معروف بھارتی مصنف خشونت سنگھ انتقال کر گئے

khasonat 2
anwar pasha
عمر کے آخری دور میں بھی وہ لکھنے میں سرگرم رہے اور گزشتہ سال ان کی کتاب خشونت نامہ: دی لیسنز آف مائی لائف شائع ہوئی تھی
بھارت کے معروف صحافی، مصنف اور کالم نگار خشونت سنگھ جمعرات کی صبح دہلی میں اپنی رہائش گاہ پر انتقال کرگئے۔

ان کی عمر 99 برس تھی۔ انھوں نے ایک بیٹے اور بیٹی کو سوگوار چھوڑا ہے۔

خشونت سنگھ دو فروری سنہ 1915 کو موجودہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع خوشاب کے گاں ہڈالی میں پیدا ہوئے تھے۔

انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم بھارت کے شہر دہلی میں حاصل کی اور پھر مزید تعلیم کے لیے لاہور کے گورنمنٹ کالج کا رخ کیا تھا۔

برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی اور انر ٹیمپل میں اعلی تعلیم کے حصول کے بعد انہوں نے واپس لاہور جا کر ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی۔

تقسیمِ ہند کے بعد وہ اپنے خاندان سمیت نئی دہلی میں بس گئے۔ وہ کچھ عرصہ وزارت خارجہ میں سفارتی عہدوں پر بھی تعینات رہے لیکن جلد ہی سرکاری نوکری کو خیرآباد کہہ دیا۔

ان کا ذرائع ابلاغ سے تعلق 1940 کی دہائی کے آخر میں اس وقت قائم ہوا تھا جب انھوں نے وزارتِ خارجہ میں ملازمت کی اور پہلے کینیڈا اور پھر برطانیہ اور آئرلینڈ میں افسرِ اطلاعات اور پریس اتاشی کے طور پر بھارتی حکومت کی نمائندگی کی۔

سرکاری ملازمت کے دوران ہی انھوں نے ملک کے منصوبہ بندی کمیشن کے جریدے یوجنا کی ادارت سے اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا اور سرکاری ملازمت سے مستعفی ہونے کے بعد1951 میں صحافی کی حیثیت سے آل انڈیا ریڈیو میں نوکری اختیار کر لی جہاں سے ان کے تابناک کریئر کا آغاز ہوا۔

پدم بھوشن کی واپسی

بھارتی حکومت نے انہیں 1974 میں ملک کے دوسرے بڑے شہری اعزاز پدم بھوشن سے نوازا تھا لیکن 1984 میں گولڈن ٹیمپل میں ہونے والے فوجی آپریشن بلیو سٹار پر احتجاجا انہوں نے یہ اعزاز واپس کر دیا تھا۔
وہ بھارت کے مشہور جریدے نیشل ہیرالڈ جو کہ بعد میں السٹریٹڈ ویکلی کہلایا کہ مدیر رہے اور ان کے دور میں یہ جریدہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ خشونت سنگھ ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر بھی رہے۔

خشونت سنگھ نے 30 سے زیادہ ناولوں کے علاوہ درجنوں افسانے اور مضامین سمیت 80 سے زیادہ کتابیں تحریر کیں۔

بطور ادیب انھیں سب سے پہلے پہچان برصغیر کی تقسیم کے موضوع پر لکھے گئے ناولٹرین ٹو پاکستان سے ملی جسے 1954 میں عالمی شہرت یافتہ گروو پریس ایوارڈ دیا گیا

اس کے علاوہ انہوں نے ہسٹری آف سکھ کے نام سے سکھ مذہب کی تاریخ بھی لکھی جسے اس سلسلے میں ہونے والا سب سے ٹھوس کام سمجھا جاتا ہے۔

عمر کے آخری دور میں بھی وہ لکھنے لکھانے میں مصروف رہے اور گزشتہ سال ان کی کتاب خشونت نامہ: دی لیسنز آف مائی لائف شائع ہوئی تھی۔

خشونت سنگھ 1980 سے 1986 تک بھارتی راجیہ سبھا کے رکن بھی رہے۔ بھارتی حکومت نے انہیں 1974 میں ملک کے دوسرے بڑے شہری اعزاز پدم بھوشن سے نوازا تھا لیکن 1984 میں گولڈن ٹیمپل میں ہونے والے فوجی آپریشن بلیو سٹار پر احتجاجا انہوں نے یہ اعزاز واپس کر دیا تھا۔

ان کے انتقال پر بھارت کے وزیراعظم منموہن سنگھ کی سرکاری ٹویٹ میں کہا گیا، وہ ایک باصلاحیت مصنف اور پیارے دوست تھے۔ انہوں نے واقعی ایک تخلیقی زندگی گزاری۔

ان کی موت پر مورخ رام چندر نے اپنی ٹویٹ میں کہا، خشونت سنگھ اپنی سکھوں کی تاریخ کے باعث یاد کیے جائیں گے۔ اگرچہ ہم انہیں بھول سکتے ہیں لیکن ان کی کتابیں اور سخاوت یاد رکھی جائے گی۔

مصنف امتیاو گھوش نے ٹویٹ کرتے ہوئے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا اور کہا، عظیم مرخ، ناول نگار، ایڈیٹر، کالم نگار اور ایک شاندار آدمی خشونت سنگھ کی موت بہت افسوس ناک خبر ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں