مشرق و مغرب میں سائنسی تحقیق کا معیار(اعداد و شمار کے تناظر میں)

(قسط دوم)

شہباز رشید بہورو

http://epaper.kashmiruzma.net/Details.aspx?id=12109&boxid=12858913

اگرچہ یہ بات بالکل درست ہے کہ مشرقی ممالک میں بھی اب تحقیق و تخلیق کا معیار اتنابلند ہورہا ہے کہ جاپان اور چین کا نام مغرب میں حوالے کے طور پر لیا جانے لگا ہے۔لیکن میں نے اپنے مضمون میں متمح نظر صرف مسلمان ممالک کو ہی رکھا ہے، جو یورپ اور امریکہ کے زیادہ تر مشرق کی طرف واقع ہیں۔اس لئے خاص طور پر مسلم دنیا کی سائنسی وتکنیکی ترقی کا موازنہ مغرب سے کیا جارہا ہے ۔مغرب کے تحقیقی ذوق نے اسے سائنسی میدان میں پوری دنیا کو لوہا منوانے والا بنایا تو ہے ہی لیکن ان کی اس دلچسپی نے انہیں سوشل سائنسز میں بھی بمقابلہ مشرق عروج بخشاہے۔سامراجیت کے دور میں مغرب میں مستشرقین کی ایک جماعت وجود میں آئی تھی جس کا کام مشرق کے تمام مذاہب ان کی عادات و تقالید، رسم و رواج، تہذیب و ثقافت، زبان و بیان اور اس کے جغرافیاٸی علم کی تحقیق و تحصیل پر مبنی تھا۔مستشرقین کی اس جماعت نے حیرت انگیز طور پر مشرقی علوم کے فہم و تفکر میں اتنا ملکہ قائم کیا کہ ان کا نام آج بھی حوالے کے طور پر لیا جاتا ہے۔سامراجیت کے دور میں تقریباً موجودہ تمام آزاد مسلم ممالک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے جس کی وجہ سے مسلم دنیا عمومی طور علم و دانش کی طرف راغب ہونے کے بدلے اپنی آزادی کے حصول میں منہمک ہو گئے ۔اس لئے مستشرقین کی اکثریت مسلمانوں کے مذہب و رسومات اور تہذیب وتمدن کو جاننے کے لئے کافی سرعت سے آگے بڑھی تاکہ اسلامی علم و دانش کے میدان میں بھی امامت کادرجہ حاصل کر سکے ۔اگرچہ ان کی یہ کوشش بارآور نہ ہوسکی کیونکہ تنزل و انحطاط کے اس دور میں بھی عالم اسلام نے کچھ ایسے صاحبِ عزم ،بلند حوصلہ،اور بیدار مغز شخصیات پیدا کیں جنہوں نے اپنی انفرادی فہم و فراست سے مستشرقین کی موشگافیوں کا رد پیش پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے دینی و تہذیبی علوم کے وقار کو برقرار رکھا۔لیکن اس کے باوجود مغرب کی محنت و مشقت اور ذوق و شوق قابلِ داد ہے۔
اس کے برعکس مشرق میں کوئی ایسی جماعت وجود میں نہیں آئی جنہوں نے مغربی علوم پر دسترس حاصل کرنا مقصود بنایا ہو۔مسلم دنیا تو اس قسم کے اداروں اور منصوبوں (Projects)سے بالکل محروم ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہاں کی حکومتی سطح پہ مکمل نااہلی معلوم ہوتی ہے۔اسی حوالے سے دور جدید میں ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے ایک تجربہ کیا تھا جو بدقسمتی سے مختلف وجوہ کی بنا پر کامیاب نہ ہوسکا۔