فدا

meriot 2

عابدہ رحمانی

یہ وہ وقت تھا جب افغان جہاد یعنی روس کے خلاف افغانیوں کی جنگ کو افغان جہاد کہا جاتا تھا اور لڑنے والے مجاہدین کہلاتے تھے یہ مجاہدین امریکہ کی آنکھوں کا تارا تھے ، امریکہ ان کی ہر طرح کی مدد پر کمربستہ تھا ان کی بہادری کے راگ الاپے جاتے ، اخبارات ان کی دیدہ دلیری کی داستانوں سے بھرے ہوتے اور ہالی ووڈ ان کی فلمیں بناتا تھا۔ امریکی ڈپلومیسی ان کو خوش کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھتی۔ آج وہی مجاہدین دہشت گرد بن گئے ہیں اور امریکہ کی افواج سے لڑ رہے ہیں۔ وقت اتنی تیزی سے کروٹ بدلتا ہے کہ حالات کچھ سے کچھ ہو جاتے ہیں۔

اسی زمانے کی بات تھی جب افغان مہاجرین جوق در جوق پاکستان میں داخل ہو رہے تھے۔ حکومت پاکستان نے بھی انسانی ہمدردی یا کسی اور جذبے کے تحت اپنی سرحدیں کھول دی تھیں۔ یوں بھی سرحد کے دونوں اطراف کے باشندے ملی جلی ثقافت سے تعلق رکھتے تھے۔ صوبہ سرحد میں تو جیسے افغانیوں کا سیلاب آ گیا تھا اور رفتہ رفتہ یہ پورے پاکستان میں پھیل رہے تھے۔ عالمی اداروں اقوام متحدہ ، ریڈکراس اور دیگر تنظیموں نے ان کی امداد کے لیے بے شمار پروگرام شروع کیے تھے۔

احمد بھائی ان ہی دنوں میں پشاور کے خیبر میڈیکل کالج سے ڈاکٹر بن کر نکلے تھے۔ ہاؤس جاب مکمل کرکے نوکری ڈھونڈ رہے تھے کہ یونی سیف  کی طرف سے باجوڑ میں افغان مہاجرین کے ایک کیمپ میں تعینات ہوئے۔ احمد بھائی یوں تو مجھ سے 4 سال بڑے تھے لیکن ہم دونوں کا دیگر بھائی بہنوں کی نسبت گہرا تعلق تھا۔ یوں بھی ہماری سوج کچھ ملتی تھی۔ اور ابا کے بعد احمد بھائی سے متاثر تھی ۔ ان کی سوچ ہمیشہ سے بہت میچور تھی اور میں بھی اپنے ہم عمروں سے زیادہ میچور تھی اس لیے ہم آپس میں کافی باتیں شریک کرتے تھے۔

احمد بھائی ہمیشہ سے آرٹ اور لٹریچر کے دلدادہ تھے اور انہوں نے مجھے بھی اس خبط میں مبتلا کیا۔مما اور پاپا اکثر ناراض ہوتے تھے۔ میڈیکل کی اتنی موٹی کتابیں پڑھنے کے بعد تمہیں ان کتابوں کا ٹائم کیسے ملتا ہے لیکن کتابیں اور اچھی کتابیں پڑھنا ہمیں ورثے میں ملا تھا۔ پاپا کی اپنی لائبریری اتنی زبردست تھی۔

ہاؤس جاب ختم ہونے کے بعد یہ ان کی پہلی جاب تھی ہم لوگوں کو ٹریٹ دینے تکہ ہاؤس لے گئے۔ یہاں کا باربی کیو بہت مشہور تھا اور وہ خود بھی کھانے پینے کے شوقین تھے۔ پاپا زیادہ گوشت کھانا پسند نہیں کرتے تھے اور انجائنا کے اٹیک کے بعد تو اور کم کر دیا تھا۔ پھر کولسٹرول کا مسئلہ تو تھا ہی۔ اگرچہ کافی دوائیاں کھاتے تھے لیکن کھانا پرہیزی ہوتا تھا ۔زیادہ تر مرغی یا مچھلی اور ساتھ میں سبزیاں یا دال ہوتی تھی ۔ چائینیز کھانا البتہ ان کو زیادہ پسند تھا کیونکہ و ہ زود ہضم ہوتا ہے اور سبزیاں کافی ہوتی ہیں۔ بیٹے کی خوشی میں شریک ہونے گئے بلکہ ٹریٹ انہی کی طرف سے تھی۔ بھائی نے کہا “پاپا !میں تو ابھی آپ پر ڈپنڈنٹ ہوں”

