مفہوم قرآن کی حفاظت۔ایک اور معجزہ

 ٭…مختلف حربوں سے اسے مشکوک بنانے ، اسے دہشت گرد کتاب قرار دینے اور اسے محرف کرنے کی اندر اور باہرجو کوشش وسازش ہوئی اس کی تاریخ اہل علم پر عیاں ہے۔ مگراللہ نے اس کی حفاظت خود ذمہ لی اور مسلمانوں کی قوت حفظ سے بھی کرڈالی۔ رسول اکرم ﷺ کی تشریح وعمل کو دوام بخش کے قرآن کریم کے کلمات ومصطلحات کی حفاظت بھی فرمادی۔ یوں حدیث رسول بھی محفوظ ہوگئی۔مسلم علماء نے بھی انہی تراجم وتفاسیر کو معتبر قرار دیا جوتعلیمات رسول سے ہم آہنگ تھیں۔
 
٭… قرآن کا ہر لفظ مختلف پہلوؤں سے غور وفکر کا طالب ہے اس لئے علماء نے بھی کوشش کی کہ عوام کو اصل عربی زبان میں قرآن کریم سمجھایا جائے تاکہ ترجمہ کی ضرورت ہی نہ رہے۔ اس مقصدکے لئے انہوں نے علوم صرف ونحو مرتب کئے۔گردان بنائی جس میں واحد ، تثنیہ وجمع اور مذکر ومؤنث، غائب وحاضر اور متکلم کے صیغے نیز ماضی وحاضر ومستقبل کے لفظ متعین کئے۔ امر ونہی وافعل التفضیل کے افعال وغیرہ نے قرآن کریم میں مذکور افعال کے مفہوم کو سمجھنے میں خوب معاونت کی۔ اسماء وافعال اور حروف کی خصوصیات واضح کیں۔ مرفوعات ، منصوبات اور مجرورات نیز معرب ومبنی کے تعین نے طلبہ کو سجھا دیا کہ صحیح مفہوم کیا ہے تاکہ معنوی غلطی سے بچا جاسکے ۔
 
جہاں ترجمہ وتشریح کی ضرورت محسوس ہوئی اسے قرآن مجید کے الفاظ وحی سے جدا کرنے کی کوشش کی اور نہ اس کی اجازت دی۔ علماء نے بغیر نص (Text) کے ترجمہ شائع کرنے کی اجازت دی۔ پہلے یہ پابندی اس لئے تھی کہ سابقہ کتب کی تحریف اسی اجازت ہی سے ہوئی اور نص غیر اہم ہوکرمحفوظ نہ رہی۔
٭…دنیا کی ہر زبان وقت کے ساتھ بدل جاتی ہے مگر قرآن کی وجہ سے عربی زبان بدلی نہ جاسکی۔اس کے اصل معنی برقرار رکھنے کے لئے جاہلی دور کے محاورات اور ہزاروں اشعار محفوظ کئے گئے تا کہ ان سے استدلال لیا جا سکے۔ حالانکہ ان اشعار و محاورات کی روح اسلامی تعلیمات کے منافی تھی۔ مگر مجبوری یہ تھی کہ زبان کی مستقبل میں ممکنہ وقتی تبدیلی مفاد پرستوں کوقرآن مجید کے مفہوم بدلنے میں معاونت نہ کردے۔جیسا کہ عربی زبان کو ماڈرن زبان بنانے اور مختلف مقامی لہجات کو رواج دینے کی تحریک عرب دنیا میں عیسائی اور یہودی عربوں نے چلائی مگر قرآن کریم کی موجودگی نے یہ سازش ناکام بنادی۔ حفاظت قرآن و حدیث کے لئے ان دونوں کی مشترکہ اور علیحدہ لغات لکھی گئیں۔ جن میں واقعہ اور موقع کی تبدیلی کی نشاندہی بھی کی گئی تا کہ مستقبل میں زبان کی تبدیلی ان دونوں کے مفاہیم پر اثر انداز نہ ہوسکے۔
 قرآن کی اصل تفسیررسول اکرم ﷺ کی زندگی ہے آپ ﷺ پرہی وہ اترا ہے اس لئے آپ ﷺ ہی اس کے صحیح اور مستند معلم ومفسر ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی عقول پر فہم قرآن کا دارومدار نہیں رکھا بلکہ جناب رسالت مآبﷺ کے ذریعے سے اپنے کلام کی مراد واضح کردی تا کہ احتمالات کا دارو مدارہی ختم ہو جائے یا کم از کم مختصر ہو جائے۔اس ضمن میں قرآن کے مفاہیم کو جاننے کے لئے آپ ﷺکی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر مبنی لاکھوں ابواب اور ہزاروں اوراق احادیث و سیرت کو جمع کیا گیا۔