انہوں نے اپنے چند شاگردوں کا انتخاب کر کے انہیں مغرب کی اعلیٰ دانشگاہوں میں سائنسی ودیگر متعلقہ علوم کی تحصیل کے لئے بھیجا تھا ۔لیکن وہ بدقسمتی سے مغرب میں جاکر مغرب کی چکا چوند کا مقابلہ نہ کر سکنے کی بنا پر مکمل طور پر ناکام ہوئے ۔ڈاکٹر اسرار مرحوم کا یہ پروجیکٹ “ہائیر اسٹڈیز پروجیکٹ “کے نام سے جانا جاتا تھا۔ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم و مغفور کا یہ قدم بلاشبہ قابلِ تحسین تھا جس پر اسلامی دنیا میں مزید سرکاری سطح پر غور کیا جانا چاہئے ۔
۔مسلم دنیا میں سائنسی تحقیق و تفتیش کی جو رفتار ہے وہ مغرب کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔کیونکہ سائنس کے تمام شعبہ جات میں مغربی ماہرین کا ہی نام سرفہرست ملتا ہے۔مجھے مسلم دنیا کی سائنسی ترقی کے ضمن میں جو اعدادوشمار دستیاب ہو سکے وہ اگرچہ کئی سال پرانے ہیں لیکن ہماری سائنسی ترقی کی رفتار کا اندازہ کرنے کے لئے کافی ہیں۔اس حوالے سے ایک اور بات جانئے کہ مسلم دنیا میں سائنس و متعلقہ علمی شعبہ جات میں ترقی و ترفع کا صحیح تخمینہ و تجزیہ کرنے کے لئے ایسے ادارے بھی شاذ و نادر ہی موجود ہیں جو ہر سال تازہ اعداد و شمار پیش کرنے کی زحمت اٹھاتے اور مسلم دنیا کو اپنے سائنسی و تکنیکی اسٹیٹس (Status)سے آگاہ کرتے ۔اس کے مقابل مغربی دنیا میں بیشتر ادارے یہ خدمت انجام دے رہے ہیں۔یہ حیرت کی بات ہے کہ مسلم دنیا کے سائنسی و تکنیکی ترقی کے حوالے سے جو اعداد وشمار مرتب کئے گئے ہیں ان میں نوے فیصد سے زائد مغربی اداروں کی دین ہے۔کئی مسلم دانشور جنہوں نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے ان کے پیش کئے گئے اعداد وشمار اور تجاویز سب مغرب سے مستعار ہیں ۔اس میں ان دانشوروں کی قطعاً کوئی غلطی نہیں بلکہ یہ ان کی متعلقہ حکومتوں کا قصور رہا ہے کہ وہ اپنے نابغہ سائنسدانوں اور انجینئرز کو مالی امداد فراہم نہیں کر پائے تاکہ وہ کسی اعلی سے اعلیٰ سائنسی و تکنیکی پروجیکٹس کا کامیاب افتتاح کرنے کے قابل ہو سکتے ۔یہی وجہ ہے کہ مسلم دنیا کے اعلیٰ سائنسی دماغ اپنے ملکوں کو خیر باد کہہ کر مغرب میں جا بسے اور وہیں اپنی ذہانت و فطانت کا شاہکار دنیا کے سامنے پیش کیا اور کر رہے ہیں ۔اس حوالے سے نوبل انعام یافتہ ماہر طبیعیات (Physicist) سٹیون وین برگ(Steven Weinberg) نے کہا تھا کہ “اگرچہ کئی ذہین و فہیم مسلم سائنسدان مغرب میں کام کر رہے ہیں لیکن میں نے گزشتہ 40سالوں سے کسی بھی ایک مسلم ملک کے مسلم فزیزسٹ یا ماہر فلکیات کا کوئی تحقیقی مقالہ قابلِ مطالعہ نہیں پایا”.
مغرب عربوں کی سائنسی ترقی کا آج بھی ذکر کرنے پر مجبور ہے کیونکہ آٹھویں صدی سے لیکر تیرھویں صدی تک عربوں کا سنہری دور مانا جاتا تھا۔جس میں مسلمانوں کی حیرت انگیز سائنسی ترقی نے انہیں پوری عالم انسانیت پر فوقیت بخشی تھی۔برن نارڈ لیوس نے اپنی کتاب “وٹ ونٹ رانگ”میں لکھا ہے کہ کئی صدیوں کے لئے مسلم دنیا انسانی تہذیب وتمدن اور ارتقاء کے حوالے سے سب سے آگے تھا”.الجبرا، الوگریتھم، الکیمی، الکہول ، لیمون جیسے الفاظ سب عربی زبان سے مستخرج ہیں ۔لیکن موجودہ دور میں عربوں کے پاس بے شمار دولت ہونے کے باوجود بھی سائنٹفک انفراسٹرکچر زبوں حالی کا شکار ہے۔عرب دنیا کے چند ایک ممالک میں سائنٹفک انفراسٹرکچر میں بہتری لائی جارہی ہے لیکن مغرب کے مقابلے میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔عرب دنیا کو چھوڑ کر مشرقی مسلم ممالک بھی تحقیق وتخلیق کے معاملے میں کہیں پر نظر نہیں آتے۔پاکستان کی مثال کو لیجئے مسلم دنیا میں پاکستان کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی سی مخفی نہیں لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں پاکستان متوقع ترقی کرنے سے معذور دکھائی دے رہا ہے۔ بین الاقوامی سائنسی اور علمی جرائد پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ ایس جے آر کے مطابق پاکستان میں 1996 سے 2012 کے دوران 16 برس کے عرصے میں کل 58 ہزار مقالہ جات شائع ہوئے۔ اس کے مقابلے پر بھارت میں اسی دوران ساڑھے سات لاکھ تحقیقات منظرِ عام پر آئیں۔مزید براں پاکستان سائنس وٹیکنالوجی کی تحقیق پر اپنے جی ڈی پی کا صرف اور صرف 2فیصد خرچ کرتا ہے ۔بنگلہ دیش، افغانستان ،انڈونیشیا، ملیشیاء میں بھی مغرب کے مقابلے تحقیق تنزلی کا شکار ہے ۔
یونیسکو اور ورلڈ بنک کےاعدادو شمار کے مطابق او ایی سی کے بیس نمائندہ ممالک 1996سے لیکر 2003تک اپنی جی ڈی پی کا صرف 0.34فی صد حصہ سائنسی تحقیق پر خرچ کرتے تھے جو کہ2.6فیصد گولوبل اوسط کا ایک ساتوں ہے۔مسلم دنیا میں فی ہزار آبادی میں صرف دس سائنسدان، انجینیر اور ٹیکنیشنس ہیں حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں فی ہزار میں اوسط تعداد40اور 140کے درمیان ہے۔مسلم ممالک پوری دنیا کے شائع شدہ سائنسی تحقیقاتی پیپرس میں صرف ایک فیصد حصہ شامل کرتے ہیں ۔روئل سوسائٹیز اٹلس آف اسلامک ورلڈ سائنس اینڈ اینوویشن کے مطابق 17او ای سی ممالک (مسلم دنیا) نے 2005 میں کل 13444سائنٹفک مطبوعات (Publications)شائع کیں جو کہ ہاورڈ یونیورسٹی کی سالانہ مطبوعات کے مقابلے میں بہت کم تھیں ۔ہاورڈ یونیورسٹی کی سالانہ سائنسی مطبوعات کی تعداد 15455تھیں ۔دنیا میں 1.8بیلین مسلم آبادی ہے لیکن صرف دو سائنسدانوں نے ابھی تک نوبل انعام حاصل کیا ہے.ان میں سے ایک مصر کا احمد ذیویل اور دوسرا عزیز سنکار ہے لیکن ان دونوں حضرات نے مغرب میں جاکر اپنے جوہر دکھائے۔دی نیو اٹلانٹس کے مطابق سپین اور بھارت جتنے سالانہ سائنسی مطبوعات شائع کرتے ہیں اتنا 46مسلم ممالک مل کر بھی تحقیقاتی پیپرس شایع نہیں کرتے ہیں ۔مسلم دنیا میں سائنسی تحقیق کوالٹی کے اعتبار سے بھی ابتر ہے۔کسی بھی ملک کا عالمی سطح پر شائع شدہ تحقیقی پیپرس کے تناظر میں مقام حاصل کرنا ریلیٹیو سائٹیشن اینڈیکس (Relative citation index) پر مبنی ہوتا ہے۔اگر ایک ملک عالمی سائنسی تحقیقی پیپرس کادس فیصد حصہ پیدا کرتا ہے لیکن ان کا حوالہ یعنی سائٹیشن پوری دنیا میں صرف پانچ فیصد ہوتا ہے تو اس کا انڈیکس صرف 0.5 ہوتا ہے۔