی ہیں۔یعنی کہ مائیکل جیکسن مر کر بھی دولت کا انبار لگا گیا۔اسے کہتے ہیں زندہ ہاتھی لاکھ کا اور مرا ہوا ہاتھی سوا لاکھ کا۔
مائیکل جیکسن بلا شبہ بے پناہ شہرت اور دولت کے علاوہ بھی کئی خوبیوں کا مالک تھا۔اسکے گیت نوجوان نسل کے دلوں کی دھڑکن تھے۔ دلوں میں دھڑکنے والے گلوکار کے دل کی دھڑکن خاموش ہو چکی تھی۔نوجوان اسکے گیتوں پہ تھرک تھرک کے بے حال ہو جاتے۔اسکی موت کا سب سے ذیادہ دکھ اسکے نوجوان مداحوں

کو ہوا۔انہیں اس بات کا غم ہے کہ دنیایء موسیقی ایک عظیم گلوکار سے محروم ہوئی۔ دکھ تو مجھے بھی ہے مگر مائیکل کے مرنے کا نہیں بلکہ میکائیکل کے مرنے کا اس میکائل کی موت کو جس نے اسلام قبول تو کر لیا مگر اس پر کبھی عمل نہ کر سکا، اس بات کا کہ مائیکل نے دنیا میں بطور مائیکل جیکسن ناموری کمائی مگر بطور مسلمان میکائیل کے نام نہ پیدا کر سکا۔وہ سچا مسلمان بن کر نہ دکھا سکا۔اسلام کی حقانیت نہ جان سکاورنہ ایسے نومسلم بھی دیکھے ہیں جو کہ پیدائشی مسلمانوں سے ذیادہ اچھے اور سچے مسلمان ثابت ہوتے ہیں۔اس سے پہلے بھی کئی عالمی شہرت یافتہ لوگوں نے اسلام قبول کرنے کا ارادہ ظاہر کیا اور کچھ مسلمان بھی ہوئے۔ ان میںعظیم باکسر محمد علی کلے اور برطانوی شہزادی لیڈی ڈیانہ شامل ہیں۔ لیڈی ڈیانہ کو تو زندگی نے مہلت نہ دی اور لیکن عالمی باکسر محمد علی کلے نے اسلام پر عمل کر کے دکھایا۔ مسلمان ہونا اتنا مشکل نہیں جتنا مسلمان بن کر دکھانا مشکل ہے۔ ہمارے ہاں بھی نام کے مسلمانوں کی کمی نہیں۔ہماری ملکی سیاست ، اور شوبزنس کے شعبے ایسے افراد سے بھرے پڑے ہیں۔ہمارے قومی لیڈروں اور نام نہاد ملائوں نے قوم کو بہت نقصاں پہنچایا ہے۔ایسے بھی لوگ دیکھے ہیں جو دن بھر عبادات میں گزارتے ہیں اور راتیں ڈسکو میں۔ مولانا نورانی اور قاضی حسین احمد جیسے ڈسکو ملائوں نے ہماری ملک و قوم کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔لال مسجد میں لہو بہتا رہا،آگ جلتی رہی، لاشیں گرتی رہیں کوئی قاضی کوئی ملا، کوئی عالم اور کوئی مولوی بے گناہوں کو بچانے آگے نہ بڑھا۔آج پوری قوم دہشت گردوں کے ہاتھوں میں یرغمال بنی ہوئی ہے۔ ہمارے حکمران نیویارک میں موسیقی کی محفلوں میں جی بہلاتے رہے، بھنگڑے ڈالتے رہے۔کوئی ملا قوم کو بچانے کے لیے آگے نہیں بڑھتا۔میکائیل مر گیا ہے اسکے مداحوں کو فکر لگی ہے کہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دنایا جائے گا یا کرسچینز کے قبرستان میں۔ایک اوسلو کے مولوی نے خبر دی ہے کہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفنایا جا چکا ہے۔ یہ خبر شائید مولوی صاحب کو اپنے خفیہ ذاتی ذرائع سے ملی ہوگی۔
مائیکل جیکسن سن ٢٨ گست ١٩٥٨ میں پیدا ہوا ۔ بہن بھائیوں میں اسکا نمبر نواں تھا۔ایک خوبصورت افریقی مائیکل جیکسن نے بچپن سے ہی اپنے بھائی کے ساتھ گانا گانا شروع کر دیا تھا۔مقامی طور پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے بعد اس نے نیویارک کے اپالو تھیٹر میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔وہاں گلیڈی نائٹ اور ایک پیانو نواز بیلی ٹیلر کی نگاہ انتخاب اس پر پڑی۔اس کے بعد گیارہ برس کی عمر میں وہ سپر اسٹار بن گیا۔