ہمارے ہاں کے بچوں کے کیا ٹھاٹ ہیں۔ مغربی ممالک میں تو چھوٹی عمروں سے کام شروع کر دیتے ہیں۔ کمائیں ، کھائیں اور پڑھیں۔ اگلے دن بھائی کو باجوڑ جانا تھا اگرچہ ہم پٹھان ہیں پشتو بولتے ہیں لیکن پڑھے لکھے اور مہذب کہیں تو بے جا نہ ہو گا لیکن پھر بھی پٹھان ثقافت سے واقف ہیں اس لیے بھائی تو زیادہ پریشان نہیں تھے۔ ہم لوگ بھائی کی جدائی سے اداس ہو رہے تھے اور خوش بھی کہ اب وہ پورا ڈاکٹر ہو چکا ہے۔ پاپا کا بہت ارمان تھا جو پورا ہو گیا تھا۔ ہمارے ہاں کے بہترین دماغ ڈاکٹر اور انجینئر ہی بنے ہیں اور دونوں کامیاب پیشے ہیں۔ اگر اس میں داخلہ نہ ملے تو پھر کسی دوسرے شعبے میں جاتے ہیں۔ پاپا خود فوج میں کرنل تھے اور انہیں فوج اور فوج کی زندگی بے حد پسند تھی ا ن کی بہت خواہش تھی کہ ان کا کوئی بیٹا فوج میں جائے۔ اظہر بھائی نے کوشش کی تھی لیکنISSB میں ناکام ہوئے اور پھر انجینئرنگ میں چلے گئے۔ وہ بعد میں ہمیں کافی رازداری سے بتاتے تھے کہ انہیں فوج کا قطعی شوق نہیں تھا بس پاپا کی خوشی کے لیے درخواست دی تھی اور آئی ایس ایس بی میں جان بوجھ کر الٹے سیدھے جواب دیے۔ احمد بھائی اگر فوج کی طرف سے میڈیکل میں جاتے تو لامحالہ فوج کی نوکری کرتے لیکن انہوں نے پرائیویٹ پڑھا تھا – پاپا کی اب بھی خواہش تھی کہ وہ فوج کے میڈیکل کور میں شامل ہو جائیں جبکہ دیگر ڈاکٹر فوج سے بھاگنے کو ترکیبں ڈھونڈتے تھے۔

باجوڑ میں افغان مہاجرین کے لیے قائم ایک ڈسپنسری میں وہ اقوام متحدہ کی طرف سے تعینات ہوئے۔ امریکہ سے بھی ڈاکٹروں کی ایک ٹیم آئی تھی۔ اس ٹیم میں ایک بھارتی نژاد امریکی ڈاکٹر اجے کمار بھی تھا۔ یہیں سے ان دونوں کی دوستی کی ابتداء ہوئی۔ تقریباً 3 مہینے ان لوگوں نے ساتھ گزارے اور بقول شخصے ایک جان دو قالب ہوئے۔ مجھے یہ سب کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا کیا دوستی کرنے کے لیے یہی انڈین ہندو ڈاکٹر ہی رہ گیا تھا۔ دراصل بھارت اور پاکستان کی مسلسل دشمنی اور لڑائیوں نے مجھے بھارتی ہندوؤں سے کافی بدگمان کیا ہوا تھا۔ بھائی چھٹیوں میں آیا تو اس کو ساتھ لے آیا ہو ٹھہرا تو ہوٹل میں تھا بھائی اس کو خوب گھماتے پھراتے تھے۔ پاپا بھی اس کے بھارتی نژاد ہندو ہونے سے زیادہ خوش نہیں تھے اور اس کو اپنے قصے سناتے تھے کہ انڈیا میں تعیناتی کے دوران ان کے کافی ہندو دوست تھے لیکن ان میں سے زیادہ تر پیٹھ میں چھرا گھونپنے والے دوست تھے۔ ہمارے ہاں جوان لڑکیوں کا بھائی کے دوستوں سے ملنا ملانا کافی ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا اس لیے بھائی اسے اندر لانے سے پہلے خوب اطمینان کرتے کہ میں کہیں آس پاس نہ ہوں بلکہ ایک اطلاع عام ہو جاتی “گلوڈرائنگ روم میں میں اور میرے دوست بیٹھے ہیں”

اظہر بھائی ہوتے تو ان کی اور احمد بھائی کی آپس میں کافی انڈرسٹینڈنگ تھی اور دوست بھی مشترک تھے۔ بھائی کہتے تھے ’’بس وہ تو نام کا ہندو ہے۔ چھوٹا سا تھا جب اس کے ماں باپ امریکہ چلے گئے تھے وہیں پلا بڑھا اور وہیں تعلیم حاصل کی۔ ماں باپ بھی دونوں ڈاکٹر تھے اور بنیادی طور پر سندھی تھے ضلع شکارپور کے رہنے والے تھے لیکن بعد میں بمبئی چلے گئے اور پھر امریکہ میں آباد ہوئے۔”

پھر بھائی اور اجے نے کراچی کا پروگرام بنایا۔ آپا وہیں پر تھیں بھائی تو آپا کے پاس ٹھہرے اور اجے ہوٹل میں یہ اس کی خاص بات تھی کہ وہ ہمیشہ رہتا ہوٹل میں تھا۔ آپا کا بڑا بیٹا نوید ان دنوں فارغ تھا اس کے امتحانات ختم ہو چکے تھے وہ ان کو لے کر ٹھٹہ ، گڈانی ، اسپنڈزپٹ ، بزنس روڈ ، بندو خان اور جگہ جگہ لے کر پھرتا رہا۔ یہ کراچی کے اچھی دنوں کی بات ہے۔ آپا خود بھی ان کو خوب پکا پکا کر کھلاتی رہیں۔ ظاہر ہے بھائی اور بھائی کا دوست گئے تھے۔ نوید نے مجھے بتایا کہ ’’اَجے نے تو روح افزا کے دو تین جگ پی لیے‘‘ یوں لگتا تھا کہ اگرچہ وہ پلا بڑھا امریکہ میں ہے لیکن اندر سے وہ پکا دیسی ہے الیے اس کو Authentic دیسی کھانوں کے بے حد شوق تھا۔ امریکہ واپس گیا تو بھائی سے اس کی خط و کتابت جاری رہی۔

