مصحف  قسط نمبر ۔ 15     

تحرير۔ نمرہ احمد

انتخاب۔ راحيلہ ساجد

اور پهر دوپہر تک وہ اس واقعے کو بهول بهال چکی تهی-
اسٹاپ پہ مقررہ وقت پہ فواد کی مرسڈیز آتی دکهائی دی تو وہ خوش اور پرشوق سی بنچ سے اٹهی-
” کیسی ہو؟” دروازہ کهول کر اندر بیٹهی تو وہ مسکرا کر بےتابی سے پوچھ رہا تها-
“ٹهیک ہوں فواد بهائی! آپ کیسے ہیں؟” وہ سادگی سے کہہ کر بیگ کندهے سے اتار کر پیچهے رکهنے لگی- اپنے انداز سے اس نے کبهی فواد پہ ظاہر نہیں کیا تها کہ وہ اس کے جذبات تک رسائی حاصل کر چکی ہے- وہ ہمیشہ خود کو اس کے احسانوں کے بوجھ تلے ممنون ظاہر کرتی تهی-
” آج کا دن بہت اسپیشل ہے محمل!” وہ کارسڑک پہ ڈال کر بہت جوش سے بتا رہا تها- ” آج مجهے تم سے بہت کچھ  کہنا ہے-”
” جی کہیے-”
” اونہوں، ابهی نہیں ابهی سرپرائز نہیں کهول سکتا-”
” اچها، ایسا کیا ہے فواد بهائی؟”
” تم خود ديکھ  لینا خیر، ابهی تو ہم شاپنگ پہ چل رہے ہیں- تمہارے لیے کچھ  بہت اسپیشل لینا ہے-”
کپڑے، مگر ابهی تو کوئی فنکشن قریب نہیں ہے؟”
” ہے نا- آج ہے کچھ  خاص-”
” اچها، کون کون ہوگا ادهر؟”
” میں، اور تم-”
” آفس میں؟” وہ کچھ کچھ سمجھ  رہی تهی مگر انجان بنی رہی-
” اونہوں- میریٹ میں آج ہم ساتھ  ڈنر کریں گے-”
” میریٹ؟” لمحے بهر کو تو وہ سانس لینا بهول گئ تهی- میریٹ میں ڈنر تو کیا اس نے تو کبهی اندر سے میریٹ کی شکل بهی نہ دیکهی تهی- لیکن پهر ڈنر کا لفظ اسے ذرا سا پریشان کر گیا-
” میں اتنی رات کو کیا کہہ کر باہر رہونگی فواد بهائی؟”
” نہیں ہم جلدی آجائیں گے اور آج رات میں خود تمہیں گهر لے کر جاونگا، سب کے سامنے، لیکن آف کورس تمہارے جواب کے بعد-”
” جواب؟ کس چیز کا جواب؟”
” کچھ پوچهنا ہے تم سے-”
اسکا دل زور سے دهڑکا- کیا جو وہ سمجھ  رہی تهی، سچ تها؟”
” مگر کیا؟”
” یہ تو وہیں بتاونگا- آو، کچھ  کپڑے لیتے ہیں تمہارے -” وہ کار پارک کر کے سیٹ بیلٹ ہٹا رہا تها-
” مگر یہ ٹهیک تو ہیں-” اس نے معمولی سا احتجاج کیا-
” اونہوں- آج تمہیں اسپیشل تیار ہونا پڑے گا-” اس کے انداز میں نرم سی دهونس تهی- وہ ہنس کر ” اچها” کہتی نیچے اتر آئی-
وہ اسے ایک خاصے مہنگے بوتیک لے آیا تها- کپڑوں سے زیادہ کپڑوں کی قیمتیں ہوش اڑا دینے والی تهیں- وہ خود ہی آگے بڑه کر کپڑے الٹ پلٹ کر دیکهنے لگا، پهر رک کر پوچها-
” تمہیں ساڑهیاں پسند ہیں محمل؟”
” ساڑهیاں؟” – جی مگر وہ بہت فارمل……..”