اسکا ایک رومانٹک گیت ہٹ ہوا۔ اسے برطانوی ملکہ الزبتھا ور امریکن پریزیڈنٹ جارج بش نے ھی سراہا۔ایک انگلش اخبار ،پینوراما کے مطابق مائیکل جیکسن نے اسلام قبول کرنے کا علان کر دیا اور اس نے اپنی پراپرٹی اور اسٹوڈیو بحرین میں منتقل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔فروری ٢٠٠٧ میں اس نے دوبارہ مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔ اس نے بحرین پیلس کے پاس مسجد تعمیر کرنے کے لیے تیس مربع میٹر کی زمین بھی خریدی۔اسکا اسلامی نام میکائل تھا۔مائیکل کی شادی ایک یہودی گلوکارہ ڈیبورارود سے ہوئی اس میں سے اسکے دو بچے تھے۔اسکے علاوہ اسکا ایک اور بچہ بھی تھا جسکی ماں نامعلوم تھی۔ مائیکل جیکسن کو بچوں پر تشدد کے الزام میں سزا بھی ہوئی۔ وہ اس کیس میں تین ملین ڈالر کی ضمانت پر رہا ہوا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ مسلمان تو تھا لیکن اسلام پر عمل نہ کیا۔ یہ سوال کئی لوگوں کے ذہنوں میں قلبلا رہا ہے۔ اس کا جواب بھی اسلامی تعلیمات میں ہی ہے۔ ایک تو اسلامی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کئی ایسی مثالیں ملیں گی جن کی رو سے کئی لوگ وقتی فائدے کے لیے مسلمان ہوئے۔ ان میں کئی منافق بھی شامل ہیں اور نام کے مسلمان بھی۔مائیکل امریکی قوانین سے تنگ آیا ہوا تھا اسکا خیال تھا کہ بحرین میں اسے امریکہ جیسے سخت قوانین کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

صرف کلمہ پڑھ لینے سے انسان مکمل مسلمان نہیں بن جاتا۔ اسلام تو نام ہے ایک مکمل ضابطہء حیات کا اور طرز زندگی کا۔ یہ دین ہمیں انسا نیت کے آداب اور دنیا میں جینے کے ڈھنگ بھی بتاتا ہے۔ جو لوگ صرف زبانی کلامی اسلام کا نام لیتے ہیں وہ اسلام کے نمائندے نہیں ہو سکتے۔ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلام کے پانچ بنیادی اراکین پریقین کے ساتھ عمل کرے۔یعنی کہ دین کے پانچ بنیادی اراکین روزہ، نماز، زکواتہ ، حج اور جہاد کو عملی زندگی کا حصہ بنئے۔یہ اسلام کے وہ بنیادی اراکین ہیں کہ اگر انکی بنیاد رکھ دی جائے تو اسلام کی پر شکوہ عمارت خود بخود تعمیر ہوتی چلی جاتی ہے۔ان عقائد کی مضبوطی انسانی شخصیت کو ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کو بھی حسن عطاء کرتی ہے۔انسان اشرف المخلوقات کے عہدے پر فائز ہو کر اوج ثریا تک جا پہنچتا ہے۔اسلامی عقائد اور عمل کے بغیر تو انسان ایک حیوان ہے۔ ایسے انسان کو نہ اپنے اوپر کچھ اختیار ہوتا ہے اور نہ حیوانی جبلت پر۔ وہ اپنے نفس کے تقاضے پورے کرتے کرتے انسانیت کے درجے سے نیچے جاگرتا ہے۔جب پورا معاشرہ ایسے انسانوں سے بھر جائے تب وہاں پر انسانیت سوز واقعات جنم لیتے ہیں۔ معاشرہ بدعنوانیوں کی آماہ جگاہ بن جاتا ہے۔ ایسے معاشرے سے باشعور لوگ بھی منہ موڑ لیتے ہیں کہ اسکی اصلاح بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ کسی مسلمان کی شخصیت کو پرکھنا بہت آسان ہے اول تو عبادات میں دکھاوہ اور ریاء نہ ہو۔ دکھاوہ عبادات کے لیے زہر قاتل ہے۔لیکن اسکا مطلب یہ بھی نہیں کہ اسقدر خفیہ نماز ہو کہ مسلمان ہونے کا احساس ہی جاتا رہے۔جیسا کہ ایک نام نہاد پیر سے کسی نے پوچھا کہ ۔آپ نماز کیوں نہیں پڑھتے ؟؟ پیر موصوف نے فرمایا
