غزہ کی پٹی میں خودکشی کا بڑھتا رجحان

شہباز رشید بہورو

غزہ کی پٹی میں اسرائیلی ظلم و بربریت سے تنگ آکر لوگوں میں خودکشی کا رجحان زیادہ بڑھ رہا ہے۔غزہ مبنی المیزان سنٹر فار ہیومن رائٹس کی رپورٹ کے مطابق 16لوگوں نے سال 2020کے پہلے نصف میں خودکشی کی اور تقریباً سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے خودکشی کی کوشش کی۔انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق غزہ میں معاشی مجبوریوں، اسرائیلی ظلم یا کسی اور عنصر کے سبب بڑھتا خودکشی کا رجحان تشویشناک امر ہے۔بین الاقوامی ادارے سے وابسطہ ایک کارکن میکسول گیلارڈ نے 2012 میں خبردار کیا تھا کہ 2020 میں غزہ اسرائیل کے غیرقانونی محاصرے، بگڑتی معیشت ،جنگ اور زوزمرہ کی تصادم آرائیوں کے سبب ناقابلِ رہائش جگہ ہوگی ۔گیلارڈ کا اندازہ صد فی صد درست ظاہر ہورہا ہے۔غزہ کی عوام دہشت کے ماحول میں رہ کر غیر متوقع سنگین واقعات کے ظہور کے خدشے کے سبب زندگی کے سکون سے محروم ہو چکے ہیں ۔وہ رات کے اندھیرے سے اتنا ہی خوف کھاتے ہیں جتنا کہ موت سے۔رات کا اندھیرا کئ لوگوں کے لئے موت کا قاصد بن کر آتا ہے۔غزہ میں جمال واعدی نامی خودکشی کرنے والے شخص کی بیوی نے میڈل ایسٹ آئی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
“ہماری شادی نوے کے اوئل میں ہوئی تھی لیکن شادی کے فوراً بعد میرے شوہر کو حراست میں لیا گیا، میں نے سوچا کہ چند دنوں کے بعد اس کو رہا کر دیا جائے گا ۔لیکن یہ حراست برابر سات سال کے عرصے پر محیط رہی۔ دوران ِ حراست واعدی کو روزانہ ذدو کوب کیا جاتا اور اسے کئی کئی دنوں کے لئے تنہا رکھا جاتا ۔ملاقات کے دوران میں اسے میں عجیب ذہنی اور رویے کی تبدیلیاں نوٹس کرتی اور میں اس کی آنکھوں کو دیکھ کر سوچتی کیا یہ وہی ہے جس سے میں نے چند مہینہ پہلے شادی کی تھی۔1997میں رہائی کے بعد اس کا ذہنی علاج کرنے کے لئے ہم نے سالہاسال ہسپتالوں کا چکر لگایا ۔وہ ہمیشہ زور زور سے چلا کر کہتا اگر میں نہیں مرتا تو وہ مجھے ماریں گے اور آخرکار ہماری تمام کاوشیں ناکام ہوئی اور اس نے خود کشی کر لی۔” جمال کے قریبی رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ جمال نے خودکشی صرف جیل میں دوبارہ جانے کے خوف سے کی ۔غزہ میں جمال کی طرح ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے خودکشی کی یا کوشش کی۔گزشتہ مہینے میں 30سالہ احمد الملاہی نے پچاس زہریلی گولیاں کھا کر خود کو مارنے کی کوشش کی تھی اور اسی طرح سے ابراھیم یاسین نامی شخص نے خود کو آگ لگا کر جلادیا۔
موئسسۃ الضمیر لرعایۃ الاسیر وحقوق الانسان نامی تنظیم کے اعدادو شمار کے مطابق فلسطین میں سیاسی قیدیوں کی تعداد 4700،ایمینسٹریٹیو شیرانی 365،چائلڈ پریزنرس 160ہے۔4700سیاسی پریزنرس میں 265صرف غزہ کی پٹی سے تعلق رکھتے ہیں ۔
یوروپی یونین کے مطابق تقریباً غزہ کے 80فی صدلوگ زنگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بیرونی مدد پرانحصار کرتے ہیں ۔غزہ میں 2007سے جاری محاصرے اور کورونا وائرس کی وبا نے معاشی بحران کو مزید ابتر کیا ہے۔فلسطینین سنٹرل بیورو آف سٹیٹسکس کے مطابق کورونا کی وجہ سے غزہ میں 26500لوگ بے روزگار ہوئے ہیں اور بے روزگاری کی شرح 46فی صد تک پہنچ چکی ہے۔بے روزگاری اور سخت غربت کی وجہ سے 37سالہ ہیثم عرفات جو کہ چار بچوں کاباپ ہے نے خود کو آگ لگانے کی کوشش کی تھی لیکن کسی راہ چلتے نے بچا لیا۔اس طرح سے بے شمار افراد ہے جن کی خودکشی کے واقعات لرزہ خیز ہیں ۔
فلسطینیوں میں اسے کے علاوہ عرب دنیا کی مکمل سرد مہری اور ان کا اسرائیل کے ساتھ بڑھتا تعاون ایک احساسِ بیگانگی پیدا کر چکا ہے۔انھیں اپنی جاری نسل کشی کے تناظر میں عرب دنیا کی مسلسل بے غیرتی بالکل مایوس کر چکی ہے جس کی وجہ سے خودکشی کرنے کارجحان دن بدن بڑھ رہا ہے۔فلسطینیوں کو انٹرنیشنل کمیونٹی سے بھی اب کوئی امید نہیں ہے۔کیونکہ بین الاقوامی ادارہ ریزولیشن نمر 3379بھول چکا ہے جس کے تحت صہیونیت پر نسل پرستی کا جرم عائد ہوتا ہے۔بلکہ اب تو اس کے برخلاف بین الاقوامی رویہ یہ سامنے آرہا ہے کہ فلسطین میں عدم تشدد مظاہروں کو بھی اینٹی سیمیٹزم قرار دیا جائے ۔عالم انسانیت کی یہ مسلسل مجرمانہ خاموشی دنیا کے ناجائز مقبوضہ زمینوں پر قتل و غارت، لوٹ کھسوٹ، عصمت دری اور مبینہ گمشدگی جیسے سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو حوصلہ افزائی فراہم کر رہی ہے۔مقبوضہ زمینوں کو انسانیت کے دشمن درندے چنگیز خان کی اولاد مسلسل ضم کرنے میں لگے ہیں ۔درندہ صفت اسرائیلی اور ان کے ہم نواؤں کی یہ تحریک انضمام دراصل پوری دنیا کو ایک سخت سانحہ کے قریب کرنے کا فعل انجام دے رہے ہیں ۔خباثت اور نحوست سے بھرے نظریات کی عملی آبیاری کے لئے یہ لٹیرے شب و روز اپنے شیطانی کھیل کو کھیلنے میں تن من دھن سے مشغول ہے۔یہ اس زمین کے لئے تقدیرِ مبرم ہے کہ اس کے چپے چپے سے پہ شیطانی ذریت اپنی موت آپ مرے گی۔
رابطہ ۔shabazrashid.470@gmail .com

اپنا تبصرہ لکھیں