” کوئی اگر مگر نہیں، یہ ساڑهی دیکهو ، کیسی ہے؟ ” اس نے ایک سیاه ساڑهی آگے کی- سیاه شیفون کی ساڑهی پہ سلور مقیش بکهری تهی- وہ اتنی خوبصورت جهلملاتی ساڑهی تهی کہ نظریں خیرہ کر دیتی-
” اچهی ہے مگر بہت قیمتی……”
” تم سے زیادہ قیمتی نہیں ہے- یہ پیک کر دیں-”
پهر میچنگ جوتے اور ایک نازک سا سلور رنگوں والا آرٹیفیشل کنگن لیتے خاصا وقت لگ گیا- دوپہر ڈهلنے لگی تهی جب وہ جیولری شاپ میں داخل ہوئے – گولڈ اینڈ ڈائمنڈ جیولری شاپ میں محمل کا دل زور سے دهڑکا تها-
” کیا فواد اس کے لیے کچھ  اتنا قیمتی لینے جا رہا تها؟ کیا وہ اس کے لیے اتنا خاص تهی؟”
” ڈائمنڈ رنگز دکهايے -” وہ کرسی کهینچ کر ٹانگ پہ ٹانگ رکهے قدرے تحکم و رعب سے بولا تو محمل تو سانس لینا ہی بهول گئی- خدا اس طرح بهی چهپڑ پہاڑ کر بهی مہربان ہوتا ہے اسے آج پتا چلا تها-
معمر، باریش سنار صاحب نے فورا کچھ  سیاه کیس سامنے کیے اور جیسے جیسے وہ سیاه کیس کهولتے جا رہے تهے’ جگر جگر کرتی ہیرے کی انگوٹهیوں سے اسکی آنکهیں چندهیا رہی تهیں-
” سر solitaire میں دکها دوں؟”
” ہاں، بالکل؛”
وہ تو بالکل چپ سی بیٹهی تهی- سمجھ  میں نہیں آرہا تها کہ ری ایکٹ کس طرح کرے-
فواد کو کوئی رنگ پسند نہیں آرہی تهی’ وہ اس سے رائے بهی نہیں لے رہا تها- بس دهڑا دهڑ انگوٹهیاں رد کرتا جا رہا تها-
” یوں کرو تم پہلے تیار ہو جاو، رنگ بعدمیں لے لیں گے-
” شاپ سے نکلتے ہوئے اس نے گهڑی دیکهی-”
میری چھ  سے سات ایک میٹنگ ہے بہت ضروری، مس نہیں کر سکتا، چھ  سے سات تمہیں آفس میں میرے ساتتھ  بیٹهنا پڑے گا اور پهر سات بجے ہم اکٹهے میریٹ کے لیے نکلیں گے- سو تم ابهی تیار ہو جاو-”
” کدهر؟” وہ واقعی حیران ہوئی تهی-
” پارلر میں اور کدهر؟ میں نے تمہارے لیے اپائنمنٹ لے لی تهی- تم صرف اندر جانااور وہ تمہیں تیار کر دیں گی-”
وہ اسے قریبی پارلر لے آیا تها اور پهر ویسے ہی ہوا جیسے اس نے کہا تها- محض ایک گهنٹے بعد جب وہ پارلر کے قد آدم آئینے کے سامنے کهڑی خود کو ديکھ  رہی تهی تو اسے خود پہ رشک آرہا تها-
سیاه مقیش کی جهلملاتی ساڑهی میں اس کا دراز قد سیاه و سلورپنسل  ہیل کے باعث مزید نمایاں ہو گیا تها- لمبی صراحی سی گردن اونچے جوڑے کے باعث بے حد دلکش لگ رہی تهی- جوڑے سے چند ایک لٹیں گهنگهریالی کر کے اس کی گردن اور دخساروں پہ جهول رہی تهیں- لائٹ لپ اسٹک کے ساته بلیک سموکی آئیز…… اور سیاه بلاوز کی چهوٹی آستینوں سے جهلکتے اس کے بےحد گورے سنہرے سے بازو- ذرا سی محنت سے وہ اتنی حسین لگ رہی تهی کہ خود کو ديکھ کر اس کا دل نہیں بهر رہا تها-
وہ باہر آئی تو وه جو اس کے انتظار میں گاڑی سے ٹیک لگائے کهڑا تها، بےاختیار سیدها ہوا اور پهر مبہوت سا دیکهتا رہ گیا- وہ ساڑهی کا پلو انگلی سے لپیٹے احتیاط سے سیلون کے باہر کی سیڑهیاں اتر رہی تهیں-
” اتنی حسین ہو تم محمل؟ مجهے اتنے برس پتا ہی نہیں چلا-” وہ جیسے متاسف ہوا تها – وہ بے اختیار مسکرا دی-
” تهینک یو، چلیں؟” اس نے آسمان کو دیکها، جہاں شام ڈهلنے کو تهی-
” ہاں میری میٹنگ شروع ہونے میں زیادہ وقت نہیں ہے، چلو-” ایک بهرپور مسکراتی نگاه اس پہ ڈال کر وہ کار کا لاک کهولنے ہی لگا تها کہ اس کا سیل فون بج اٹها-
” اس وقت…… کون؟” کہتے کہتے اس نے اسکرین کو دیکها اور پهر چونک کر فون کان اے لگایا-
” جی ملک صاحب- خیریت؟ جی کیا مطلب؟” اس نے لب بهنچ کر کچھ  دیر کو دوسری طرف سنا- ” مگر آپ نے ان کو بتایا تها کہ آپ کو میں نے ہی بهیجا ہے؟ مگر کیوں؟ انہوں نے سائین کیوں نہیں کیے؟” اور ایک دم اسے فواد کے چہرے پہ ابهرتی غصے کی لہر دکهائی دی- ” آپ سینئیر آفیسر ہیں یا جونئیر، انہیں اس سے کیا غرض؟ آپ کو پتا ہے ملک صاحب اگر انہوں نے فائل سائن نہ کی تو صبح ہماری فیکٹری ڈوب جائے گی، ہم برباد ہو جائیں گے-” اس نے رک کر کچھ  سنا اور ایک دم جیسے بدکا- ” کیامطلب؟ میں اس وقت کیسے آ سکتا ہوں اتنی دور؟ میری میٹنگ ہے صدیق صاحب کے ساتھ ، چھ سے سات میں ابهی ااے ایس پی صاحب سے ملنے کیسے آ سکتا ہوں؟ کیا بکواس ہے؟” اس نے جهلا کر فون بند کر دیا-
” کیا ہوا؟” وہ گهبرا کر قریب آئی-
” معلوم نہیں اب کیا ہو گا-” وہ پریشانی سے کوئی دوسرا نمبر پریس کرنے لگا، لمحے بهر کو تو وہ جیسے بهول ہی گیا تها کہ وہ اس کے ساتھ  کهڑی ہے-
” جی راو صاحب، میں نے ملک الیاس کو بهیجا تها آپ کی طرف……. مگر راو صاحب اتنی بهی کیا بےاعتباری؟” اس نے رک کر دوسری طرف سنا اور پهر جیسے ضبط کرتے ہوئے بےبسی سے بولا” آپ کے اے ایس پی کا دماغ تو ٹهیک ہے؟ اس کا باپ جاگیردار ہو گا ، ہم ان کے مزارعے نہیں ہیں – بورڈ آف ڈارئکٹرز میں سے کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ ان کی ایک کال پہ چلا آئے، نہ ہی…….” وہ لمحے بهر کو رکا اور پهر” میں کچھ  دیر میں آپ کو بتاتا ہوں-” کہہ کر وہ اب کوئی اور نمبر ملانے لگا تها- ” اے ایس پی ہمایوں داود، جانے مسئلہ کیا ہے اس شخص کا-”
محمل بد دل سے اس کے ساتھ  گاڑی کے باہر کهڑی تهی- نجانے کیا ہوا تها، دل میں عجیب عجیب سے وسوسے آ رہے تهے-
” ” خیریت ہے فواد بهائی؟”
” خیریت ہی نہیں ہے- اے ایس پی کا بچہ جان کو آگیا ہے، کہتا ہے کمپنی کے مالکوں کو بهیجو تو فائل اپروو ہو گی، میں ملازموں سے بات نہیں کرتا- اب کس کو بهیجوں ادهر؟ وہ بهی اسی وقت بلا رہا ہے اور اس کے گهر پہنچنے میں آغاجان یا حسن کو ڈیڑه گهنٹہ تو لگ ہی جائے گا، اور اگر نہ پہنچے تو میرا کروڑوں کا پروجیکٹ ڈوب جائے گا-” وہ جهنجهلا کر بار بار کسی کو فون ملاتا بہت بے بس لگ رہا تها- ” اب یہی حل ہے کہ میں ابهی اس کے پاس چلا جاؤں اور واپس آ کر صدیقی صاحب سے میٹنگ کر لوں-”
” اور ڈنر کینسل؟” اس کا دل جیسے کسی نے مٹهی میں لے لیا تها-
” کرنا پڑے گا محمل-” اس نے ہاتھ روک کر محمل کا تاریک پڑتا چہرہ دیکها- ” آئی ایم سوری ، میں یوں تمہیں ہرٹ کرنا نہیں چاہتا تها، مگر میری مجبوری ہه، وہ ملازموں سے بات نہیں کرے گا، گهر کے بندے کو ہی جانا پڑے گا-”
جاری ہے…………..

اپنا تبصرہ لکھیں