اوئے تیری وہ آنکھ ہی نہیں جو میری نماز دیکھ سکے۔میں تو دل کی نماز پڑھتا ہوں۔
جی نہیں ایسی غیبی نمازوں کی اسلام میں کو ئی گنجائش نہیں۔اسی طرح ایک خاتون بتا رہی تھیں کہ میں کہیں اسلیے نہیں آتی جاتی کہ مجھے کسی کے سامنے نماز پڑھتے ہوئے شرم آتی ہے۔ تب میں نے کہا کہ ایک تو ہم جس مغربی معاشرے میں رہتے ہیں وہاں شرم نام کی کوئی چیز تو ہے نہیں۔ لباس دیکھ لیں تو حرکات دیکھ لیں۔ اگر ہم اپنا فرض ادا کر لیں بغیر کسی کو تکلیف دیے تو اس میں شرم کیسی۔اسی طرح اوسلو کی ایک یونیورسٹی میں چند مسلم طالبات نے لائونج کے کونے میں نماز پڑھنی شروع کی تو چند دنوں میں یونیورسٹی کی طرف سے انہیں نماز کے لیے کمرہ مل گیا۔ یہ ہوتی ہے رحمت خداوندی۔ یہاں محض یاد دہانی کے لیے بنیادی اراکین اور انکے زندگی پر اثرات کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اسکی روشنی میں ہر کوئی اپنے کامل مسلمان ہونے کا اندازہ لگا سکتا ہے۔اگر یہ اثرات آپکی زندگی میں ظاہر ہوتے ہیں تو آپ کامل مسلمان ہیں ورنہ آپ ازسرنو اپنے اعمال کا جائزہ لیں۔
ْ نماز کی وجہ سے بے حیائی ، بے ایمانی جھوٹ اور برے کاموں سے نفرت اور ایسے کام کرنے والوں سے بھی نفرت۔
ْ روزہ کی وجہ سے تحمل برداشت ، روزمرہ کھانے میںسادگی، حقیقی غریبو ںمسکینوں کا خیال رکھنا۔
حج کی وجہ سے دین میں مشقت اٹھانا، دین کے کاموں میں پیسہ خرچ کرنا اور مخلوق خدا کی خدمت کرنا۔
زکواتہ دینے سے عام زندگی میں بھی خدا کی راہ میں خرچ کرنا
جہادکے جزبہ سے اپنے ارد گرد ، محلے ، رشتہ داروں میں پھیلی برائیوں کی مخالفت اور سدباب کی کوئی سی حکمت عملی اختیار کرنا۔
اگر یہ پانچ خصوصیات کم یا زیادہ کسی مسلمان میں پیدا ہو جائیں تو اسکی عبادات و ایمان اور انکے اثرات بھی صحیح۔ وہ یقین کر لے کہ وہ صحیح راستے پہ جا رہا ہے۔وہ اس زندگی میں ہی نہیں بلکہ اس ان دیکھے مستقبل میںبھی جو لاکھوں کروڑوں برسوں پر محیط ہے اسے اچھا مقام ملنے والا ہے۔اگر کوئی یہ جاننا چاہے کہ وہ نیک ہے یا نہیں تو اس کے لیے ایک چھوٹا سا ٹیسٹ ہے۔ رات سونے سے پہلے وہ یہ عہد کر کے سو جائے کہ میں صبح اللہ کے حکم سے اس وقت اٹھ کر ایک مخصوص وقت فجر یا تحجد ی نماز پڑہوں گا تو وہ عین اسی وقت اٹھ جائے گا اللہ کے حکم سے بصورت دیگر اپنے اعمال کا جائزہ لے۔

اب جو لوگ وقتی فائدے کے لیے اسلام قبول کرتے ہیں وہ مسلمان کہلانے کے لائق ہیں یا نہیں وہ جنت میں جائیں گے یا نہیں یہ تو اللہ کو پتہ ہے۔ دل کا حال تو وہ ہی جانتا ہے۔یہ ایک الگ بحث ہے۔ہمارے سامنے ایک مسلمان کا معیار ہے جو اس کسوٹی پر پورا اترتا ہے وہ ہی صحیح ہے کسی شخص کا محض ایک نیکی سے بخشے جانا یا ایک گناہ سے گناھگار ہوجانا ایک چانس ہے۔ چانسز کسی قائدے قانون کے پابند نہیں ہوتے۔نہ یہ ہر کسی کے ساتھ ہوتے ہیں اسلیے ہمیں اپنا فرض بحیثیت مسلمان ایمان داری سے نبھانا ہے۔ اسلیے اس بحث میں پڑنے کے بجائے ہمیں اسلام کی تھیوری اور پریکٹیکل دونوں پر عمل کرنا ہو گا۔

ملا ڈسکو مائیکل اور میکائیل“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں