مدر ٹریسا کے بعد دنیا کے دوسرے عظیم انسان عبدالستار ایدھی کو خراج تحسین

chasam falk.....شازیہ عندلیب
عبدالستار ایدھی جیسے عظیم انسان کے کردار کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کا ذخیرہ کم پڑ گیا ہے۔ہمدردی،محبت بے لوث خدمت کا وہ جذبہ جسکی تعلیمات ہمارا اسلام دیتا آیا ہے۔جس پیغام کو پہنچانے کیلیے ہمارے نبی پاک آخر زماں محمد ﷺ نے دنیا میں بے انتہا تکالیف برداشت کیں۔ مدردی اخلاق اور مدد کاوہ سبق جسے ہماری قوم نے بھلا دیا ہمارے حکمرانوں نے پس پشت ڈال دیا۔وہ تعلیمات جن پر دوسری اقوام نے عمل پیرا ہو کر ترقی کی بلندیوں کو چھولیا اور ہماری قوم نے چھوڑ کر پستیوں میں ڈیرے ڈال لیے۔وہ سبق وہ تعلیمات عبدالستار ایدھی نے نہ صرف یاد رکھا بلکہ اس کی عملی تصویر بن کر دکھادیا۔ان اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ اور زندہ و جاوید تصویر دیکھنی ہو تو ایدھی کی شخصیت میں دیکھیں۔ایدھی ایک ایسی شخصیت ہیں جو نگاہوں سے اوجھل ہو

eidhi 33..کر ملک عدم چلے گئے مگر ان کی باتیں اور یادیں ہر گز با ضمیر لوگوں کے دلوں سے محو ہونے والی نہیں۔
عبدالستار ایدھی کے فلاحی ادارے پورے پاکستان میں زخمیوں غریبوں بیواؤں اور لا وارثوں کی مدد کے لیے بلا تفریق ذات برادری کے ہمہ تن گوش اور تیار رہتے تھے اور امید ہے کہ رہیں گے ۔بے شک ایدھی اس دنیا میں نہیں رہے مگر ان کے ادارے ہیں ان کے قدموں کے نشان ہیں۔ انکے متعیئن کردہ راستے ہیں۔ایدھی ایک ایسی شخصیت کے مالک تھے کہ جنہوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دیا تھا۔آج ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ہر سمت سے ان کے کارناموں ،خدمات اور قربانیوں کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ نا عاقبت اندیش لوگ ایدھی کے خاندان اور بچوں میں خامیاں نکال رہے ہیں کہ وہ بیرون ملک عیش کر رہے ہیں پھر ایدھی سے ذیادہ بڑے فلاحی ادارے بھی ہیں تو ان کور مغزوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایدھی کسی کے ساتھ مقابلہ نہیں کر رہے تھے ۔ان کا دل تو انسانیت کے جذبے سے سرشار تھا۔اس لیے براہ کرم ایسی عظیم ہستی میں خامیاں نکال کر اپنی کم ظرفی کا ثبوت نہ دیں۔
وہ میدان زندگی کے ایک ایسے مرد مجاہد تھے جنہوں نے ہمیشہ کمزوروں کا ساتھ دیا۔انہوں نے وہ لاشیں اٹھائیں جنہیں کوئی نہیں اٹھاتا تھا۔انہوں نے وہ بچے پالے جنہیں کوئی نہیں پالتا تھا۔ انہوں نے ان سے پیار کیا جن سے کوئی پیار نہیں کرتا تھا۔انہوں نے گولیوں کی بوچھاڑ میں اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر زخمیوں اور لاشوں کو اٹھایا۔انہوں نے زلزلوں سیلابوں میں لوگوں کی مدد کی۔انہیں اس بات کی پرواہ نہیں تھی کہ کوئی انہیں ایوارڈ دے نہ دے کوئی انہیں صلہ دے یا نہ دے ۔ایدھی کو تو بس ایک ہی دھن تھی کہ کوئی مجبور کوئی کمزور مدد سے محروم ن ر جائے۔ا س مرد مجاہد نے ا ٹھاسی برس کی عمر میں وفات پائی اور وہ بھی اس غم میں کہ ان کے ہاں چوری ہو گئی تھی۔اس چوری کی وجہ سے وہ اپنے فلاحی کام جاری نہیں رکھ سکتے تھے۔یعنی ابھی ان کے دل کروڑوں دکھی لوگوں کی مدد سے بھی نہیں بھرا تھا۔میں نے کبھی کوئی ایسی خبر نہیں پڑہی کہ ایدھی بیمار ہو گئے انہیں کوئی جان لیوا عارض لگ گیا۔مگر صرف عمر کے آخری حصے میں وہ بھی میں اس کھوج میں تھی کہ آخر اس قدر ہمدرد انسان کو یہ بیماری لگی کیسے انہیں تو جیسے زندگی میں بیمار ہونے کی بھی فرصت نہیں تھی۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میں حدیث ے کہ
اللہ نیک لوگوں کی عمر دراز کرتا ہے انکی عمر میں برکت دیتا ہے۔جیسے مدر ٹریسا جو کہ ستاسی سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئی اور اب عبدالستار ایدھی جو کہ اٹھاسی سال کی عمر میں رخصت ہوئے۔

mother taresa......
ایسے عظیم المرتبت انسان کے لیے یہی کہا جا سکتا ہے کہ
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
ایسے لوگوں کے وجود پر تو فطرت بھی نازاں ہو گی۔جنہوں نے دوسروں کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے زمین تا فلک رحمتیں برستی ہیں جو اپنے وجود سے انسانیت کو بلند ترین مرتبہ دیتے ہیں۔انوں نے وہ کام کیا جو حکومتوں کوکرنا چاہیے تھا۔مغربی ممالک میں ایسے افراد کیوں نہیں ہیں اس لیے کہ یہاں یہ ذمہ داریاں ادارے اٹھاتے ہیں ۔حکومت اٹھاتی ہے۔ خاص طور سے اسکینڈینیوین ممالک اور بالخصوص ناروے میں ایسے قوانین ہیں کہ کوئی شخص کسی زخمی یا بیمار کو تڑپتا چھوڑ کر سر راہ نہیں جا سکتا۔انسان تو کیا کسی زخمی جانور کو بھی آپ ناروے کی سڑکوں پر بے یار و مدد گار نہیں چھوڑ سکتے۔گذشتہ دنوں ہائی وے پر ایک جنگلی بلی کسی کی گاڑی کے سامنے آنے کی وجہ سے زخمی ہو گئی۔کار ڈرائیور نے سو کلومیٹر رفتار کے علاقے میں گاڑی روکی ۔زخمی بلی کو سڑک سے اٹھا کر سائڈ پر ڈالا اور جانوروں کے محکمے میں اطلاع دی۔تھوڑی دیر مین ایک گاڑی محکمے کی جانب سے آئی اور زخمی بلی کو طبی امداد پہنچانے کے لیے لے گئی۔اگر کارڈرائیور ایسا نہ کرتا تو اسے جرمانہ یا قید کی سزا ہو سکتی تھی۔لیکن یہاں اسکولوں میں بھی بچوں کو بچپن سے ہی بلا امتیاز نسل و مذہب ایک دوسرے سے ہمدردی سکھائی جاتی ہے۔آج ناروے کا شمار دنیا کے بڑے فلاحی ممالک میں ہوتا ہے۔اس وقت ناروے مالی مسائل کا شکار ہے یہاں بیرزگاری بڑھ رہی ہے۔تیل کی کمپنیاں دیوالیہ ہو رہی ہیں لوگ بیروزگار ہو رہے ہیں مگر انہوں نے فلاحی کاموں سے ہاتھ نہیں کھینچا۔ہاں کمی ضرور ہوئی ہے مگر بہت معمولی۔آج بھی ہزاروں شامی افغانی فلسطینی پناہ گزین جو مسلمانوں کی ذمہ داری ہیں ناروے میں پنا گزین ہیں ۔اس لیے سوچ لیں کہ اصل ہمدرد کون ہیں ہمارے نام نہاد سربراہاں ،شاہان مملکت شاہانہ ٹھاٹ باٹھ والے سربراہ یا لکڑی کے گھروں میں رہنے والے نارویجن عوام اور حکمران؟؟؟
ناروے سے ایک بڑے جید عالم دین کا گزر ہوا ۔انہوں نے اسکا موازنہ پاکستان سے کرتے ہوئے کہا۔یہ کیسی قوم ہے جو لکڑی کے کھوکھوں میں رہتی ہے۔گھر تو ہمارے ہیں یہ بڑے بڑے شاندار گھر۔میں انکی سوچ پہ حیران رہ گئی کہ پیغمبر اسلام کی تعلیمات دینے والے عالم دین کاش اس سادہ قوم کا ہمدردی سے بھرا دل دیکھ سکتے جو ہماری مظلوم مسلم برادری کے زخم صاف کر رہے ہیں اور انہیں پناہ دے رہے یں۔وطن عزیز میں تو ایک ایدھی پیدا ہوا اور چلا گیا۔مگر ناروے میں تو ہر دوسرا شہری ہر تیسرا نارویجن ایدھی ہے۔کاش میرے وطن میں حکمران اپنی ذمہ داریاں نبھا سکتے ،و ہ بھی ایدھی جیسا جذبہ رکھتے تو ہمارا ملک بھی ایک فلاحی مملکت بن سکتا۔جہاں جذبہء ایثار ہو۔۔۔ ان معاشروں میں ظلم و بر بریت کبھی نہیں پھلتی پھولتی۔جہاں ظیم و بر بریت نہ ہو وہاں ایدھی ٹرسٹ جیسے اداروں کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔۔۔۔

اپنا تبصرہ لکھیں