مصحف   قسط نمبر ۔ 20

تحرير۔ نمرہ احمد

انتخاب۔ راحيلہ ساجد
میرے اللہ تعالی، مجهے گهر واپس پہنچا دے-” وہ پهر سے رو دینے کو تهی- ” مجهے تیری قسم، میں پهر کبهی فواد بهائی کے ساتھ کبهی تنہا، کبهی ان کو اکیلے نہیں ملوں گی- ميں  قسم کهاتی ہوں- آئی سوئیر!”
دعا مانگ کر قدرے پرسکون ہوئی تو چہرے پہ ہاتھ  پهیر کر اٹهی-
” ایک بات پوچهوں فرشتے؟” وہ دونوں ہال کی سیڑهیاں چڑھ  رہی تهیں-
“پوچهو-”
” قسم کهانے سے اللہ مان جاتا ہے؟”
” قسم ناپسندیدہ چیز ہے ، یہ مقدر نہیں بدلتی- جو ہونا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے-”
” اور اگر قسم کها لی جائے تو؟”
” تو مرتے وقت تک اس کو نبهانا پڑتا ہے-” آخری سیڑهی چڑهتے فرشتے ذرا سی چونکی- ” کوئی الٹی سیدهی قسم مت کهانا کہ یہاں سے رہائی ملنے پہ تم فلاں اور فلاں کام کرو گی-”
” رہائی؟” برآمدے کی چوکهٹ پار کرتے محمل گڑبڑا گئی- دل زور سے دهڑکا-
” ہاں تمهیں گهر جانا ہے نا- میں تمہیں چهوڑ آتی ہوں-” وہ ساکت سی اسے دیکهے جارہی تهی-
” رک کیوں گئیں ، آؤ  نا-”
” آپ کو……. آپ کو کیسے پتا چلا؟”
” بات یہ ہے محمل! اول تو تہجد کے وقت یہاں کوئی عبایا پہن کر نہیں گهومتا’ دوم یہ کہ تم نے میرا عبایا اور اسکارف پہن رکها ہے اور سوم، میں نے تمہیں صحن پهلانگتے ديکھ  لیا تها-”
محمل نے گهبرا کر اپنے جسم پہ موجود عبايا  کو دیکهاجس سے لمبی مردانہ شلوار کے پائنچے ذرا ذرا سے جهلک رہے تهے-
” وہ……دراصل-”
” ہمایوں کے باتھ روم کی کهڑکی ہماری چهت پہ کهلتی ہے- اس نے تمہیں با تھ روم میں بند کر دیا تها، میں بات کرونگی، اسے ایسے نہیں کرنا چاہیے تها- تهوڑا سا خشک مزاج ہے مگر دل کا برا نہیں ہے، آؤ-” پهر اس کی شاکڈ شکل ديکھ  کر وضاحت کی- ” ہمایوں میرا فرسٹ کزن ہے، وہ برا آدمی نہیں ہے ‘ آؤ-”
اسی پل گیٹ زور سے کسی نے بجایا- ساتھ  ہی بیل بهی دی- فرشتے نے گہری سانس لی-” آؤ  لڑکی-” اور اس کا ہاتھ  پکڑ کر گیٹ تک لائی، پهر ہاتھ  چهوڑ کر دروازہ کهولا-
” فرشتے ادهر وہ-”
” السلام علیکم ! اور یہ کیا غلط حرکت ہے؟ تمہیں مسئلہ اس کے کزن کے ساتھ  ہے تو اسے کیوں باتھ روم میں بند کیا تها؟-”
” بالکل ٹهیک کیا تها، کدهر ہے وہ؟ وہ جوابا بگڑ کر بولا تها-”
محمل سہم کر قدرے اوٹ میں ہو گئی- یہ تو وہی تها- وہ اس کی آواز پہچانتی تهی-
” وہ میرے ساتھ  ہے ، مگر تمہیں اس کےساتھ  عزت سے پیش آنا چاہیے تها- ” فرشتے کے لہجے میں دبی دبی سختی تهی-
” جو بهی ہے…..تم اسے-”
” نہیں ہمایوں! تم اسکو مجرم کی طرح ٹریٹ مت کرو- اس کا کیا قصور ہے؟ وہ تو اپنے بهائیوں جیسے کزن پہ ٹرسٹ کر کے چلی آئی تهی-
وہ حق دق سنے جا رہی تهی- ابهی تو فرشتے کو بلاواسطہ سب کتها سنا آئی تهی اور تب فرشتے فواد کو نامحرم کہہ رہی تهی اور اب ہمایوں کے سامنے کیسے اسکی نادانیوں پہ پردہ ڈال گئی تهی-