٭… ماہرین قرآن نے یہ بھی قرار دیا کہ قرآن کریم کے الفاظ کا حقیقی معنی کیا جائے ۔ مجازی معنی وہاں ہو جہاں کوئی قرینہ ہو۔ حقیقی معنی کو مجازی بنانے کی کوشش قرآن کے مفہوم کو بدلنے اور بگاڑنے کی ہوگی۔جیسے استوی علی العرش ، جنت وجہنم ملائکۃ، والتین والزیتون کے الفاظ اپنے حقیقی معنی میں مستعمل ہوں گے کیونکہ مجازی معنی مراد لینے کا کوئی قرینہ موجود نہیں۔
٭… وحی الٰہی نے یہ بھی طے کیا کہ جن شرعی اصطلاحات کوقرآن مجید نے خود متعارف کرایا ہے ان کی مراد وہی لی جائے گی جو رسول اکرم ﷺ نے قولاً وعملاًاختیار فرمائی۔ جیسے صلوۃ، زکوۃ، صوم اور حج وغیرہ۔ ( ماخوذ ازمقدمہ تفسیر ثناء اللہ امرتسریؒ)
مقام شکر ہے کہ یہ کوششیں کافی حد تک کامیاب رہیں۔ مگر الحاد پرستوں نے قرآنی مفہوم کو بگاڑنے میں بھی پورا زور صرف کیا اور اپنی دانش و تدبر کے ایسے تاویلی مفاہیم ایجاد کئے کہ شیطان بھی حیران رہ گیا۔ ان بددیانت مولفین نے حقائق کو بدلنے میں انتہاء کردی۔ کبھی لغت کا سہارا لیا تو کبھی حدیث کو تاریخ کہہ کر ٹرخانے کی کوشش کی۔ کبھی سنت نبوی کو خرافات سے تعبیر کیا اور کبھی حدیث کے حجت شرعی ہونے سے انکار کر دیا۔ یہ سب دوڑ دھوپ اس لئے کی کہ کسی طرح سنت رسول راہ سے ہٹ جائے۔ زمانہ نبوت کی تشریحات پراعتماد نہ رہے اور قرآن مجید کو من پسند تاویلات کی سان پر چڑھا کر حسب منشاء خرافات کا راستہ صاف کردیا جائے۔یا پھر غیروں کے سہارے نئی نبوت کا ڈھونگ رچایا جائے۔ اس آویزش و جدال میں فریقین کہاں تک کامیاب ہوئے ہر فریق کو اپنے دل سے دریافت کرنا چائیے کہ ہمارا رب بھی ہماری نیتوں کو جانتا ہے اور بہر حال اس کے حضور پیش بھی ہونا ہے۔
اثرات:
٭… مکی لوگ ہی تھے جو قرآن کریم سے تأثیر سے خائف تھے اور منصوبہ بند تھے کہ جہاں کہیں یہ پڑھا جائے خود نہیں سننا اور نہ ہی سننے دینا ہے۔کیونکہ وہ جانتے تھے کہ صرف اس کا سماع ہی ہمارے دل کے تاروں کو نہ صرف چھیڑتا ہے بلکہ رام کردیتا ہے۔ابن ہشام نے سیرت میں لکھا ہے کہ ابوسفیان بن حرب، ابوجہل بن ہشام اور اخنس بن شریق تینوں رات کے اندھیرے میں ایک دوسرے سے چھپ کراس لئے نکلے کہ آپ ﷺ سے وہ قرآن سنیں جو رات کے وقت آپ اپنے گھر میں پڑھا کرتے۔اتفاق سے جو بھی آیا دوسرے کو علم نہ ہوا اور اس نے بیٹھ کرخاموشی سے قرآن سنا۔فجر سے پہلے جب واپس ہوئے تو راستے میں ایک دوسرے کوملے ۔ جب سبھی نے اپنا مقصد بتایا تو ایک دوسرے کو ملامت کی اور نصیحت بھی کی کہ اپنی اس حرکت کا علم عام مکی لوگوں کو نہ ہونے پائے ورنہ ان کے دل میں خوامخواہ آپ ﷺکے بارے میں سچائی کا خیال آنے لگے گا۔پھر چلے گئے۔ یہی کچھ انہوں نے دوسری رات کیا۔اور تیسری رات بھی۔ آخر کہنے لگے کہ ہم جب تک کوئی عہد نہ کرلیں علیحدہ نہیں ہوں گے۔ چنانچہ عہد کے بعد وہ ایک دوسرے سے جدا ہوئے۔ بعد میں اخنس، ابو جہل سے ملا اس سے آپ ﷺ سے سنے قرآن کے بارے میں رائے لی۔اس نے کہا: میں نے کیا سنا! ہم اور بنوعبد مناف شرف کے حصول میں الجھے۔ انہوں نے کھلایا تو ہم نے بھی کھلایا انہوں نے ذمہ داریاں اٹھائیں تو ہم بھی پیچھے نہ رہے۔انہوں نے سخاوت دکھائی تو ہم بھی سخی بنے۔ لیکن جب ہم دوڑ کے لئے تیار ہوئے تو ہمارے گھوڑے پیچھے کردئے گئے۔اور یہ کہنے لگے : ہم میں ایک نبی مبعوث ہوا ہے جس پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے تو یہ مقام ہم کیسے پاسکتے ہیں!!۔ واللہ! ہم کبھی نہیں اسے مانیں گے اور نہ ہی اس کی تصدیق کریں گے۔(سیرت ابن ہشام ۱؍۳۳۷) ۔
یہی اخنس ایک بار ابوجہل سے علیحدگی میں کہتا ہے دیکھو! اس وقت کوئی بھی نہیں جو ہماری بات سن رہا ہو۔ یہ بتاؤ محمد سچے ہیں یا جھوٹے؟ اس نے کہا: واللہ! محمد ﷺ سچے انسان ہیں انہوں نے کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا۔ مگر جب ابو قصی والے لواء، سقایہ، حجابہ اور ندوہ ونبوہ سبھی کچھ لے گئے تو پھرباقی قریش کے لئے کیا رہا؟(اسباب النزول الواحدی، آیت ۳۳سورۃ الأنعام)
 رئیس مکہ ولید بن مغیرہ نے جب قرآن کو آپ ﷺ سے سنا تو اس کا دل پسیج گیا اور بے ساختہ پکار اٹھا:
یَا عَجَبًا لِّمَا یَقُولُ ابْنُ أَبِی کَبْشَۃَ۔۔یَعْنِی مُحَمَّدًا ﷺ۔۔ فَوَاللہِ مَا ہُوَ بِشِعْرٍ، وَلَا سِحْرٌ ، وَلا یُہْمَزُ مِنَ الْجُنُونِ، وَإِنَّ قَوْلَہٗ لَمِنْ کَلاَمِ اللہِ۔
بڑے تعجب کی بات ہے جو ابن ابی کبشہ یعنی محمد ﷺ کہتے ہیں بخدا یہ نہ تو شعر ہے اور نہ ہی کوئی جادو۔ اور نہ ہی کسی پاگل کی بڑ، یہ تو بلا شبہ اللہ کا کلام ہے۔
٭…سیدنا عمرؓ نے (اسلام لانے سے قبل) رسول اکرمﷺ سے ایک بار سورہ الحاقہ پڑھتے ہوئے سنی۔مقفی عبارت محسوس ہوئی۔ جب آپ ﷺ نے تلاوت کا رکوع ختم کیا تو سیدنا عمر ؓ کو خیال آیاکہ واقعی یہ کوئی شاعر معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ باتیں شعر کی مانند ہیں۔ جب آپ نے دوسرے رکوع میں
{فَلَا أُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُ‌ونَ ﴿٣٨﴾ وَمَا لَا تُبْصِرُ‌ونَ ﴿٣٩﴾ إِنَّهُ لَقَوْلُ رَ‌سُولٍ كَرِ‌يمٍ ﴿٤٠﴾ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ‌ ۚ قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ ﴿٤١﴾} (الحاقہ:۴۱۔ ۳۸ )
کی تلاوت فرمائی۔تو حضرت عمرؓ سن کر کہنے لگے۔ کہیں یہ کاہن نہ ہو کیونکہ اس نے میرے دل کی بات معلوم کر لی ہے۔ آگے آیت یہ تھی
{وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُ‌ونَ ﴿٤٢﴾ تَنزِيلٌ مِّن رَّ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴿٤٣﴾} (الحاقہ:۴۳۔ ۴۲ )
یہ سن کر سیدنا عمر ؓ نے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ کسی پاگل، مجنون، سحر زدہ یا شاعر کا کلام نہیں اور نہ جناب رسا لت مآب ﷺ کا اپنا تصنیف کردہ ہے۔ بلکہ یہ رحمن و رحیم اور رب العالمین کا نازل کردہ کلام ہے۔(الاتقان)