پاپا کے کہنے پر بھائی نے آرمی میں درخواست دی تھی اور ان کا سلیکشن ہو گیا۔ سوائے پاپا کے باقی سب ناخوش تھے۔ ہمارا تو خیال تھا کہ وہ اپنے امریکی دوست کے پاس امریکہ جانا چاہیں گے اور ای سی ایف ایم جی کا امتحان پاس کرینگے لیکن وہ فوج میں چلے گئے ۔جب پہلی مرتبہ وردی پہن کر پایا کے سامنے آئے تو پاپا کی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں اور چہرہ تمتما رہا تھا۔ پاپا کو پاکستان آرمی سے عشق تھا اور وہ دلی تمنا رکھتے تھے کہ ان کے بچے یعنی بیٹے فوج میں شامل ہوں۔ ایمانداری کی بات یہ ہے کہ فوجی وردی ان پر بے حد جچ رہی تھی۔ پاپا کا بھی یہی حال تھا فوجی وردی میں اور وجیہ نظر آتے تھے۔ مجھے کبھی یاد نہیں پڑتا کہ میں نے ان کی توند دیکھی ہو۔ ہمیشہ ایک متوازن وزن لمبا قد اور خوبصورت سراپا تھا اور بھائی بھی انہی پر گئے تھے۔

مجھے پورا یقین تھا کہ فوج میں جانے کے بعد اجے سے ان کے تعلقات یقیناً ختم ہو جائینگے اور اب وہ امریکہ واپس گیا تو کیا کرنے آئے گا یہاں ؟ لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب معلوم ہوا کہ وہ پاکستان آ رہا ہے۔ بھائی نے بتایا کہ اس نے فیلو شپ کر لی ہے اور اب ریڈیالوجسٹ بن گیا ہے کو لمبس کے ماؤنٹ سنیائی ہسپتال میں کام کر رہا ہے۔ بھائی کی پوسٹنگ ان دنوں ایبٹ آباد میں تھی وہ خاص طور پر اس کے لیے دس دن کی چھٹی پر اسلام آباد آئے۔ جب بھائی اس کو گھر لائے تو پروین اور نسرین خالہ بھی آئی تھیں وہ ایک بکس بھر کر ہم لوگوں کے لیے تحفے تخائف اور چاکلیٹس لے کر آیا تھا۔ مما کو جب اس نے باکس تھمایا کہ یہ آپ لوگوں کے لیے ہے تو وہ تو بے حد مرعوب ہوئیں۔ میرے ایم ایس سی کے پیپرز ہو رہے تھے اور سرمد سے رشتے کی بات بھی چل رہی تھی۔ مما نے خالاؤں کے سامنے ہی باکس کھول ڈالا۔ فرداً فرداً سب ہی کے لیے کافی مہنگے تخائف تھے ، پرفیومز، گھڑیاں ، سوئیٹر ، پینٹس اور ٹی شرٹس ، خالاؤں نے ایک دوسرے کو آنکھ ماری ، ’’آپا !کیا گلو سے رشتہ کرنا چاہ رہا ہے؟‘‘

’’نہیں بھئی کیسی باتیں کر رہی ہو۔ ہندو ہے ایسی کوئی بات ہرگز نہیں ہے”

” ہاں تو کیا ہوا؟ مسلمان ہو جائے گا۔ “نسرین خالہ دور کی کوڑی لائیں ۔

“اس نے تو گلو کو کبھی دیکھا تک نہیں ہے نہ کبھی ملا ہے” مما نے جواب دیا۔

مما نے سرمد کے رشتے والی بات ان سے چھپائی۔ مجھے سامنے والے کمرے میں ساری آوازیں صاف آ رہی تھیں مما اور خالائیں خوب اونچی آواز سے بولتی تھیں۔ مما نے چاکلیٹوں میں ان کا بھی حصہ لگا دیا۔

پاپا نے بھائی سے کہا کہ اس کو کوئی خوبصورت قالین خرید کر دے دو یا کپڑے وغیرہ بنوا دو۔ اب تو ہمارے گھر میں اجے کی خوب آؤ بھگت ہوئی۔ وہ ہالی ڈے ان میں ٹھہرا ہوا تھا۔ دن بھر وہ اور دونوں بھائی اظہر بھائی بھی ساتھ مل جاتے تھے آفس سے آنے کے بعد گھومتے رہتے ، نہاری ، پائے ، حلیم ، بریانی ، رس ملائی ، قلفی فالودہ کھیر اس کے پسندیدہ کھانے تھے پھر پشاور چلے گئے تو وہاں پر چرسی کے تکے ، کڑاہی تکے ، چپلی کباب اور شنواری کے تکوں کا زور تھا بلکہ لنڈی کوتل بھی گئے۔ مما پاپا کہتے ’’کاش مسلمان بھی ہو جاتا تو کتنا اچھا لڑکا ہے‘‘

سرمد کی فیملی کو مما ٹال رہی تھیں کہ گلو کا امتحان ختم ہو جائے تو پھر نکاح کر دیں گے۔ وہ لوگ ہمارے قریبی دوست تھے بلکہ اس کے والد بھی فوج سے میجر ریٹائر ہوئے تھے۔ سرمد ایم بی اے کرکے بینک کی ملازمت کر رہا تھا اور پھر ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے پسندیدگی رکھتے تھے۔بچپن کی جان پہچان تھی۔ میں پہلے تو سرمد بھائی کہتی تھی لیکن اب سہیلیوں سے ذکر میں نام لیتی تھی۔ یوں اپنے آپ کو تیار کر رہی تھی۔ مما کہنے لگیں ’’منگنی سے نکاح زیادہ بہتر ہے۔ چار پانچ مہینے میں رخصتی کر دیں گے۔‘‘