” اس کا قصور یہ ہے کہ وہ فواد کریم کی کزن ہے- اسے لے کر آؤ-” اب کے ہمایوں داؤد کا لہجہ متوازن تها- فرشتے اسے راستہ دینے کے لیے چوکهٹ پار کر کے باہر چلی گئی تو وہ دهڑکتے دل سے گیٹ کی اوٹ سے نکلی-
سامنے ہی وہ کهڑا تها- یونیفارم میں ملبوس مکمل طور پہ تیار ، اکهڑ تیور اور ماتهے پہ بل لیے-
” جب میں نے بکواس کی تهی کہ وہاں رہو، تو تم نے قدم باہر کیوں نکالا؟”
” نوکر نہیں ہوں میں آپکی، جو آپکا حکم مانوں- آپ ہیں کون مجهے حکم دینے والے، ہاں؟” وہ بهی جوابا غرائی تهی-
” وہاٹ،تم-”
” زبان سنبهال کر بات کریں اےایس پی صاحب، میں مسجد میں کهڑی ہوں اور اب آپکا مجھ  پہ کوئی زور نہیں ہے- اس نے گیٹ کا کنارہ مضبوطی سے پکڑ رکها تها-
” تم…….” وہ کچھ  سخت کہتے کہتے رک گیا، پهر فرشتے کی طرف پلٹا جو خاموشی سے سب ديکھ  رہی تهی-
” اس سے کہو کہ میرے ساتھ  آئے، میں اسکا دشمن نہیں ہوں-”
فرشتے نے خاموشی سے ہمایوں کی بات سنی اور جب وہ چپ ہوا تو محمل کی طرف مڑی-
” اس کے ساتھ  چلی جاؤ، یہ تمهارا دشمن نہیں ہے-”
” مجهے ان پہ رتی برابر بهروسہ نہیں ہے-”
” ہونا بهی نہیں چاہیے مگر تمہارے تنہا گهر جانے اور پولیس موبائل میں جانے میں فرق ہو گا- آگے تم اپنے فیصلوں میں آزاد ہو-”
بات کچھ  ایسی تهی کہ وہ خاموش سی ہوگئ-
” ٹهیک ہے آئيں-” اس نے باہر قدم رکهے، پهر پلٹ کر فرشتے کو دیکها جو گیٹ کے ساتھ  سینے پہ ہاتھ  باندهے کهڑی تهی-
اس کی پشت پہ وہ عالیشان تین منزلہ عمارت تهی جس کے اونچے سفید ستون بہت وقار سے کهڑے تهے- جیسے کوئی بلند و بالا سفید محل ہو- اس کا گنبد نہ تها مگر فرشتے اسے مسجد کہہ رہی تهی-
اس سے متصل بنگلہ اپنی خوبصورت آرائش کے ساتھ  وہیں موجود تها جہاں اس نے رات ميں  دیکها تها-
” تهینکس-” وہ کہہ کر رکی نہیں-
ہمایوں سامنے کهڑی پولیس موبائل کی ڈرائیونگ سیٹ سنبهال چکا تها- وہ اعتماد سے چلتی ہوئی آئی اور فرنٹ دوڑ کهول کر نشست سنبهالی-
” آپ مجهے میرے گهر لے کر جا رہےہیں-”
” نہیں -” سرد سے انداز میں کہہ کر وہ گاڑی روڈ پہ ڈال چکا تها-
” پهر؟ پهر ہم کہاں جا رہے ہیں؟”
“تهانے-”
“مگر مجهے گهر… ”
“بی بی مجهے بحث پسند نہیں ہے- خاموش رہو-” اس کو جهڑک کر ہمایوں نے سپیڈ اور بڑها دی-
وہ نم آنکهوں سے سامنے سڑک کو دیکهنے لگی- جانے اس کی قسمت اس کو اب اور کیا کیا دکهانے والی تهی-
آج آغاابراہیم کی عالیشان کوٹهی کے لان میں صبح سے ہی سب جمع تهے-
آغا کریم چہرے پہ ڈهیروں غیض و غضب لیے پر رعونت انداز میں کرسی پہ براجمان تهے- مہتاب تائی ، فضہ اور ناعمہ چچی قریب ہی کرسیوں پہ بیٹهی معنی خیزی سے مدهم سرگوشیاں کر رہی تهیں- غفران چچا اور اسد چچا بهی پاس ہی پریشان سے بیٹهے تهے-
برآمدے کے زینے پہ آرزو بیٹهی تهی- گهٹنوں پہ پلیٹ رکهے ، وہ اپنی ازلی بےنیازی سے توس پہ جیم لگا رہی تهی-
اس کے پيچھےبرآمدے میں بچهی کرسیوں پہ باقی لڑکیاں بیٹهی کهسر پهسر کر رہی تهیں-