٭… یہ درست کہا جاتا ہے کہ
فُتِحَتِ البِلاَدُ ِبالسَّیْفِ وَفُتِحَتِ الْمَدِیْنَۃُ بِالْقُرْآنِ۔
دنیا کے مختلف علاقے تلوار سے فتح ہوئے مگر مدینہ منورہ صرف قرآن کریم سے ہی فتح ہوا۔
سیدنا مصعب بن عمیر اور عبد اللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہما کو جناب رسالت مآب ﷺ نے مدینہ بھیجا۔دونوں نے وہاں جم کر قرآن کریم کو پڑھایا۔ لوگ آتے اسے سنتے اور تھوڑے ہی عرصہ میں مدینہ کے بڑے بڑے زعماء اسلام میں داخل ہوگئے اور رسول اکرم ﷺ کی آمد کے راستے آسان ہوگئے۔
٭…یحیی بن اکثم کہتے ہیں:
مامون الرشید کی سالانہ علمی مجلس میں شرکت کے لئے علماء وشعراء اور ادباء کے ہمراہ ایک بار ایک یہودی بھی آیا۔وہ ایک خوش پوش اور خوشبو کا دلدادہ نوجوان تھا۔محفل میں بھی اس نے بہت اچھی علمی گفتگو کی۔ مجلس جب ختم ہوئی تو مامون نے اسے بلایا اور پوچھا : اسرائیلی ہو؟ اس نے کہا : جی ہاں۔ مامون نے اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور کہا قبول کرو تاکہ میں تمہارے لئے کچھ کروں۔ اس نے کہا: میرا مذہب اور میرے آباء کا مذہب ہی ٹھیک ہے۔ اور چلا گیا۔
سال بعد یہی یہودی دوبارہ اس محفل میں آیا تو مسلمان ہوچکا تھا۔ اس بار اس نے فقہ اسلامی پر بڑی سیر حاصل عالمانہ گفتگو کی۔ مجلس برخواست ہوئی تو مامون نے اسے بلا کر پوچھا : تم وہی اسرائیلی ہو جوگذشتہ سال بھی آئے تھے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ میں وہی ہوں۔ مامون الرشید نے کہا: تم نے اسلام کیسے قبول کیا؟ وہ بولا: میں جب آپ کی محفل سے اٹھ کر گھر لوٹا تو مجھے خیال آیا: کیوں نہ میں ان مذاہب کو ذرا کھنگال لوں۔آپ مجھے جانتے ہیں کہ میں خوشنویس بھی ہوں۔چنانچہ میں نے سب سے پہلے تورات کے تین خوبصورت نسخے تحریر کئے جن میں الفاظ کی کمی وبیشی بھی میں نے کردی۔پھر ان نسخوں کو لے کر میں کنیسہ گیا تو یہود نے مجھ سے یہ فوراًخرید لئے ۔اسی طرح میں نے انجیل کے کچھ نسخے تیار کئے جنہیں میں بیعہ لے گیا۔عیسائی حضرات نے انہیں بہت نادر پاکر فوراً خرید لیا۔پھر میں نے قرآن کے بھی تین نسخے کمی وبیشی کے ساتھ لکھے اور مسجدجا پہنچا۔ مسلمانوں نے سب سے پہلے تو ان کی ورق گردانی کی اور معلوم کرلیا کہ ان نسخوں میں کمی و بیشی کی گئی ہے۔ انہوں نے انہیں خریدنے سے انکار کردیا۔ اس وقت مجھے یقین ہوگیا کہ یہ کتاب محفوظ ہے اس میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ یہ میرے اسلام لانے کا سبب تھا۔
یحیی بن اکثم کہتے ہیں:
میں اسی سال حج پر گیا تو میری ملاقات امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ سے ہوئی۔ جنہیں میں نے یہ داستان سنائی۔وہ فرمانے لگے: یہ واقعہ تو اللہ تعالی کے ارشاد کو مزید سچ دکھاتا ہے۔میں نے عرض کی: وہ کونسی آیت ہے؟ فرمانے لگے: اللہ تعالی نے توراۃ وانجیل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