نکاح سے ایک دو ہفتے پہلے ہی اطلاع آئی کہ سرمد کا نیویارک کے سٹی بینک میں اپوائنمنٹ ہو گیا ہے اور وہ دو مہینے تک چلا جائے گا تو پاپا مما نے ان لوگوں سے کہا کہ پھر تو باقاعدہ شادی کر لیتے ہیں اور دونوں ساتھ چلے جائیں۔ جب میری شادی کی تیاریاں زوروں پر تھیں کیونکہ وقت بھی کم تھا تو معلوم ہوا کہ اجے شادی میں شریک ہونے آ رہا ہے۔ نامعلوم کیوں مجھے کچھ چڑ سی ہو رہی تھی ’’مما اب وہ اجے آ جائے گا تو بھائی تو اسی کی خاطر مدارت میں لگے رہیں گے اتنے سارے کام باقی ہیں کرنے کو ، اسے دعوت دینے کی آخر کیا ضرورت تھی ”

مما بھی صورتحال جانتی تھیں لیکن بیٹے کو ناراض کرنا بھی نہیں چاہتی تھی اس لیے خاموش رہیں۔ بھائی کو کچھ اندازہ ہو گیا تھا تو کہنے لگے ’’بھئی میں نے اسے سرسری سا بتایا تھا کہ ان تاریخوں میں گلو کی شادی ہے اور وہ خودہی مصر ہو گیا کہ پھر تو میں ضرور آؤں گا تمہاری بہن میری بھی بہن ہے اور تمہاری خوشیوں میں شریک ہوں گا‘‘ وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ گھر میں تین کاریں تھیں میں، مما اور پاپا بھی گاڑی چلاتے تھے اور پھر ڈرائیور بھی تھا۔

اجے کے آنے کے بعد وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ رات تو اس کی ہوٹل میں گزرتی تھی لیکن دن میں دونوں بھائی اس کے ساتھ لگے ہوئے تھے۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ پاپا ان کو کاموں کی لسٹ تھما دیتے ، دعوت نامے تقسیم کرنے کو کہتے اور وہ اس کو ساتھ لیے لیے سارے کام کرتے۔

وہ اوپر سے تو امریکن بنتا لیکن اندر سے پکا دیسی تھا ، چھولے ، چاٹ ، بھٹے ، امرود کالا نمک چھڑک کر وہ سب کھاتا جو بھائی وغیرہ خود بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ گول گپے ، دہی بڑے ، پراٹھا رول غرضیکہ چٹخاروں کا دیوانہ تھا۔معلوم ہوا کہ بڑے زبردست کام والے کرتے پہننے کے لیے بنا رہا ہے۔ ساتھ میں واسکٹ اور شالیں بھی خریدی ہیں۔

اس مرتبہ پھر وہ لدا پھندا تحفے تحائف کے ساتھ آیا۔ میرے لیے خوبصورت ڈائمنڈ کا نازک سا سیٹ اور سرمد کے لیے خوبصورت سی گھڑی لایا۔

آہستہ آہستہ وہ ہماری فیملی میں شامل ہوتا گیا۔ اب اس کو سب کے ساتھ ڈائننگ ٹیبل پر بٹھا دیا جاتا۔ میں بھی سامنے جانے لگی لیکن مجھ سے بس اس کی ہیلو ہائے ہوتی تھی۔ مما سے کہنے لگا ’’مجھے بہت شوق ہے کہ میں آپ لوگوں کی شادی کی رسمیں دیکھوں”

ہماری شادیوں اور انڈین شادیوں میں ظاہر ہے فرق تو ضرور ہے لیکن کافی رسمیں ملتی جلتی ہیں۔ مہندی ، مایوں وغیرہ تو اصل میں انڈین رسم ہے ‘‘ مما نے اسے وضاحت کی۔

میری سہلیاں شام کو آ جاتیں، ڈھولک وغیرہ بجاتیں ، گانے گاتیں ، ڈانس بھی ہو جاتے۔ مہندی وغیرہ کے لیے ریہرسل تھی۔ وہ آس پاس ہی ہوتا۔ عام طور پر شادی بیاہ کے ماحول میں لوگ ذرا بے پرواہ ہو جاتے ہیں۔ کبھی کبھار سرمد اور اس کے بھائی بھی آ جاتے تو یہ لوگ اپنی محفل گرم کرتے۔ لگتا تھا کہ اسے اس سب میں خوب لطف آ رہا ہے۔ بھائی بتاتے تھے کہ وہ اکیلے رہتا ہے اس لیے اس کو ہماری فیملی لائف بہت پسند ہے۔نہ معلوم اس کی اپنے ماں باپ سے ان بن تھی یا بہت زیادہ تعلق نہیں تھا۔

فاطمہ پھوپھو کو بڑا اعتراض ہوا جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ ہندو ہے وہ پردے کی بہت پابند تھیں۔ اجے کو دیکھ کر دوپٹے سے منہ چھپا لیتیں ’’ارے یہ ہندو میرے منہ نہ لگے‘‘ ’’اردو سمجھتا ہے آپا “مما نے سمجھایا۔

