قسط نمبر    ۔  18  مصحف

تحرير۔ نمرہ احمد

انتخاب۔ راحيلہ ساجد
دروازہ کهولو….. دروازہ کهولو-” وہ دونوں ہاتهوں سے زور زورسے دروازہ بجانے لگی، مگر جواب ندارد…..وہ بے بس سی زمین پہ بیٹهتی چلی گئی-
فواد……. فواد اس کے ساتھ ایسا کر سکتا تها؟ اسے یقین نہ آتا تها- اس نے کیا بگاڑا تها فواد کا، جو اس نے چند روپوں کے عوض اسے بیچ دیا-
وہ گهٹنوں پہ سر رکهے آنسو بہاتی وہ شام یاد کر رہی تهی جب وہ اسے دیکهتے دیکهتے چونکا تها اور چائے کا کپ لیتے ہوئے اس کی انگلیاں اس کے ہاتھ  سے مس ہوئی تهیں-
” کم عمر، خوبصورت اور ان چهوئی- آغا نے کہا تها کہ یہ ہماری ڈیمانڈ پہ پوری اترتی ہے-”
تو وہ اس لیے چونکا تها کہ کسی عیاش مرد کی بتائی گئی ڈیمانڈ پہ اس کے گهر میں پلنے والی وہ یتیم لڑکی پوری اترتی تهی-
” تم کتنی خوبصورت ہو محمل! مجهے پتا ہی نہیں چلا-” اس کے لہجے کا افسوس اور پهر اس کی ساری عنائتیں…… وہ جانتا تها کہ اس کی کمزوری کیا ہے، اس نے اس کو اسکی من پسند چیزوں کی جهلک دکهائی یہاں تک کہ جب وہ مکمل اس کے قابو میں آگئی تو فواد نے اسے ادهر بهیج دیا اور وہ بهی کتنی بیوقوف اور سادہ تهی کہ اسے پتا  ہی نہ چلا- وہ اس کو آفس میں ادهر ادهر چیزیں سائن کروانے بهیج دیتا تها، اور کوئی کام تو اس نے محمل سے لیا ہی نہ تها، وہ تب بهی نہ سمجھ  سکی؟
اور اب یہ شخص ہمایوں داؤد،       وہ نہیں جانتی تهی کہ یہ آدمی کون تها اس سے یہ سب کیوں پوچھ  رہا تها اس کا کیا مقصد تها- اسے صرف علم تها تو اتنا کہ رات بیت گئی تو صبح اسے کوئی قبول نہیں کرے گا اور قبول تو شاید اب بهی کوئی نہ کرے- کوئی فواد کے خلاف اس کی بات پہ یقین نہیں کرے گا، کوئی اسے بےگناه نہیں سمجهے گا اور فواد، وہ تو شاید سرے سے مکر ہی جائے کہ وہ کبهی محمل کو آفس لے کر بهی گیا ہے- خدایا، وہ کیا کرے؟
اس نے بهیگا چہرہ اٹهایا- کمرہ قدرے دهندلا سا دکهائی دیتا تها- اس نے پلکیں جهپکائیں تو آنسووں کی دهند نیچے لڑهکتی چلی گئی-
کمرہ نہایت خوبصورتی سے آراستہ تها- خوبصورت فرنیچر، قیمتی قالین اور بهاری مخملیں پردے-
پردے،؟ وہ چونکی ، کیا ان کے پیچهے کوئی کهڑکی تهی؟ وہ پردوں کی طرف دوڑی اور جهٹکے سے پردوں کو ایک رخ کهینچا- پردہ کهلتا چلا گیا-
باہر ٹیرس تها اور اس کی روشنیاں جلی ہوئی تهیں- جن میں بغیر دقت کے دو گن مین کهڑے وہ ديکھ  سکتی تهی-
اس نے گهبرا کر پردہ برابر کیا-
” اللہ تعالی، پلیز!” وہ رو کر دعا کرنے لگی اور جب دعا کرتے کرتے تهک گئی تو…..ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آ کهڑی ہوئی اور اپنا عکس دکهنے لگی-
