قدرتی آفات سے بچائو کا روحانی نسخہ

قدرتی آفات سے بچائو کا روحانی نسخہ

علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال پنجاب پپاکستان
محبوب رب کائنات رحمت دو عالم ۖ نے اپنے خادم خاص حضرت انس رضی اللہ عنہ کو یہ دعا تعلیم فرمائی ۔اس کی برکت سے وہ ہر قسم کے مظالم و مصائب فتنہ و فساد ،بلیات اور آفات سے محفوظ رہے ۔اس دعا کو علامہ جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ نے جمع الجوامع میں نقل فرمایا اور شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ نے فارسی زبانی میں اس کی شرح فرماتے ہوئے لکھا ہے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ حضور اکرم ۖ کے خادم خاص تھے دس (10)سال مسلسل آپ اللہ کے پیارے حبیب ۖ کی خدمت میں رہے ان کی والدہ محترمہ کی استدعا پر سرکار دو عالم ۖ نے ان کو خیر دنیا و آخرت کی اس دعا سے مشرف و مخصوص فرمایا ۔
اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ۖ کی اس دعا کی قبولیت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی عمر ،اولاد اور مال میں عظیم برکت فرمائی چنانچہ ان کی عمر 100سال سے زیادہ ہوئی ۔ان کی صلبی اولاد کی تعداد بھی 100تک پہنچی جن میں73مرد اور 27عورتیں تھیں اور ان کا باغ سال میں دو مرتبہ پھل دیتا ۔
علامہ جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ نے جمع الجوامع میں اور ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں اس با برکت اور مجرب و موثر دعا کے حوالے سے ایک واقعہ نقل کیا ۔
ایک دن حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ حجاج بن یوسف ثقفی کے پاس بیٹھے تھے ۔حجاج نے اپنے خدام کو حکم دیا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کو مختلف اقسام کے ہمارے 400 وگھوڑوں کا معائنہ کروائو ۔حکم کی تعمیل کی گئی حجاج بن یوسف نے اپنے مخصوص انداز میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا فرمائیے آپ نے اپنے آقا یعنی حضو ر اکرم ۖ کے پاس بھی ایسے اعلیٰ نسل گھوڑے اور ناز و نعمت کے یہ سامان بھی کبھی دیکھے تھے ؟
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے جواباً ارشاد فرمایا: یقینا بخدا میں نے اپنے آقا و مولا حضرت محمد مصطفےٰ ۖ کے پاس اس سے بدرجہ بہتر چیزیں دیکھیں ہیں اور میں نے حضور اکرم ۖ کو فرماتے سنا کہ جن گھوڑوں کی لوگ پرورش کرتے ہیں ان کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک شخص گھوڑا اس نیت سے پالتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرے گا اور دادِ شجاعت دیگا اس گھوڑے کا گوشت پوست خون حتیٰ کہ گندگی تک اس کے ترازوئے عمل کا وزن بڑھائے گی ۔
دوسرا شخص اس نیت سے گھوڑا پالتا ہے کہ ضرورت کے وقت سواری کریگا اور اپنی ضرورت کے وقت اس سے کام لے گا یہ نہ ثواب کا مستحق ہے نہ عذاب کا ۔
تیسرا شخص وہ ہے جو گھوڑے کی پرورش نام و شہرت کیلئے کرتا ہے تاکہ لوگ دیکھیں اور مرعوب ہوں اس کی تعریف کریں ایسا شخص دوزخ میں جائے گا۔اے حجاج تیرا اور تیرے گھوڑوں کا شمار اس تیسری قسم میں ہوتا ہے ۔
حضر ت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی اس حق گوئی سے محفل میں سناٹا چھا گیا ،حجاج کے ظالمانہ مزاج اور اس کے غیض و غضب سے سب واقف تھے خود حضرت انس رضی اللہ عنہ اچھی طرح جانتے تھے کہ حجاج بن یوسف ایسا ظالم و جابر حاکم ہے جو مزاج کے خلاف ذرا سی بات بھی برداشت نہیں کرتا ۔
اس کے اشارہ ابرو پر گردنیں اڑا دی جاتی ہیں ۔حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حق گوئی کا اظہار جس جرأت سے کیا تھا اسے دیکھتے ہوئے خدام نے یقین کر لیا کہ اب حضرت انس رضی اللہ عنہ کا سر تن پر نہیں رہ سکے گا اس لئے کہ ایسے واقعات وہ دن میں دس مرتبہ دیکھتے تھے ۔حجاج بن یوسف حضرت انس رضی اللہ عنہ کی بات سن کر بھڑک اٹھا ۔غیض و غضب سے اس کا چہرہ سرخ ہو گیا یہی وجہ تھی کہ خدام کے ہاتھ ان کی تلواروں کے دستوں پر پہنچ گئے لیکن خلاف توقع اس نے صرف اتنا کہا ۔اے انس تم نے مسلسل دس سال اللہ کے رسول ۖ کی جو خدمت کی ہے اگر اس کا لحاظ نہ ہوتا نیز عبد الملک بن مروان نے جو خط تمہاری سفارش اور رعایت کے سلسلے میں لکھا ہے اس کی پاسداری نہ ہوتی تو نہیں معلوم آج تمہارا حشر کیا ہوتا ۔میرے غیض وغضب سے کون واقف نہیں ۔خدا کا شکر کرو کہ تمہارے کندھوں پر تمہارا سر سلامت ہے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے پہلے جیسی جرأت کے ساتھ فرمایا ۔