شادی میں میری سہلیاں مذاق کر رہی تھیں ’’گلو !وہ احمد بھائی کا دوست اجے تو ایسا تیار ہوا ہے کہ دولہا یا دولہے کا شہ بالا لگ رہا ہے۔‘‘

شادی ، ولیمے ہر فنکشن میں بھرپور شرکت کی ، شادی کے بعد میری اور سرمد کی اس سے تھوڑی بات چیت بھی ہوئی۔ میرا خیال تھا کہ وہ ہم سے امریکہ جانے کے متعلق ضرور پوچھے گا لیکن اس نے کوئی بات نہ کی۔

ہم لوگ نیویارک کے لیے جب روانہ ہو رہے تھے تو پاپا نے اپنے دوستوں کے بچوں تک کے فون نمبر دیے۔ میری دو کزن دوسرےStatesمیں تھیں اسی طرح سرمد کے بھی کچھ رشتہ دار تھے جن سے ہمیں رابطہ کرنے کو کہا گیا۔ نیویارک آنے کے بعد ظاہر ہے کہ ہم دونوں کو Settle ہونے میں کافی وقت لگا ،ایک تو ہم دونوں پہلی مرتبہ اتنی دور اپنے لوگوں سے آئے تھے اور تنہا تھے ، آہستہ آہستہ نئی زندگی کے عادی ہوتے گئے۔ فون کرنا اس زمانے میں اتنا مہنگا تھا۔ معلوم ہوا کہ سب وے پر ایک کالنگ بوتھ ہے تو ہم دونوں سرشام وہاں پہنچ جاتے وہاں ہمارے جیسوں کی ایک لمبی لائن لگی ہوتی تھی لیکن ہمارے لیے وہ وقت عید سے کم نہ ہوتا جب پاکستان ہماری لائن ملتی تھی اور اپنوں سے بات کرتے تھے۔ یہ بوتھ کچھ Hispanic چلاتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ سب پکڑے گئے۔ غیرقانونی دھندہ تھا۔ جو لوگ کال کرنے آتے تھے وہ بھی شکراللہ کا کہ ہم وہاں نہیں تھے۔

اجے نے ہمیں پلٹ کر پوچھا بھی نہیں کہ ہم کس حال میں ہیں اور کہاں ہیں ؟

بھائی سے شکایت کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ ظاہر ہے وہ ان کا دوست تھا ، ایک دن سرمد کہنے لگے”مجھے توgay لگتا ہے”

“خدا کا خوف کریں سرمد !خواہ مخواہ کی باتیں کیوں کرتے ہیں ؟” میں نے کہا لیکن ایک بات تو واضح تھی کہ وہ جیسے احمد بھائی پر عاشق یا فدا تھا ظاہر ہے میرا بھائی تھا بھی بہت ساری خوبیوں کا مالک! سرمد کو H-one ویزہ لگا تھا کچھ عرصے کے بعد گرین کارڈ کے لیے درخواست دی اس سارے سلسلے میں امریکہ سے باہر نکلنا ہمارے لیے مسائل پیدا کر سکتا تھا اور اسی دوران مما پاپا نے بھائی کا رشتہ طے کر دیا۔ پشاور کے ایک بہت اچھے خاندان کی پیاری سی لڑکی تھی۔ میڈیکل کالج میں احمد بھائی سے تین سال جونیئر تھی۔ مما نے مجھے تصویر بھیجی اور بتایاکہ اگلے مہینے نکاح کر رہے ہیں اور چند مہینے بعد رخصتی تھی میں نے بہتیرا شور مچایا ’’مما ہمارا گرین کارڈ آنے دیں اور پھر شادی کی تاریخ رکھیں‘‘ خیر انہوں نے حامی بھری ، لیکن پھر معلوم ہوا کہ لڑکی کی والدہ کو کینسر ہے اور وہ جلدازجلد اس فرض سے سبکدوش ہونا چاہتی ہیں۔ روتے دھوتے میں نے کہا ’’ٹھیک ہے آپ لوگ یاد رکھیں کہ میرے بغیر شادی کر رہے ہیں”

اجے شادی میں اپنی گرل فرینڈ سمیت پہنچ چکا تھا۔ معلوم ہوا کہ اس کی گرل فرینڈ ایک یونانی نسل کی امریکن ہے اور بینک میں ملازم ہے ۔مجھے اس سے سخت جلن اور حسد محسوس ہو رہا تھا۔ اس زمانے میں انٹرنیٹ نہیں تھا پاکستان سے امریکہ ایک خط کو آتے جاتے دس سے بارہ دن لگ جاتے تھے یا پھر فون پر بات ہو جاتی تھی۔

سرمد کو میری اداسی کا احساس تھا بلکہ وہ خود بھی اداس تھے اس لیے انہوں نے چند دن کی چھٹی لی اور ہم لوگ نیاگرا فالز دیکھنے چلے گئے۔ نیاگرا فالز کو دیکھنے کا مجھے بے حد ارمان تھا۔ وہاں ہم تین دن رہے اور ایک ایک لمحے سے لطف اندوز ہوتے رہے لیکن بس ہر لمحے پھر یہی سوچ آتی تھی کہ اب یہ ہو رہا ہو گا ،یوں ہو رہا ہو گا ،یہ دوریاں اور مسافتیں بھی کتنی جان لیوا ہوتی ہیں۔