رونے سے سارا کاجل بہہ گیا تها، آنکهیں متورم اور قدرے بهیانک لگ رہی تهیں- جوڑا ڈهیلا ہو کر گردن تک آ گیا تها اور گهنگریالی لٹوں کے بل سیدهے ہونے لگے تهے-
محمل ایک مضبوط اعصاب کی لڑکی تهی، اس کے باوجود فواد کے اس بهیانک روپ کا صدمہ اتنا شدید تها کہ شروع میں تو اس نے ہمت ہار دی اور اعصاب جواب دے گئے، لیکن اب وہ کسی حد تک سوچنے سمجهنے کے قابل ہوئی تهی- فواد سے سارے بدلے تو وہ بعد میں چکائے گی، ابهی اسے اس اکهڑ اور سرد مہر اےایس پی کی قید سے نکلنا تها-
اس نے ادهر ادهر دیکها، کچھ  خاص نظر نہ آیا  تو اس نے وارڈ روب کهولا- اندر مردانہ کپڑے ٹنگے ہوئے تهے- اس نے کچھ  هینگر الٹ پلٹ کیے اور کچھ  سوچ کر ایک شلوار کرتا نکالا- براؤن کرتا اور سفید شلوار- سب سے پہلے اس نے  ساڑهی کے بوجھ  سے نجات حاصل کی، پهر اس کرتے شلوار کو پہن کر بال سیدهے کر کے بینڈ میں باندهے اور باتھ  روم میں جا کر اچهی طرح منہ دهویا- باہر نکلنے کے لیے کسی روزن کو تلاشتی اس کی آنکهوں کو کوئی باتھ روم کی کهڑکی یا دروازہ نظر نہ آیا تو مایوسی سے پلٹنے لگی تهی کہ ایک دم چونکی-
ایک دیوار میں شیلف تها، اس میں شیمپو اور شیو کا سامان رکها تها- شیلف کا اندر سے رنگ باقی دیوار سے زیادہ چمکنا سفید تها-بهلا کیوں؟
وہ قریب آئی سارا سامان نیچے اتارا، اور پهر بغور اندر دیکهتے ہاتھ  پهیرا تو احساس ہوا کہ اس خانے کے پیچهے دیوار نہیں بلکہ کارڈبورڈ کئ سفید پهٹے تهے- میخیں کچی اور تازہ لگ رہی تهیں-
آگے کا کام بہت آسان تها- اس نے سارے نل کهول دیے، تاکہ آواز باہر نہ جائے اور تهوڑی سی محنت کے بعد پهٹے کهینچ کر اتار لیے- وہ جلدی میں لگائے لگ رہے تهے،سو اسے زیادہ زور نہیں لگانا پڑا-
ان کے  پیچهے کهڑکی تهی، اچهی خاصی چوڑی تهی- وہ اس میں سے باآسانی گزر سکتی تهی- بےحد مطمئن سی ہو کر محمل نے کهڑکی کهولی اور جب باہر جهانکا  تو ایک لمحے کو تو سر چکرا گیا- کهڑکی سے دو فٹ کے فاصلے پر دیوار تهی گهر کی چار دیواری کهڑکی اور چار دیواری کے درمیان صرف خلا تها اور نیچے بہت نیچے پکا فرش تها- وہ اس گهر کی غالبا تیسری منزل پہ موجود تهی- شاید اسی لیے انهوں نے کچے پکے پهٹے لگا دیے تهے، اندازہ ہو گا کہ وہ یہاں سےنہیں نکل سکتی تهی-
اس کا دل ڈوب کر ابهرا- یہ آخری راستہ بهی بند ہوتا نظر آرہا تها- وہ مایوس سی نل بند کر کے کهڑکی بند کرنے ہی لگی تهی کہ سناٹے میں ہلکی سی آواز سنائی تهی-
” آپ صحن میں کیا کر رہی ہیں؟”
” باجی ، وہ میڈم مصباح نے کہا تها کہ ارلی مارننگ منہ پہ گلاس کھ  کر پریکٹس کروں تو آواز اچهی نکلتی ہے، وہی کر رہی تهی-”
