مصحف  قسط نمبر14  

تحرير۔ نمرہ احمد

انتخاب۔ راحيلہ ساجدear rings

سیڑهیوں کے ساتھ لگے قد آدم آئینے کے سامنے کهڑی وہ کان میں جهمکا پہن رہی تهی- جهمکا چاندی کا تها، اس کے سلور چوڑی دار پائجامے جیسا اور سبز قمیص پہ بهی ایسا سلور کام تها اور دوپٹہ تو یوں تها جیسے سبز آسمان پہ تارے بکهرے ہوں- چهوٹی آستینوں سے اس کے گورے گداز بازو نمایاں تهے اور نازک کلائیوں میں بهر بهر کے سلور اور سبز چوڑیاں- ہلکا سا میک اپ اور سنہرے بهورے باک سیدهےشانوں پہ بکهرے تهے-

جهمکا کان میں جا کے ہی نہیں دے رہا تها- وہ چوڑیوں بهرے دونوں ہاتهوں سے جهمکے کو کان کے سوراخ میں ڈالنے کی کوشش کر رہی تهی- سب باہر لان میں جمع تهے، منگنی کا فنکشن شروع تها اور ایک اس کی تیاری رہتی تهی-
” اف او-” اس نے جهنجهلا کر جهمکا کان سے ہٹایا- کان کی لو سرخ پڑ چکی تهی-
” اب کیا کروں؟”
اسی پل آئینے میں اس کے پیچهے فواد کا چہرہ ابهرا-
” فواد بهائی؟” وہ حیران سی پلٹی- ” آپ ادهر ؟ سب تو باہر ہیں-”
” تم بهی تو ادهر ہو-” وہ اس کے سامنے آ کهڑا ہوا- بلیک سوٹ میں وہ اتنا اسمارٹ بندہ بنا پلک جهپکے جیسے مبہوت سا اسے دیکهے جا رہا تها- اس کی نظریں بلا ارادہ ہی جهک گئیں-
” تم کتنی خوبصورت ہو محمل!”
محمل کا دل زور اے دهڑکا- اس نے بمشکل پلکیں اٹهائیں- وہ ان ہی مخمور نگاہوں سے اسے ديکھ  رہا تها- اس کی نظروں کی حدت سے اس کے رخسار سرخ پڑنے لگے-
” وہ… وہ جهمکا…..پہنا نہیں جا ریا-” وہ گهبرا کر جیسے ادهر ادهر دیکهنے لگی-
” ادهر دکهاؤ-” فواد نے اس کے ہاتھ سے جهمکا لیا، ذرا سا جهکا اور ایک ہاتھ  سے اس کا کان پکڑا دوسرے سے جهمکا ڈال دیا-
” لو…… اتنی سی بات تهی اور تم نے پورا کان سرخ کر ڈالا-” اس نے نرم لہجے میں کہتے ہولے سے اس کے بهورے بالوں کو چهوا اور پهر پیچهے ہٹ گیا- وہ بهی سنبهل کر جهمکے کا سہارا لگانے لگی-
ایک دم ہی فواد بنا کچھ  کہے باہر نکل گیا، اور وہ جو پچهلے لمحے کے فسوں میں کهوئی تهی، چونک کر پلٹی- وہ دروازہ بند کر کے  جا چکا تها-
” یہ کیا؟” وہ الجھ کر آئینے کی طرف پلٹی تو ٹهٹک گئی-
حسن سیڑهیوں کے اوپر کهڑا تیکهی نگاہوں سے اسے ديکھ  رہا تها-
وہ گڑ بڑا کر جلدی جلدی بالوں میں برش پهیر کر جانے لگی، مگر حسن سیڑهیاں تیز تیز پهلانگتا نیچے آیا اور……
” اسر آج کے بعد میں نے تمہیں فواد کے دس فٹ کے قریب بهی دیکها تو ٹانگیں توڑ کر گهر بٹها دونگا سمجهیں- غصے سے اس کی کلائی پکڑ کر اس نے اتنی زور کا جهٹکا دیا کہ وہ چیخ پڑی-
” حسن بهائی……..”