وہ لوگ شادی میں شریک ہو کر واپس آئے تو اجے نے تو مجھ سے کچھ نہ کہا اور نہ ہی فون کیا۔ اس کی گرل فرینڈ نینسی میں اتنی انسانیت تھی کہ اس نے مجھے فون کیا اور بہت دیر تک مجھے شادی کی تفصیلات اور پاکستان میں اپنے قیام کا بتاتی رہی اور یہ کہ مما ، پاپا اور بھائیوں نے اسے ہمارے لیے تخائف دیے تھے جو وہ پارسل کر رہی ہے اس نے کہا” میں کوریئر سے بھیج رہی ہوں تمہیں ایک دو روز میں مل جائیں گے، شادی کی تصویروں کا البم بھی ہے اور ویڈیو بھی ہے۔ ”

پارسل ملا تو ویڈیو میں نے کم از کم سو مرتبہ دیکھی ہو گی۔ یہ ویڈیو نہ ہوتا تو مجھے تو پتا ہی نہ چلتا کہ شادی میں کیا ہوا تھا یوں لگ رہا تھا میں خود شریک ہوئی ہوں ایک ایک لمحہ ازبر ہو گیا بنانے والے نے بڑی مہارت سے ایک ایک اہم لمحے کو محفوظ کیا تھا ۔ پہلی مرتبہ تو میں نے روتے ہوئے دیکھی لیکن پھر نارمل ہوتی گئی۔ نینسی کا میں نے بے حد شکریہ ادا کیا اور یوں اس سے میرا رابطہ قائم ہو گیا۔ پھر یہ ہوا کہ ہفتے کے ہفتے اس سے ضرور بات چیت ہو جاتی تھی ، کچھ عرصے کے بعد بات چیت کے دوران میں نے اس سے اجے کی خیریت پوچھی تو اس نے بتایا کہ وہ لوگ ایک دوسرے سے الگ ہو گئے ہیں میں شادی کرکے گھر بسانا چاہتی تھی لیکن وہ سنجیدہ نہیں ہے اور پھر کچھ عرصے بعد اس نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے بینک میں ہی ایک ساتھی سے ڈیٹنگ کر رہی ہے اور کچھ عرصے میں شادی کر لیں گے اور واقعی انہوں نے کر لی۔

اجے کو پتا نہیں کیسے معلوم ہوا کہ میرا اس سے رابطہ ہے تو اس نے بھائی سے کہا کہ گلو سے کہو کہ نینسی سے رابطہ نہ رکھے میرا اب اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

“بھائی! میں اس سے اجے کے واسطے سے تو تعلق نہیں رکھتی تھی اس سے تو میری دوستی سی ہو گئی ہے ۔”

“گلو! ہم اس کو اس کے ذریعے سے جانتے ہیں تو بہتر ہو گا۔” انہوں نے زور دےکر کہا۔ وہ چاہتا تو یہ سب کچھ مجھے خود بھی کہ سکتا تھا لیکن خود کوئی واسطہ تعلق نہ رکھ کر بھی دھونس جما رہا تھا۔ نینسی نے مجھے بتایا تھا کہ انہوں نے کافی قالین خریدے تھے اور ایئرپورٹ پر کافی کسٹم ڈیوٹی دینی پڑی۔ اس کے علاوہ کٹ ورک کے کام کا فرنیچر بھی آرڈر کیا ہوا ہے۔

اور پھر یہی ہوا کہ اس نے مجھے دو تین مسیجز چھوڑے جب میں نے جواب نہ دیا تو خاموش ہو گئی۔

مجھے نہ معلوم کیوں لگا کہ اجے کچھ ہم لوگوں کے متعلق کافی possessive ہے   کوئی نفسیاتی مریض ہے یا پھر اندر سے وہی ٹھیٹ ہندوستانی ہے ۔

احمد بھائی کی شادی کے کچھ عرصے کے بعد سیاچن میں پوسٹنگ ہو گئی۔ سیاچن گلیشیئر جو کہ بلندوبالا پہاڑوں کے درمیان ہندوستان اور پاکستان میں ایک غیرآباد علاقہ ہے ( no man’s land) اس پر انڈیا نے چڑھائی کردی اور پاکستان کی فوج اپنا دفاع کرنے پہنچ گئی۔ 18 سے 20 ہزار فٹ کی بلندی پر برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں پر فوجیوں کا رہنا ایک بہت بڑا امتحان تھا۔ احمد بھائی وہاں ڈاکٹر کی حیثیت سے تھے۔ ایک ، ایک مہینے کے بعد ان کا خط ملتا تھا۔ ایروگرام ، جس میں انہوں نے مختصراً اپنے حالات لکھے ہوتے تھے۔ ہر وقت موٹے موٹے insulated suit پہنے تھے۔ بتاتے تھے کہ ہر وقت اندرکیروسین آئیل کا اسٹو جلاتے ہیں جس سے ٹینٹ کے اندر اتنا کاربن بھر جاتا تھا کہ تھوک تک کالا ہو جاتا ایک ہیلی کاپٹر آکر ان کو کھانے کی سپلائی کرتا تھا اور ہر چیز جمی ہوئیFrozen ہوتی تھی۔ برف کو پگھلا کر پانی بناتے تھے ۔جمے ہوئے انڈوں کو گرم پانی میں پگھلاتے تھے۔ اس پر سردی سے منجمد ہو جانے کا خطرہ ہر وقت تھا۔ زیادہ تر حادثات سردی سے اعضاء کے منجمد ہونے کے تھے۔ جسے Frost Bite کہتے ہیں۔ بھائی لکھتے تھے کہ اکثر اعضاء جیسے انگلیاں وغیرہ تو ایسے ٹوٹ جاتی ہیں جیسے سوکھی لکڑی ٹوٹتی ہے۔