” ٹهیک ہے، آپ امانتیں پوری کر کے آجائیں تو گرل کے دروازے کو کنڈی ضرور لگائے گا-” دو لڑکیوں کی باتیں کرنے کی آوازیں، بہت قریب نہیں تو بہت دور بهی نہیں تهیں- وہ چونکی اور پهر باتھ روم کی لائٹ بند کی-
باہر کا منظر قدرے واضح ہوا- کهڑکی سے دیوار کا فاصلہ دو فٹ کا تها، مگر وہ دیوار کی منڈیر تهی مگر آوازیں کہیں نیچے سے نہیں، برابر سے آ رہی تهیں- بالکل برابر ہے یعنی اس باتھ روم کے برابر سامنے کا صحن تها-
اگر وہ یہ دیوار پهاند جائے تو……؟
اس اچهوتے خیال نے ذہن میں سر اٹهایا تو اس نے جوتے اتارے اور نیچے جهانکا- اگر گر گئی تو نہیں بچے گی، مگر موت اس ذلت سے بہتر ہوگی جو صبح یا اس بهی بدیر گهر پہنچنے پہ اسے اٹهانی پڑے گی-
اس نے دونوں ہاتھ  چوکهٹ پہ رکهے ہی تهے کہ کمرے کا دروازہ کسی نے زور زور سے کهٹکهٹایا- دروازے کی وہ اندر سے کنڈی لگا چکی تهی، سو وہ کهول نہ پا رہے تهےیقینا کسی نے پهٹے اکهاڑنے کی آواز سن لی تهی- وہ لمحے بهر کو بهی نہ گهبرائی اور ہاته بڑها کر دیوار کو ٹٹولا- وہ قریب ہی تهی-
” الهم…….. اونہوں……” برابر والے صحن میں وہ کهنکاری تهی، اگلے اور لمحے اس کی مدهر مگر ہلکی آواز اندهیری فضا میں گونجنے لگی-
” الهم جعل فی قلبی نورا-“( اے اللہ، میرے دل میں نور ڈال دے….)
محمل نے دیوار پہ ہاتھ رکهے اور نیچے دیکهے بغیر دیوار پہ پاوں بهی اوپر رکھ دیا-
” وفی بصری نورا وفی سمعی نورا-“( اور میری بصارت و سماعت میں نور ہو-)
گهوڑے کی پيٹھ  پہ سوار کی طرح وہ بیٹهی اور نیچے دیکها- صحن کی زمین بہت قریب تهی- دیوار چهوٹی سی تهی-
“وعن یمینی نورا و عن یساری نورا-“( اور میرے دائیں اور بائیں جانب نور ہو-)
اس نے آہستہ سے دونوں پاؤں زمین پہ رکهے- وہ بالآخر برابر والوں کی چهت پہ اتر آئی تهی- لمحے بهر کو وہ بےیقین سی پلٹ کر دیوار کو دیکهنے لگی جس کے  پار اےایس پی ہمایوں داؤد کا گهر تها- بلکہ قید خانہ جس سے وہ نکل آئی تهی- اسی پل دیوار کے پار سے روشنی سی چمکی- وہ ٹهٹهکی- یقینا کسی نے باتھ روم کی لائٹ جلائی تهی-
اپنی بےوقوفی پہ اسے غصہ آیا- اسے باتھ روم کا دروازہ بند کر کے نل کهول کر آنا چاہیئے تها مگر عادی فراری تو نہ تهی، یا پهر اس لڑکی کی آواز کے فسوں میں ایسی کهوئی تهی کہ ہوش نہ رہا تها-
” وفوقی نورا و تحتی نورا-“( اور میرے اوپر اور نیچے نور ہو-)
سامنے ایک برآمدہ تها جس کے آگے گرل لگی تهی- گرل کا دروازہ کهلا تها اور دروازے سے کافی دور ایک لڑکی زمین پہ بیٹهی، گرل سے ٹیک لگائے ، آنکهیں بند کیے، منہ پہ گلاس رکهے گنگنا رہی تهی-
” وامامی نورا و خلفی نورا-“( اور میرے آگے اور پیچهے نور ہو-)