{بِمَا اسْتُحْفِظُواْ مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ } (المائدۃ:۴۴) ا
نہیں اللہ کی کتاب کا محافظ بنایا گیا مگر وہ عہدہ برآ نہ ہوسکے اس لئے وہ ضائع ہوگئیں۔
اور قرآن کریم کے بارے میں فرمایا
{ إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِکْرَ وَإنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ¡}(الحجر:۹)
ہم نے قرآن اتارا ہم خود ہی اس کی حفاظت کریں گے۔
اللہ تعالی نے ہمارے لئے اس کتاب کی حفاظت فرمائی اس لئے وہ ضائع نہ ہوسکی۔ (تفسیر القرطبی ۱۰؍ ۵۔۶)
… اسلام کے درست تعارف کے لئے اس سے بہتر کوئی اور کتاب غیر مسلم کے لئے نہیں۔یہ عقل اور جذبات دونوں کو بیک وقت اپیل کرتی اور اسے دلیل سے قائل کرتی ہے۔ناقدین بھی اس کے عدیم النظیر کلام ہونے کے قائل ہوئے ہیں۔ یہ زندہ کتاب ہے جس میں نئے مسائل کا حل ضرور ملتا ہے۔شیرون نامی ایک امریکی نومسلم خاتون نے قرآن مجید اس دعا کے ساتھ پڑھنا شروع کیا۔ اے اللہ : مجھے دکھا دے اگر یہ کتاب حق ہے۔ اس نے قرآن مجید کا ترجمہ کھولا تو اس کی نظر پہلی وحی پرپڑی: پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے تمہیں پیدا کیا۔ اس کے بعد ورق الٹے تو یہ آیت سامنے آئی: اہل کتاب میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں جن کی نظر جب حق پرپڑتی ہے تو وہ اسے قبول کرلیتے ہیں۔ شیرون لکھتی ہے: مجھے اچانک احساس ہوا کہ میں ایسی چیز کو پہلی بار ہاتھ لگا رہی ہوں جو واقعی مقدس ہے ۔ میں خوف سے لرز اٹھی مجھے معلوم ہوگیا : میں خدا کے کلام کو تھامے ہوئے ہوں۔ مجھے انتہائی اطمینان نصیب ہوا کہ میں نے حقیقت کو پالیا۔
(The Islam Is Rising in The West)
٭…یہی مفہوم ہے پہلی وحی کا ، جس میں جبریل امین آپ ﷺ کو بار بار بھینچتے ہیں۔اورہر دفعہ کہتے ہیں: پڑھو۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں۔ پڑھنا نہیں آتا۔ انہوں نے فرمایا: پڑھنا نہیں آتا تب بھی پڑھو اور لکھنا نہیں آتا تب بھی لکھو۔اس لئے اگر محمد بن عبد اللہ۔۔ امی۔۔ کے لئے پڑھنا لازمی ہے تو دنیاکی اکثریت خواہ اس کی زبان نہ سمجھتی ہو ان کے لئے بھی اس کا سیکھنا اور پڑھنا فرض ہے تاکہ دل بے تاب کو اطمینان نصیب ہو۔عرب کے بدو اگر اسے پڑھ کر بہترین قاری یا عالم بن سکتے ہیں تو دوسروں کے لئے کیا عذر ہے؟ عربی زبان کی تاثیر اور اس کا ترنم ہی کچھ ایسا ہے جو پڑھنے اور سننے والے کو مجبور کرتا ہے کہ اسے عربی میں ہی پڑھا اور سیکھا جائے۔اس کی تلاوتی موسیقی نے دنیا کے بڑے بڑے پاپ سنگرز کو رام کیا ہے۔
غور وفکر اور تدبر:
قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے ۔ اس کلام کی جامعیت کی وجہ سے اس میں بہت ہی گہرے معانی پوشیدہ ہیں۔ اس میں تاریخ ہے، نظام ہائے جاہلیہ ہیں۔ عقائدواحکام ہیں۔خرافی اور ملحد ومشرک کی سوچ، عمل اور ذہنیت کا تذکرہ بھی ہے۔عباد الرحمن جو اولیاء اللہ ہیں ان کی صفات بھی ہیں۔انبیاء وصدیقین اور شہداء وصالحین کی منقبت اورواقعات بھی ہیں۔ ان سب میں اسباق ہیں، عبرتیں ہیں اور تاریخ ہے۔جنہیں پڑھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ تدبر وغورچند امور میں کرنا ہے:
۱۔ اپنی فکری وعملی اصلاح:
ماضی وحال کے افکار وعمل کے مقابلے میں اپنی فکر وعمل کو آباء واجداداور اکابرین کی عقیدت سے ہٹ کر صرف قرآنی تعلیم کی روشنی میں کرنا۔جس کا بہترین نمونہ سنت نبوی نے پیش کردیا ہے۔ اور وقتی مسائل کے حل کے لئے دینی حل پر اپنے تدبر کو مزید پختہ بنانا۔منہج قرآن سے ہٹا ہوا الحادی وغیر دینی تدبر بجائے خود باعث تدبر ہوتا ہے۔
۲۔ تابناک وروشن مستقبل کے لئے تگ ودو :
خرافات جس میں الحاد وشرک بھی شامل ہیں یہی معاشرتی زندگی کے لئے مہلک ثابت ہوئے ہیں۔عقل سلیم ان کا اباء کرتی ہے۔اور الٰہی پیغام کے آگے سرنگوں بھی ہوتی ہے۔روشن وپر امن مستقبل کی قرآن پاک ضمانت دیتا ہے۔پاکیزگی ذہن اور پاکیزگی عمل ہی معاشرے کو پاکیزہ ومنصفانہ بناتے ہیں ۔جس سے مستقبل بھی تابناک ہوتا ہے۔شر کی قوتوں میں یہ خیر وپاکیزگی کہاں؟ کفر، شرک، بے حیائی اور اباحت پسندی کو تو پسند کرتی ہے مگر الہ واحد کی مطلق العنانی کو تسلیم کرنے پر تو بہت سے عباپوش بھی فرعونیت کا روپ دھار لیتے ہیں جو ظلم وجبر کی علامت ہے۔قرآن کریم اس تاریکی میں روشنی کا دیا ضرور جلاتا ہے۔جس سے تاریکی چھٹنے کی امید بر آتی ہے۔
۳۔ عمل اور دعوت:
غور وفکر اور تدبر کودرست راہ پرلانے اور قرآنی اسباق یاد رکھنے کے لئے عمل بھی ضروری ہوگا۔قرآن پاک کی صحیح تلاوت قلوب کفار پر اپنا اثر چھوڑتی ہے اور مومن کو تو اندر سے توڑ پھوڑ کر رب ذوالجلال کے آگے جھکا دیتی ہے۔تعلیم قرآن کے بعدعملی تبدیلی کا مطلب واضح ہوجاتا ہے کہ فکر وعمل کی اٹھان اب دین کی تعلیمات کے مطابق ہونی چاہئے نہ کہ خاندانی، آبائی، عرفی یا معاشرتی اقدار پر۔ یہ بغاوت کی دعوت نہیں بلکہ دین سے بچھرے ہوؤں کو راہ راست پر لانے کی دعوت ہے۔ خود بدلئے! ماحول بدل جائے گا۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم اپنا گھرانہ بچا رہے گا جس کا جواب دہ ہر مسلمان ہے۔دعوت کے لئے انتہائی مناسب طریقے گھر گھر اور مسجد مسجد یا ہر مدرسہ وسکول میں حلقات کا انعقاد، تحفیظ قرآن کے مراکز نیز دین کے بنیادی عقائد ومسائل سے آگاہی پر مشتمل اہل علم کے لیکچرز اور اس میں بیوی بچوں سمیت شرکت کرنا ودل چسپی لینا ہے۔
٭٭٭٭٭​
سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کا فرمانا ہے
إِنَّکَ لاَ تَفْقَہُ کُلَّ الْفِقْہِ حَتّٰی تَرَی لِلْقُرآنِ وُجُوہًا۔
تم قرآن کریم کو سمجھ ہی نہیں سکتے جب تک کہ اس کی تمام وجوہ کو نہ دیکھ لو۔
اس لئے علماء نے اس موضوع الوُجُوہُ وَالنَّظَائِرُ پر کتب لکھی ہیں۔
وجوہ:
جس لفظ کے مختلف معنی ہوں
نظائر:
وہ لفظ جس کے معنی دو جگہوں پرایک جیسے ہوں۔
اپنا تبصرہ لکھیں