رابعہ بھابھی اسلام آباد میں بے چینی سے ان کے آنے کا انتظار کر رہی ہیں اور جب چھٹی پر آنے کا ہوا تو اجے نے پہلے ہی پروگرام بنایا ہوا تھا۔

پاپا کی اوپن ہارٹ سرجری تھی اب ہمارا کارڈ بن چکا تھا تو ہم لوگ بھی گئے وہاں جا کر معلوم ہوا کہ اجے پہلے سے موجود ہے۔ خالائیں اور دیگر رشتہ دار طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے۔

“مجھے تو پورا یقین ہے کہ یہ ہیروئن کا سمگلر ہے”پروین خالہ دور کی کوڑی لائیں ۔

“نہیں امریکن اور انڈین جاسوس ہے ۔” نسرین خالہ نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔

پاپا کو ہوش آیا تو ہم سب پاس کھڑے تھے ۔احمد بھائی اس وقت اجے کے ساتھ کہیں چلے گئے تھے۔ پاپا نے نحیف آواز میں کہا ” احمد ؟”

” پاپا! وہ ابھی ذرا باہر گئے ہیں ”

“اچھا وہ ٹافیوں(چاکلیٹوں) والے کے ساتھ” ان کی آواز میں تھوڑا شکوہ تھا۔

میں ان کا ہاتھ پکڑے خاموش تھی ۔شاید ڈاکٹر ہونے کے ناطے وہ ان کو اپنے پاس دیکھنا چاہتے تھے ورنہ ہم سب تو تھے، مما کہنے لگیں، “جو بھی نئی چیز مارکیٹ میں آتی ہے خرید کر لے آتا ہے اس کے تحفے تحائف سب کا منہ بند کر دیتے ہیں۔ ’’

“مما! یہ آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں؟ کیا انسان کی پرکھ تحفوں سے ہوتی ہے؟ آدمی اچھا ہے یا برا یہ دیکھنا چاہیے‘‘ میں نے مما کی تصحیح کی۔

’’اتنی مرتبہ آیا اور گیا ہے ہم نے ابھی تک ایسی کوئی برائی نہیں دیکھی‘‘ میں بھی اس کے تذکرے سے بیزار آ گئی تھی اس لیے بات ختم کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔ وقت پر لگا کر اڑتا رہا ، میں تین بچوں کی ماں بن گئی .اتنی مصروفیت رہتی تھی کہ اپنا بھی ہوش نہ رہتا پھر امریکہ میں سارے کام خود ہی سنبھالنے پڑتے تھے۔

اب ہم کیلیفورنیا لاس اینجلس چلے گئے تھے۔ احمد بھائی ماشاء اللہ چار بچوں کے باپ اظہر بھائی کی تین بیٹیاں اور آپاکے چار بچے تھے وہ تو خیر سے بڑے تھے۔

اجے کے پاکستان سال میں کم از کم دو چکر لگتے تھے اگر بھائی کنٹونمنٹ میں رہتے یا کہیں اور پوسٹ ہوتے تو خاص طور پر اس کے لیے چھٹی لے کر آتے وہ زیادہ سے زیادہ ہفتہ دو ہی گزارتا تھا۔ میرا بچوں کے ساتھ بمشکل دو ، تین سال میں ایک چکر لگتا تھا۔ مما ، پاپا بھی دنیا سے رخصت ہو چکے تھے تو میرا جانا اور کم ہو گیا ، اجے کے تحفے تخائف کا سلسلہ اب الیکٹرونکس اور ڈیجیٹل سامان پر آ گیا تھا۔ بچوں کے لیے پلے اسٹیشن PS Two `PS one game boy , X Box ` Wii اور  ڈیجیٹل کیمرے اور موبائل فون پر آ گیا تھا پھر اپنے reward miles وہ بھائیوں کو ٹرپ کے لیے تحفہ دے دیتا تھا۔

احمد بھائی فیملی کے ساتھ امریکہ ، کینیڈا آئے تو اس کے دیے ہوئے Miles کی بدولت ، پھر ترکی ، انگلیڈ اور یورپ کا دورہ کیا اظہر بھائی کو بھی اسے ٹکٹ دیا اور وہ بھی امریکہ کا چکر لگا گئے۔ اسلام آباد میں وہ ہمیشہ ہوٹل میں رہتا تھا ، بلکہ ہر جگہ ہوٹل میں رہتا تھا۔ اسلام آباد کا ہالی ڈے ان اب میریٹ Marriottبن چکا تھا اور وہ زیادہ تر وہیں رہتا تھا۔

اس کے گرانقدر تحائف نے ہمارے لیے مشکلات پیدا کر دیں ، ہمارے چھوٹے موٹے تحفے اب کسی کو جچتے نہ تھے۔ میرے ہاں پہلی مرتبہ وہ اس وقت آیا جب احمد بھائی آئے تھے اور کھانا وغیرہ کھایا۔ میں نے ہرگز اس سے کوئی گلہ نہیں کیا اور سرمد کو بھی سختی سے منع کر دیا تھا۔ مزے کی بات یہ کہ وہ ہمارے لیے کوئی گفٹ نہ لایا۔ احمد بھائی فوج کی طرف سے سے تین سال کے لیے ملائیشیا چلے گئے تو اس کا رخ بھی اسی طرف ہو گیا۔ مجھے تو یہ دوستی سمجھ میں نہ آئی تھی۔ رابعہ بھابھی اور بچے سب اجے سے بے حد خوش تھے بچوں کا تو وہ بہت ہی چیہتا اجے انکل تھا۔ ہر مرتبہ آنے سے پہلے وہ ان کی  Wish Listپوچھ لیتا تھا اور ان کی من پسند چیزیں آ جاتی تھیں۔