حسن مضطرب سا گهاس پہ ٹہل رہا تها- بار بار اپنے سیل فون پہ کوئی نمبر پریس کرتا وہ جهنجهلا سا رہا تها- وسیم اپنے کمرے میں تها اور-
فواد، آغاجان کے برابر کرسی ڈالے اخبار پهیلائے سرسری سا مطالعہ کر رہا تها- گاہے بگاہے نگاه اٹها کر سب کے چہروں کے تاثرات ديکھ  لیتا- اس کے انداز میں اطمینان و سرشاری تهی-
بس ایک مسرت تهیں جو کچن میں کرسی پہ بیٹهی خاموشی سے آنسو بہا رہی تهیں- ان کی ساری زندگی کی ریاضت رائیگاں گئی تهی- محمل کل اکیڈمی جانے کا کہہ کر باہر نکلی تهی اور جب شام تک اس کی واپسی نہ ہوئی تو انکا دل بیٹهنے لگا تها- کتنے نفل پڑه ڈالے، کتنی دعائیں کر لیں، مگر وہ واپس نہ آئی-
بات چهپنے والی کہاں تهی بهلا؟ سب کو خبر ہو ہی گئی- آغا جان تا سراپا غیض و غضب بن گئے- تهانے جانے کی بات کی تو فواد نے ہی انہیں سمجهایا کہ گهر کی عزت داؤ پہ لگانے کا فائدہ، تهوڑی دیر مزید انتظار کر لیتے ہیں-
حسن اور اسد چچا ساری رات اسے ہسپتالوں ، مردہ خانوں اور سڑکوں پہ تلاشتے رہے تهے- مگر جب تین بجے کے قریب وہ ناکام لوٹے تو گهر میں گویا صف ماتم بچھ گئی-
عورتوں کی معنی خیز نگاہیں، مردوں کی ملامت بهرے فقرے مسرت کو اپنی روح میں گڑتے ہوئے محسوس ہوئے تهے- وہ اسی وقت سے روئے چلی جارہی تهیں- کوئی صفائی، کوئی دہائی نہیں، بس آنکھ  میں آنسو اور لبوں پہ وہ ایک ہی دعا کہ محمل کی لاش کسی ہسپتال ، کسی نہر نالے سے مل جائے مگر وہ نہ ہو جو ان کی ساری ریاضت ضائع کر دے-
” بهاگ گئی کسی کے ساتھ ، ارے میں تو پہلے ہی کہتی تهی-” صبح کا سورج طلوع ہونے لگا تهاجب تائی مہتاب کی آواز کچن میں سنائی دی تهی-
” شک تو مجهے بهی یہی ہے-” ناعمہ چچی نے بلند سی سرگوشی کی- وہ سب رات سے جاگ رہی تهیں – البتہ حسن کے علاوہ باقی سب لڑکے لڑکیاں بهرپورنیند لے کر ابهی بیدار ہوئے تهے-
” باس!” آغاجان ایک دم دهاڑے- اندر کچن میں روتی مسرت نے دہل کر بهیگا چہرہ اٹهایا-
سب نے چونک کر آغاجان کو دیکها جن کا سرخ و سفید چہرہ غصے سے تمتما رہا تها-
” اب اگر وہ زندہ اس دہلیز پہ واپس آئی تو میں اسے یہیں دفن کر دوں گا- سن لیا سب نے-”
” ارے ایسی بیٹیوں کا تو پیدا ہوتے ہی گلا گهونٹ دینا چاہیے- ابراہیم اس کو بهی ساتھ  لے کر مرتا- ہماری عزت داغ دار کرنے کے لیے چهوڑ دیا تها- توبہ توبہ-”
” ضرور کسی کے ساتھ  چکر تها- قرآن اٹها کر چهت پہ جاتی تهی، توبہ استغفار، تا کہ ہم اس پہ شک نہ کریں – اسی ليے  تو میں نے اس دن کہا تها، مگر کوئی سنے تو-” تائی مہتاب کو اپنا غم یاد آیا تها-
مسرت کا دل ڈوبتا چلا گیا-
” تم مرجاؤ محمل، خدارا مر جاؤ، مگر واپس نہ آؤ-” انکا دل درد سے چلایا تها-
” آج کے بعد کوئی اس کا نام اس گهر میں نہیں لے گا، اور اگر…. .” آغاجان کی بات ادهوری رہ گئی- کسی نے زور سے گیٹ پہ دستک دی تهی-
جاری ہے……..!

اپنا تبصرہ لکھیں