” سمجهیں، یا نہیں؟” اس نے دوبارہ جهٹکا دے کر اس کی کلائی چهوڑی اور ایک غصیلی نگاه ڈال کر لمبے لمبے ڈگ بهرتا بایر نکل گیا-
وہ ساکت سی اپنی جگہ کهڑی رہ گئی- اس نے اس کی چوڑیوں والی کلائی تهامی تهی اور آدهی سے زیادہ چوڑیاں تڑ تڑ ٹوٹ کر گرنے لگی تهیں- بہت سا کانچ اسے چبھ گیا تها اور جگہ جگہ سے خون کے قطرے رسنے لگے تهے-
” یہ…..حسن بهائی… انہیں کیا ہوا؟” وہ دکھ سے اپنی زخمی کلائی دیکهتی رہ گئی- سبز کانچ کے ٹکرے فرش پہ بکهرے تهے- اس کی آنکهوں میں آنسو آ گئے-
یتیم ہونے کا یہ مطلب تها کہ جس کا دل چاہے اس پہ ہاتھ اٹهائے-؟ وہ آنسو پیتی اندر کے زخم کو بمشکل برداشت کا مرہم لگاتی جهک کر کانچ چننے لگی- دل چاہ رہا تها کہ خوب روئے مگر خود کو سنبهالے وہ دوسری چوڑیاں پہن کر باہر آگئی-
سدرہ بڑے صوفے پہ دلہن کی طرح سجی سنوری بیٹهی تهی- عام سی شکل کی سدرہ میک اپ کے باوجود بهای عام لگ رہی تهی- اس کا منگیتر قدرے موٹا تها، اور خاصا شرمایا ہوا بهی- اس میں کچھ  ایسا نہ تها کہ کوئی متاثر ہوتا آور ندا اور سامیہ تو مسکرا مسکرا کر دل جلے تبصرے بهی کر رہی تهیں- سننے میں آیا تها کہ وہ مہتاب کی کسی سیکنڈ کزن کا بیٹا تها- یہیں اسلام آباد میں ایک اچهی پوسٹ پہ کام کر رہا تها- جانے کب رشتہ آیا اور ہاں ہوئی، اسے اور مسرت کو تو غیروں کہ طرح خبر دی گئی تهی-
لان میں قمقموں اور روشنیوں کی بہار تهی- وہ جس وقت باہر آئی تو رسم ہو رہی تهی اور سمدهنیں ایک دوسرے کو مٹهائی کهلا رہی تهیں- سب ہنس بول رہے تهے-
وہ خاموشی سے گهاس پہ چلتی ہوئی ایک کرسی پہ آ بیٹهی- اس کا دل اداس اور آنکهیں غمگین تهیں-
فواد بهی وہیں اسٹیج پہ کسی کی بات پہ ہنستا ہوا اپنے بہنوئی کو مٹهائی کهلا رہا تها- محمل نے اردگرد متلاشی نگاہوں سے دیکها- اسٹیج کے سامنے، گهاس پہ ساڑهی میں ملبوس فضہ اپنی کسی جاننے والی خاتون سے حسن کا تعارف کروا رہی تهیں- حسن کے بازو کو تهامے وہ بہت فخر اے اس خے متعلق بتا رہی تهیں اور وہ مسکراتے ہوئے اس خاتون سے بات کر رہا تها- اس نے بهی بلیک ڈنر سوٹ پہن رکها تها اور بلاشبہ وہ بہت گڈ لکنگ تها-
محمل نے دکھ  سے اسے دیکها- اس پل اسے حسن سے بڑا منافق اور دوغلا کوئی نہ لگا تها- حسن نے اس کی نازک کلائی کو ہی نہیں، اس کے دل کو بهی زخمی کر دیا تها- سارے فنکشن کا مزہ خراب ہو گیا تها- وہ اتنی بددل اور غمزدہ بیٹهی تهی کہ احساس ہی نہیں ہوا کہ کب وسیم اس کے ساتھ  آکهڑا ہوا-