اس کے اپنے ماں باپ بھی یکے بعد دیگرے دنیا سے رخصت ہوئے۔ بھائی نے ہم سب کو اس کا ای میل ایڈریس بھیجا اور ہم نے اس سے تعزیت کی۔اب تو یہ بھی سننے میں آ رہا تھا کہ اس نے اپنی ( will) وصیت بھی احمد بھائی اور بچوں کے نام کر دی تھی۔ ملائشیا سے آنے کے بعد بھائی کرنل ہو گئے اور راولپنڈی میں ہی پوسٹڈ تھے۔

کی اس سے کچھ عرصہ پہلے اجے نے یہ کوشش بھی کہیں کہ بھائی فوج چھوڑ کر اجے کے  ساتھ بزنس کر لیںؐ– MRIکی مشینیں ان دنوں نئی نئی آئی تھیں لیکن یہ منصوبہ پورا نہ ہو سکا اور شاید اچھا ہی ہوا۔ پاکستان میں رہنے کے لیے یا تو اعلیٰ فوجی افسر یا وی آئی پی  ہونا ضرور ہے۔

پاکستان کے حالات مخدوش سے مخدوش تر ہوتے جا رہے تھے۔11 ستمبر 2001 ء کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستان کو بری طرح لپیٹ میں لے لیا تھا۔ عراق اور افغانستان کے بعد پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں آ چکا تھا۔ اسلام آباد میں لال مسجد کے سانحے کے بعد پاکستان کی گلیوں اور بازاروں میں پولیس اور فوج کی چوکیوں

پر خودکش دھماکے آئے دن کا معمول بن چکے تھے۔ اپنے ہی اپنوں کے قاتل اور دشمن تھے اور ہمارے اصلی دشمن اس صورتحال سے بے حد خوش اور مطمئن تھے۔ ان حالات میں جبکہ امریکی شہریوں کو پاکستان کے سفر سے متنبہ اور خبردار کیا جا رہا تھا اجے کے پاکستان کے دورے اسی شدومد سے لگے رہے تھے۔

اب تو وہاں پورا بکس بھر کے اپنے پاکستان کے کپڑے اور چپلیاں رکھ آتا تھا اور پھر استعمال کرتا تھا۔ اظہر بھائی سے معلوم ہوا کہ فارن آفس میں اپنے ایک دوست کی بدولت وہ اس کے لیے پاکستان شناختی کارڈ بنوا رہے ہیں اور اس کو پاکستانی شہری کی حیثیت سے دکھا دیں گے۔ یہ سارا گورکھ دھندا میری سمجھ سے بالاتر تھا۔ اور میرے ذہن میں بہت سے سوالات اٹھتے رہتے تھے۔

رات کو میں نے بھائی کے ہاں فون کیا تو رابعہ بھابھی ملیں کہنے لگیں ’’گلو وہ اجے آیا ہوا ہے تو تمہیں پتا ہے احمد اس کے ساتھ مصروف ہیں یا تو تم ان کے موبائل پر کر دو یا پھر وہ تمہیں خود کر لیں گے۔ ہاں بس خیریت پوچھنے کے لیے کیا تھا۔ “ہم دونوں کچھ دیر باتیں کرتے رہے۔ بچوں کی پراگریس اور دیگر موضوعات ، صبح بچوں کو اس کول چھوڑنے کے بعد آئی تو ناشتہ کرتے ہوئے میں نے  سی این این لگایا۔ بریکنگ نیوز تھی ۔ اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں بم دھماکہ ، دھماکہ اتنا زور دار تھا کہ پورا میریٹ تباہ ہو گیا۔ میرے ہاتھ سے چائے کی پیالی چھوٹ کر گر گئی۔ اسلام آباد فون کر رہی ہوں تو لائن ہی نہیں مل رہی۔

بڑی مشکل سے اظہر بھائی کا نمبر ملا ، رعنا بھابھی بہت ہسٹریک ہو رہی تھیں ’’گلو! وہ چلا گیا ، فدا ہو گیا”

“بھابھی کون ؟”

” اجے اور کون ؟ آدھے گھنٹے پہلے یہ لوگ اسے ہوٹل میں چھوڑ کر آئے تھے اور اس کے کمرے کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔‘‘

میرے اندر غم اور دکھ کی ایک شدید لہر اٹھ آئی یوں لگا کہ میری ایک بہت ہی عزیز ہستی تھی جو اس سانحے میں چلی گئی۔ غم و اندوہ کے مارے میں بالکل خاموش ہو گئی۔ اسے بھائی سے کس قسم کی محبت تھی اور پھر پاکستان کے لیے اس کے کیا جذبات تھے ؟ ایک سوالیہ نشان جو ہمیشہ اس کے لیے میرے ذہن میں رہا۔

اور آج اسی سرزمین پر اس نے اپنی جان قربان کر دی۔

خبروں میں تفصیلات آ رہی تھیں ، مرنے والوں میں پانچ امریکی شہری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اجے کمار ان میں سے ایک تھا

اپنا تبصرہ لکھیں