امریکہ کے نیشنل سائنس بورڈ نے 2006میں پوری دنیا میں 40ممالک کا فزکس میں ترقی کے حوالے سے ایک لیگ ٹیبل مرتب کیا تھا جس میں مسلم دنیا کے صرف دو ممالک ترکی اور ایران نے رجسٹریشن کی حد تک جگہ پائی تھی۔57 مسلم ممالک میں صرف 1840جامعات ہیں اور ان میں سے صرف آٹھ جامعات نے ٹاپ 500کی فہرست میں جگہ پائی ہے ۔ورلڈ سائٹفک لٹریچر میں مسلم دنیا کا صرف ایک فیصد حصہ شامل ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق پوری عرب دنیا میں سالانہ تین سو کے قریب کتابوں کا ترجمہ ہوتا ہے جب کہ صرف یونان میں اس کا پانچ گنا زیادہ ترجمے کا کام ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات بھیقابل توجہ ہے کہ عرب ملکوں میں ترجمہ کی جانے والی کتابوں میں مذہبی اور مسلکی نوعیت کی کتابیں بڑی تعداد میں ہوتی ہیں۔ سائنس، ٹکنالوجی اور ماڈرن علوم پر جو کام ہوتا ہے وہ تقریباً صفر ہے۔عرب دنیا کا سائنسی اسٹیٹس کافی افسوسناک ہے ۔1989 کی ایک ریسرچ کے مطابق امریکہ ایک سال میں 10481سائنٹفک ریسرچ پیپرس شائع کرتا ہے اور عرب دنیا ایک سال میں صرف 4 ریسرچ پیپرس پر اکتفا کرتی ہے۔دی نیچر معروف تحقیقی جریدے کے ٹاپ 100 رائٹرس میں کوئی ایک بھی مسلمان شامل نہیں ہے۔اگرچہ مسلم دنیا نے تحقیقاتی پیپرس کی تعداد کو بڑھایا ہے لیکن کوالٹی کے اعتبار سے ابھی بہت پیچھے ہیں ۔ٹاسک فورس آن سائنس ایٹ دی یونیورسٹیز آف مسلم ورلڈ کے مطابق مسلم ممالک میں فی میلین آبادی میں سائنسی محقیقین کی تعداد صرف 600 کے قریب ہے اور اس کے برعکس برازیل میں 1000،اسپین میں 4000اور اسرائیل میں 9000 کے اردگرد محقیقین کی تعداد ہے۔مسلم دنیا کے صرف چار ممالک مصر، ایران، ملیشیاء، ترکی اور پاکستان مل کر 70 فیصد سے زائد سائنسی ریسرچ پیپرس شائع کرتے ہیں ۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ باقی ممالک میں سائنٹفک تحقیق کا معیار کس نوعیت کا ہوگا.مسلم دنیا کی سائنٹفک پسماندگی کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے مسلمان سستی اور کاہلی یا آرام طلبی اور مذہبی فروعی اختلافات کے سحر میں گرفتار ہیں ۔محنت اور مشقت والی کوششوں سے وہ نابلد نظر آرہے ہیں ۔اس کی گواہی کشمیر یونیورسٹی کے معروف محقق پروفیسر منظور احمد شاہ (جو راقم کے استاد ہیں) کی زبانی مجھے سننے کو ملی ۔انہوں نے کہا کہ “میں نے سعودی عرب کی معروف کنگ سعود یونیورسٹی میں بحیثیتِ ویزیٹنگ پروفیسر کام کیا ہے اور ریسرچ کرنے کا موقعہ بھی ملا اور وہاں پر ریسرچ کے حوالے سے ہر قسم کی سہولیات بھی دستیاب ہیں لیکن عربی لوگ خود کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔وہاں پر زیادہ تر غیر ملکی محققین کام کر رہے ہیں “.اس کی وجہ انہوں نے سستی و کاہلی بتلائی.مغرب کے مقابلے میں مسلمانوں کی سائنسی پسماندگی پر انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا:”بلاشبہ مغرب کے پاس موجود سائنٹفک علوم کے زخائر مسلمانوں کی دین ہے جسے انہوں نے نہایت قدر کے ساتھ سنبھالا لیکن ہم نے قرآن کے صحیح پیغام کو سمجھنے کے بدلے مسلکی اختلافات کو اپنا وظیفہ بنا کر اعلی دماغ ضائع کئے ہیں “.یاد رہے پروفیسر موصوف کشمیر سے ایک ابھرتے ہوئے ماحولیاتی محقق ہیں جو امریکہ، کینڈا اور جرمنی کی اعلیٰ لیبارٹریز میں ریسرچ پروجیکٹس میں کام کر رہے ہیں اور ان کے چھ شاگرد ابھی دنیا کے مختلف ممالک میں ان کی نگرانی میں ریسرچ کر رہے ہیں ۔
جاری۔

رابطہ. shabazrashid.470@gmail.com

اپنا تبصرہ لکھیں