” آج کتنوں کو گرانے کا ارادہ ہے سرکار؟” وہ ایک دم بہت قریب آ کر بولا تو وہ اچهلی وہ اپنے ازلی لوفرانہ انداز میں مسکرا رہا تها-
” بڑے لشکارے ہیںچهوٹی کزن ، خیریت؟” وہ معنی خیزی سے پهر مسکرایا تو وہ گهبرا کر اٹهی اور لڑکیوںکے گروپ کی طرف بڑھ گئی- ساتھ  ہی بار بار پیچهے مڑ کر دیکهتی- وسیم ادهر ادهر گھومتے مسلسل اسے اپنی نگاہوں کے حصار میں رکهے ہوئے تها-
وہ بچتی بچاتی لوگوں میں ہی گهری رہی- وہ سب کزنز بہت خوش اور ایک ساتھ مکمل نظر آرہے تهے- صرف وہ ایک فالتو کردار تهی- حالانکہ کتنی ہی عورتوں نے پوچها تها کہ یہ سبز اور سلور کپڑوں والی لڑکی کون ہے؟ وہ تهی ہی اتنی منفرد اور الگ مگر ہر شے سے بےخبر وہ سارا وقت افسردہ ہی رہی-
سدرہ کی منگنی پہ جتنے شغل اور مزے کا اس نے سوچا تها، اس سے بڑه کر وہ بدمزہ ہوئی تهی-
فواد اسے آفس میں چهوٹے موٹے کام دینے لگا تها- زیادہ تر اسے سپرویژن پہ ہی لگاتا-
” یہ ڈرافٹ بنوانا ہے، اپنی نگرانی میں فنانس کے ذاکر صاحب سے بنوا لاو-”
” اس چیک پہ سائین کروانے ہیں- مفتی صاحب سے کروا لاو-”
اور یہ سارے کام بہت اعتماد طلب ہوتے تهے- اسے اچها لگتا کہ وہ اس پر اعتماد کرتا ہے، اس کا خیال کرتا ہے- دوپہر کا کهانا وہ اکٹهتے ہی کهاتے، باقی وقت وہ اپنے آفس میں کام کرتا اور محمل اپنے کیبن میں بيٹھ  کر دوسروں کا بغور مشاہدہ کرتی- کبهی کبهی اسے احساس ہوتا کہ اتنے دن گزر جانے کے بعد بهی نہ تع وہ کام کے بارے میں زیادہ سمجھ  پائی ہے اور نہ ہی وہ اور فواد زیادہ قریب آئے ہیں- وہ ہمیشہ اس کی پسند کی چیز منگواتا، اس سے اس کی اسٹڈیز اور مشاغل کے بارے میں ہلکی پهلکی گپ شپ کرتا مگر اس شام آئینے کے سامنے کهڑے ہو کرجهمکا پہنانے جیسی بےخودی اور”جرآت” پهر اس نے  نہيں کی تهی-
اس روز وہ صبح فواد کے ساتھ  آفس نہیں گئی تهی-
” دوپہر میں اسٹاپ پہ آنا، میں تمہیں پک کر لونگا، آج مجهے تم سے کچھ  بات کرنی ہے-” وہ صبح دهیرے سے کہہ گیا تها، اور اب وہ مسرور سی دوپہر کے انتظار میں اوپر ٹیرس پہ بیٹهی چائے پی رہی تهی-