وہ دیوار کے ساتھ  ساتھ  گهٹنوں کے بل رینگتی گرل تک آئی – وہ لڑکی دنیا و مافیہا سے بےخبر اپنی مناجات میں گم تهی-
” واجعل لی نورا-“( اور میرے لیے نور بنا دے-)
محمل چاپ پیدا کیے بغیر کهلے دروازے سے اند رینگ گئی- لڑکی اسی طرح مگن تهی-
” وفی لسانی نورا و عصبی نورا-“( اور میری زبام و اعصاب میں نور ہو-)
اس نے دهڑکتے دل کے ساتھ ادهر ادهر دیکها- لمبا سا برآمدہ خالی تها- بس دور ایک فریج پڑا تهااور اس کے ساتھ جالی دار الماری تهی- اندهیرے میں مدہم چاندنی کے باعث اسے اتنا ہی نظر آیا تها- وہ بہت آہستہ سے اٹهی اور دبے پاوں فریج کی طرف بڑهی-
“ولحمی نورا و دمی نورا-“( اور میرے گوشت اور لہو میں نور ہو-)
فریج اور الماری کے درمیان چهپنے کی جگہ تهی، وہ جهٹ ان کے درمیان آ بیٹهی، مگر سامنے ہی دروازہ تها- وہ لڑکی واپس آتی تو سیدهی اس پہ نگاہ پڑتی- نہیں، اسے یہاں چهپنے کی بجائے نیچے جانا چاہیے-
” وشعری نورا و بشری نورا-“( اور میرے بال اور کهال میں نور ہو-)
اندر جانے والا دروا ہ بند تها- اگر اسے کهولتی تو آواز باہر جاتی- وہ پریشان سی کهڑی ہوئی- تب ہی جالی دار الماری کے ہینڈل پر اسے  کچھ  لٹکتا نظر آیا- اس نے جهپٹ کر وہ اتارا۔  سیاہ جارجٹ کا لبادہ-
اس نے چاند کی روشنی میں آنکهیں پهاڑ پهاڑ کر دیکهنا چایا-
” واجعل فی نفسی نورا-“( اور میرے نفس میں نور ہو-)
باہر وہ بےخبر سی ابهی تک دعا پڑھ رہی تهی-
اس نے لبادہ کهولا- وہ سیاه عبایا تها اور ساتھ ایک گرے اسکارف- محمل نے پهر کچھ  نہیں سوچا اور عبایا پہننے لگی- تبهی اسے احساس ہوا کہ وہ مردانہ شلوار کرتا میں کهڑی ہت اور ننگے پاوں ہے- عبایا بهی اسے غنیمت لگا تها-
” واعظم لی نورا-“( اور میری ہڈیوں میں نور ہو-)
اسکارف کو اس نے بمشکل چہرے کے گرد لپیٹا- عادت نہ تهی تو مشکل لگ رہا تها- اب اسے کسی طرح نیچے جا کر سڑک تک پہنچنا تها، آگے اپنے گهر کا راستہ تو آنکهیں بند کر کے بهی آتا تها-
” الهم اعطنی نورا-“( اے اللہ مجهے نور عطا کر-)
وہ اسی ترنم میں پڑھ رہی تهی- محمل تیزی سے عبايا کے بٹن بند کرکے سکارف پہ ہا تھ پهیر کر درست کر رہی تهی کہ ایک دم سے اسے بہت خاموشی لگی-
باہر صحن بہت چپ سا ہو گیا تها- شاید اس لڑکی کی دعا ختم ہو گئی تهی-
اس نے قدرے گهبراہٹ، قدرے جلد بازی  ميں دروازہ کهولنا چاہا، اسی پل اس لڑکی نے پیچهے گرل کی چوکهٹ پہ قدم رکها-
” السلام علیکم…….. کون؟” چوکنی سی آواز اس کے عقب میں ابهری تو اس کے بڑهتے قدم رک گئے- دروازے پہ ہاتھ  رکهے ، وہ گہری سانس لے کر پلٹی-
جاری ہے.

اپنا تبصرہ لکھیں