عورتوں کی طرح یا مردوں کی طرح

شازیہ عند لیب
تم کیا عورتوں کی طرح لڑتے رہتے ہو۔۔۔۔۔۔
اکثر مرد اپنے جھگڑالو دوستوں کو یہ کہتے ہیں کہ تم کیا عورتوں کی طرح لڑتے رہتے ہو۔حالانکہ لڑائی خالصتاً مردانہ خصلت ہے۔آپ انسانی تاریخ کا مطالعہ کر لیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ آج تک جتنی جنگیں لڑی گئیں وہ سب مردوں نے ہی لڑیں۔ان تمام جنگوں کے سپہ سالار اور جنگجو بھی مرد ہی تھے۔کبھی کسی عورت کو کسی جنگ کو جیتنے کا تمغہ نہیں دیا گیا۔ پھر اگر حیٰوانی اور جنگلی تاریخ کامطالعہ کیا جائے تو یہاں بھی صف اول کے جنگجوؤں میں نر کا صیغہ ہی نظر آئے گا جیسے لڑاکا اصیل مرغ، لڑاکا جنگلی بھینسا اور جنگلی شیر وغیرہ۔آپ نے کبھی اصیل مرغیوں کی لڑائی کا مقابلہ نہیں دیکھا ہو گا اور نہ ہی کبھی بل فائیٹنگ میں کسی بھینس کو حصہ لیتے دیکھا ہو گا۔
اسی طرح آپ جنگی اصلاحات کا جائزہ لیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ یہاں بھی تمام جنگی ہتھیاروں کے نام مردانہ صنف کے ہی ہوتے ہیں۔جیسے جنگی طیارہ،بیلاسٹک میزائل اور جنگی بحری بیڑہ وغیرہ۔
ان تمام مثالوں سے یہ تو واضع ہو گیا کہ لڑنا جھگڑنا دراصل خالصتاً ایک مردانہ سرگرمی اور مشغلہ ہے۔یہ جو خواتین کرتی ہیں وہ تو صرف نوک جھونک ہوتی ہے اسے لڑائی جھگڑے کا نام دینا کسی طرح بھی دانشمندی نہیں۔جو شخص عورتوں کی معصومانہ نوک جھونک یا محض معلوماتی بحث کو لڑائی جھگڑے کا نام دیتا ہے وہ شخص ضرور مرد پرستی اور خود پسندی کا شکار ہے۔ نوک جھونک اور لڑائی جھگڑے میں وہی فرق ہے جو مودی سرکار اور چینی فوج میں ہے۔مودی اور اسکے حواریوں کی زبان درازیوں اور شیخیوں کا انجام دنیا نے دیکھ لیا کہ کسطرح اس ہمسایہ ملک کے حکمران نے معصوم اور بے قصور مسلمانوں کو جھوٹے الزامات کا نشانہ بنایا۔کشمیر پہ غاصبانہ قبضہ کیا اور پھر اپنی فوجوں کو سرحد پہ لا کھڑا کیا اس شرط پہ کہ اصلحہ استعمال نہیں کیا جائے گا۔گولی نہیں چلے گی۔مگر ہشیار اور زیرک چینیوں نے یہ جان لیا اور انڈین فوجیوں کو بھی تاڑ لیا کہ گولی نہیں چل سکتی پر ہاتھ تو چل سکتے ہیں سو انہوں نے وہ چلا کے اس عالمی طاقت کے علمبردار کو رسوا کر دیا۔ دنیا نے دیکھا کہ کمزور نظر آنے والے ملک پاکستان کو اللہ تبارک نے کس طرح ایک دانشمند اور طاقتور ساتھی کی مدد عطا کی۔اسی طرح عورتوں کو کمزور سمجھنے والے مغرور مرد بھی اللہ سے ڈریں کہ کہیں انہیں بھی چینی مدد مل گئی توپھر دیکھنا۔جھوٹے الزامات کا انجام۔۔۔
رہ گئی بات گھریلو لڑائی جھگڑوں کی آج تک کتنی پاکستانی عورتیں مردوں کی پٹائی کرنے کے الزام میں جیلوں کی ہوا کھا رہی ہیں۔ہیں کوئی اعدادو شمار۔اور جو واقعات ہوئے بھی ہیں ان میں بھی مردوں کا ہی ہاتھ تھا۔عورتوں کا تو نام آ گیا تھا۔گھروں میں جو جھگڑے ہوتے ہیں ساس بہو کے اس میں بھی قصور مرد کا ہے کہ وہ شادی کے پہلے دن سے ہی ماں اور بیوی کے حقوق کی تقسیم منصفانہ نہیں کرتا اگر وہ اپنی بیوی کے ساتھ ساتھ ماں بہنوں کو بھی انکے حصے کا پیار عزت اور وقت دے تو یہ بات یقینی ہے کہ یہ جھگڑے کبھی نہ ہوں۔اب اس میں قصور اسکی تربیت کا آتا ہے تو ایسے گھرانوں میں جہاں باپ اپنی بیوی کو ہمیشہ کمتر سمجتا ہو وہاں حقوق پہچاننے والے مرد نہیں جابر او دھونس جمانے والے مرد ہی پیدا ہوتے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ گھر کی عورتوں کو کمتر سمجھنے والے اکثر مرد گھر سے باہر الٹرا ماڈرن عورتوں کے ہاتھوں نہ صرف بیوقوف بنتے ہیں بلکہ وہ انہیں الو بھی بنا لیتی ہیں۔یقین نہ آئے تو کوئی بھی ڈرامہ یا فلم دیکھ لیں۔لیکن اس کے باوجود وہ خود کو عقلمند ہی سمجھتے ہیں
عورتیں مردوں سے کسی نہ کسی معاملے میں کمزور ضرور ہوتی ہیں مگر کمتر نہیں۔کیونکہ بعض معاملات میں مرد بھی کمزور ہوتے ہیں۔اب ساری باتیں بتائی نہیں جا سکتیں۔بالخصوص ایسی بات جس سے امن عامہ کو خطرہ درپیش ہو۔جو ذیادہ کمزور ہوتا ہے اسکی زبان ذیادہ چلتی ہے اور طاقتور کا حکم اور ہاتھ چلتا ہے۔جبکہ دانشمند چلتے ہاتھوں اور زبانوں کا مقابلہ عقل سے کرتے ہیں جیسے چینی فوج نے انڈین فوج کا کیا تو پھر کیا خیال ہے آپ کا؟؟

اپنا تبصرہ لکھیں