فلسطین ایک بند گلی

اس سے پہلے فلسطین کی تاریخ میں اس قدر برا وقت نہیں آیا۔Henriksen Waage ہینرکسن واگے کا کہنا ہے کہ فلسطینوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔یہ قوم اس وقت اپنے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔غذہ کی پٹی ایک پریشر ککر کی مانند ہے۔یہاں کی سرحد کھلی نہیں کوئی ائیر پورٹ نہیں۔یہاں کے عوام کے پاس بیرون ملک سے امداد یا پیسے وصول کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔یہ بات اوسلو یونیورسٹی کی محقق نے نارویجن نیوز بیو رو سے بات کرتے ہوئے کہی۔
اب تک ایک ہزار نو سو پینسٹھ 1965 فلسطینی اپنی زندگی کی بازی ہار گئے ہیں۔جس میں سے چودہ سو عام افراد تھے جبکہ باقی چار سو پینسٹھ 465بچے تھے۔جبکہ اسرائیل کے ستاسٹھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔یہ اعدادو شمار یونیسیف سے حاصل ہوئے ہیں۔جو کہ ایف این کی ذیلی شاخ ہے۔
اس کے علاوہ سترہ ہزار گھر کلی طور پر یا جزوی طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔جس کی وجہ سے فلسطینوں کو اپنے گھر چھوڑنے پڑے۔جبکہ اس مرتبہ مصر نے بھی ان کی مدد نہیں کی۔نہ ہی ان کے پاس سرنگیں ہیں۔جس کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔اس سے پہلے مصر سے انہیں خوراک اور گھر بنانے کے لیے امداد مل جاتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔
اس وقت حماس میں فل اسٹاپ ہے ۔حماس اپنے سیاسی مقاصد کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔یہ بات محقق ایرکسن نے بتائی۔

اپنا تبصرہ لکھیں