جانے  فواد کو کیا بات کرنی تهی، اتنا کیا خاص کام تها، وہ ٹانگ پہ ٹانگ چڑهائے بیٹهی چائے کے سپ لیتی سوچے جا رہی تهی- نگاہیں یونہی ساتھ  والوں کے لان پہ بهٹک رہی تهیں- وہاں گهاس پہ سفید چادریں بچهی ہوئی تهیں اور ان پہ سفید آلوار قمیص اور ٹوپیوں والے مدرسے کے بچے ہل ہل کر سپارے پڑھ رہے تهے- درمیان میں ایک چهوٹی میز تهی، اس پہ ایک بڑا سا قرآن اور کچھ  سپارے رکهے تهے-  ساتھ ہی اگربتیاں جل رہی تهیں-
وہ بلا ارادہ ہی بند بڑے قرآن کو دیکهے گئی- ذہن کے کسی نہاں خانے سے وہ چہرہ نکل کر اسکی آنکهوں کے سامنے آیا تها-
سیاه فام لڑکی کا چہرہ- سیاه آنکهیں اور موٹے موٹے سیاہی مائل ہونٹ- وہ مصحف کو سینے سے لگائے لنگڑاتی ہوئی سڑک پر دور جا رہی تهی- کبهی کبهی اسے وہ منظر یاد آتا تو یوں لگتا کہ شاید…….. شاید جاتے سمے اس کی سیاہ آنکهوں میں آنسو تهے- وہ کیوں رو رہی تهی، وہ سمجھ  نہ پائی-
اسی طرح بچے ہل ہل کر سپارے پڑھ رہے تهے- اس نے دیکها، کونے میں بیٹهے ایک بچے نے سیپارے کا صفحہ الٹتے ہوئے احتیاط سے ادهر ادهر دیکها اور پهر دو صفحے الٹ دے- چند لمحے بعد پهر اس نےنگاه آس پاس گهمائی اور کسی کو متوجہ نہ پا کر پهر سے اکٹهے الٹ دیے اور پهر لہک لہک کر بلند آواز میں پڑهنے لگا-
نہ چاہتے ہوئے بهی محمل ہنس دی- وہ چهوٹا سا بچہ اپنی دانست میں دوسروں کو دهوکہ دے رہا تهایا پهر شاید رب کو، وہ جان نہ پائی-
بچے آہستہ آہستہ اٹھ کر سیپارے رکهنے لگے، یہاں تک کہ سارے سیپاروں کا ڈهیر واپس میز پہ لگ گیا- تو قادری صاحب نے قریب کهڑے ملازم کو اشارے سے اپنی طرف بلایا-
” قرآن خوانی ہو چکی ہے، برگیڈئیر صاحب کو بلا دیجئے کہ دعا میں شرکت کر لیں-” ملازم اندر گیا-
وہ فواد کو بهول کر دلچسپی اور تجسس سے ریلنگ پہ جهکی، ساری کاروائی دکهنے لگی- چائے کا کپ اس نے ایک طرف ڈال دیا تها-
چند منٹ بعد ملازم برآمدہ عبور کر کے لان میں نکل آیا تها- قاری صاحب جو منتظر سے بیٹهے تهے، سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکهنے لگے-
” سر کہہ رہے ہیں کہ وہ بزی ہیں، دعا میں شرکت نہیں کر سکتے، مگر آپ کا شکریہ کہ آپ نے قرآن پڑ ھ دیا- سر کہہ رہے ہیں کہ انہیں سکون نہیں ہے،باقی سب ٹهیک ہے، بس یہی دعا کروا دیں کہ انہیں سکون مل جائے-”
قاری صاحب نے گہری سانس لی اور دعا کے لیے ہاتھ  اٹها دیے-
وہ جیسے شاکڈ سی سارا منظر ديکھ  رہی تهی- دل میں نامعلوم سا افسوس اتر آیا تها- ایک عجیب سا احساس ندامت، عجیب سی بے کلی- وہ اس احساس کو کوئی نام تو نہ دے سکی تو چائے کا کپ اٹهائے نیچے اتر آئی-
جاری ہے…….

اپنا تبصرہ لکھیں