اے حجاج خدا کی قسم تو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور نہ تجھ میں اتنی ہمت ہے کہ تو مجھے نظر بد سے دیکھے ۔حجاج نے یہ اندازِ گفتگو کہانہ سنا تھا تو وہ غصہ کے مارے آپے سے باہر ہو گیا ۔آنکھیں شعلے اگلنے لگیں وہ اپنی نشست پر کھڑا ہو گیا اس کا ہاتھ اپنی تلوار کے دستے پر تھا خدام نے اپنی تلوار یں کھینچ لیں وہ حکم کے منتظر تھے آن واحد میں سر قلم کردینا ان کا روز کا معمول تھا ۔لیکن حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ انتہائی غیض و غضب کے باوجود حجاج کے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکلا ۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے غیبی قوت نے اس کی قوت گو یائی سلب کر لی ہو ۔اس کے چہرے سے غصہ اور بے بسی ایک ساتھ ظاہر ہو رہی تھی ۔خدا م کے لئے یہ ایک بالکل نئی بات تھی ۔انہوں نے پہلی بار دیکھا کہ ان کی تلواریں نیام سے باہر آنے کے بعد خون سے رنگین ہوئے بغیر حجاج کے اشارہ پر واپس نیام میں جا رہی تھیں ۔
حجاج بن یوسف کچھ دیر تو خاموش رہا پھر بولا ۔اے انس رضی اللہ عنہ تم نے اتنے وثوق سے یہ بات کیوں کہی کہ میں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا جبکہ خدام میرے اشارہ ابرو کے منتظر ہیں ۔حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفےٰ ۖ نے مجھے ایسے کلمات عطا فرمائے ہیں جن کا ورد کرنے کے سبب اللہ تعالیٰ مجھے ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں اور اپنی پناہ میں رکھتا ہے ۔مجھے نہ کسی سلطان کی سطوت کی خوف ہے نہ کسی ظالم کے ظلم کا ڈر ہے اور نہ کسی شیطان کے شرکااندیشہ ،حجاج بن یوسف حضرت انس رضی اللہ عنہ کی بات سن کرمبہوت رہ گیا کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا اے ابو حمزہ مجھے بھی وہ کلمات سکھا دو۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا تجھے ہر گز نہیں سکھائوں گا ۔بخدا تو اس کا ہرگز اہل نہیں اس کے بعد حضرت انس رضی اللہ عنہ حجاج کے دربار سے اٹھ کر چلے گئے ۔حجاج بن یوسف نے اپنے خدام خاص سے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا اس کے پاس یقینا رسول اللہ ۖ کے عطا کردہ کچھ کلمات ہیں جو ان کی جان بچا کر لے گئے ورنہ میں تو ان کے قتل کا فیصلہ کر چکا تھا لیکن میرے منہ سے ایک لفظ نہ نکل سکا ۔کاش انس رضی اللہ عنہ مجھے وہ کلمات سکھادیتے۔
جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کے وصال کا وقت قریب آیا تو آ پ کے خادم نے کچھ عرض کرنا چاہا تو آپ نے نہایت شفقت سے فرمایا ۔ کیا چاہتے ہو۔عرض کیا آقا میں وہی کلمات سیکھنا چاہتا ہوں جو حضور اکرم ۖ نے آپ کی والدہ کی استدعا پر آپکو عطا فرمائے تھے اور جو حجاج بن یوسف آپ سے سیکھنا چاہتا تھا۔حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تجھے ضرور وہ کلمات سکھائوں گا کیونکہ تو اس کا اہل ہے میں نے حضور نبی کریم ۖ کی دس سال خدمت کی اور آپکا وصال اس حال میں ہوا کہ آپ مجھ سے راضی تھے ۔اسی طرح تونے بھی میری دس سال خدمت کی اور میں تجھ سے راضی ہوں ۔میں تجھے سرکار ۖ کے عطا کردہ کلمات سکھاتا ہوں جن کا صبح و شام ورد رتجھے آفات ارضی و سماوی سے محفوظ رکھے گا اور دین و دنیا کی نعمتیں اتنی میسر آئیں گی کہ جس کا تو تصور بھی نہیں کر سکتا ۔
بِسْمِ اللّٰہِ عَلٰی نَفْسِیْ وَدِیْنِیْ، بِسْمِ اللّٰہِ عَلٰی اَہْلِیْ وَمَالِیْ وَوَلَدِیْ ،بِسْمِ اللّٰہِ عَلٰی مَآاَعْطَا نِیَ اللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّیْ لَا اُشْْْرِکُ بِہ شَیْاً، اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرْ ،وَاَعَزُّ وَاَجَلُّ وَ اَعْظَمُ مِمَّا اَخَافُ وَاَحْذَرُ عَزَّ جَارُکَ وَجَلَّ ثَنَائُکَ وَلَآ اِلٰہَ غَیْرُکَ ،اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَمِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْطَانِ مَرِیْدٍ وَمِنْ شَرِّ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍoفَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ oاِنَّ وَلِیِّ ےَ اللّٰہُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتَابَ وَھُوَ یَتَوَلَّی الصَّالِحِیْنَo۔
اس وقت پورا پاکستان مصائب میں گھرا ہوا ہے یہ دعا مسلمانوں کے لئے ایک کارگر ہتھیار ہے مصائب اور آفات سے محفوظ رہنے کے لئے ایک بہت بری ڈھال ہے اس دعا کو یقین کامل کے ساتھ اپنے ورد میں رکھیے۔

قدرتی آفات سے بچائو کا روحانی نسخہ“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں