علامہ اقبال کو سر کا خطاب کیسے ملا

Special report: The enduring vision of Iqbal 1877-1938 - Pakistan ...

یکم جنوری ١٩٢٣ کو علامہ اقبال کو “سر ” کا خطاب ملا تو ان کے مداحین اور دوست احباب چونک اٹھے، کہ یا الہی یہ کیا ماجرا ہےاس کی وجہ یہ تھی کہ حکومت برطانیہ عام طور پر وفاداری کے صلےمیں مخصوص عزازات اور خطا بات دیا کرتی تھی اور علامہ اقبالکے بارے میں دنیا جانتی تھی کہ وہ ایک درویش صفت انسان ہیں . دوسرے اس دور میں بر صغیر کے طولو عرض میں حکومت کے خلاف تحریک چل رہی تھی جس میں حکومت کی طرف سے دی جانے والی تمام مراعاتاور خطابات رد کر دینے جاتے تھے ان حالات کے پیش نظر لوگ تصور بھی نہی کر سکتے تھے کہ علامہ خطاب یافتہ ہو سکتے ہے اس بات پر بہت بحث ہوئی اور کئی احباب نے علامہ کو خطوط لکھے. اس زمزنے کا اہم ترین اخبار “زمیندار ” تھا . جس کے مدیر مولانا ظفر علی خان تھے .لکن ان کو حکومت وقت نے جیل کی سلاخوں میں بند کر رکھا تھا . ان کی جگہ مولانا عبدلمجید سالک ادارت فرماتے تھے . انھوں نے علامہ کی خطاب یافتگی پر کچھ طنزیہ اشعارلکھے اپنے مزاحیہ کالم “افکار و حواد ث ” میں بھی اس کا تذکرہ کیا.
مولانا غلام بھیگ نیرنگ علامہ کو خطاب ملنے پر لکھتے ہیں ” میں اس اللہ کے قلندر کوخوب جانتا ہوں .مگر یہ بھی جانتا تھا کہ شیطان اپنے داؤ پیچ سب پر چلاتا ہے . اس لئے ضروری سمجھا کہ مبارک باد کے ساتھ ان کو یہ بھی یاد دلاؤں کہ اسلامی دنیا ان سے کیا کیا توقعات رکھتی ہے “. ان کے خط کے جواب میں علامہ اقبال نے لکھا” میں آپ کو اس عزاز کی خود اطلاع دیتا . مگر جس دنیا کے میں اور آپ رہنے والے ہیں ، اس دنیا میں اس قسم کے وقعات احساسات سے فرو تر ہیں سینکڑوں خطوط موصول ہوے ہیں اور ہو رہے ہیں . اور مجھے تعجب ہو رہا ہے کہ لوگ ان چیزوں کو کیوں گراں قدر جانتے ہیں ، باقی رہا وو خطرہ ، جس کا آپ کے دل کو احساس ہوا ہے . سو قسم ہے اس بزرگ و برتر کی ، جس کے قبضے میں میری جان اور آبرو ہے اور قسم ہے اس خداۓ ذولجلال کی جس کی وجہ سے مجھ کو ا یمان نصیب ھوا ہے اور مسلمان کہلاتا ہوں . دنیا کی کوئی طاقت مجھے حق کہنے سے باز نہیں رکھ سکتی انشاللہ اقبال کی زندگی مومنانہ نہیں لیکن اقبال کا دل مومن ہے “.
بعد میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ سر کا خطاب وفاداری کا صلہ نہیں تھا بلکہ اقبال کے علمی کارناموں کےاعتراف میں ان کو سر کا خطاب دیا گیا .واقعے کا تفصیلی پس منظر مولانا عبدلمجید سالک ، فقیر سید وحید الدین اور کسی حد تکمرزا جلال الدین نے پیش کیا ہے خطاب ملنے کی کہانی کچھ اسطرح سے ہے پنجاب ہایی کورٹ کے چیف جسٹس سر شا ری لال نے علامہ کو بلا کر کہا کہ حکومت نے مجھ سے خطابا ت کے لئے سفارشات طلب کی ہیں . اور میں آپ کے لئے ” خان صاحب” کا خطاب تجویز کر رہا ہوں . یہ چونکہ ادنی ترین خطاب تھا علامہ کو اس خطاب میں اپنی توہین کا پہلو نظر آیا اور علامہ نے بگڑ کر کہا ” میں کسی خطاب کا خوا ہاں نہیں. اس لئے آپ سفارش کی زحمت نہ کریں”. سر شا ری لال نے کہا ” اتنی جلدی فیصلہ نہ کریں ذرا سوچ لیں ” علامہ نے کہا ” میں سوچ چکا ہوں ، مجھے کسی خطاب کی کوئی ضرورت نہیں ہے”.
اس زمانے میں سر ایڈورڈ مکلیگن پنجاب کے گورنر تھے .گورنر پنجاب سے علامہ اقبال کے ایک دوست نواب ذولفقار علی خان کے گہرے روابط تھے . ایک دن نواب صاحب نے گورنر سے کہا “کہ مشہور بنگالی شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کو سر کا خطاب مل چکا ہے . بری عجیب بات ہے کہ اقبال اس قدر دانی سے محروم ہیں . حالانکہ وہ بہت بڑے شاعر اور مسلمونوں کے محبوب رہنما بھی ہیں” اس پر گورنر نے کہا ” اچھا نم ان کو خان بہادر کا خطاب دلائیں گے” نواب صاحب نے کہا ” یہ خطاب تو ان کی شایان شان نہیں ہے ” پھر گورنر بولے “کہ ان کو شمس العلما کا خطاب کیسا رہے گا ؟”نواب صاحب نے کہا یہ بھی نہ مناسب ہے . گویا اس طرح کہ دیا کہ خطاب ملے تو سر کا ملے جوسب سے اونچا خطاب تھا.
ان دنوں برطانیہ کا ایک مشھور اخبار نویس ، جو ادیب بھی تھا دنیاۓ اسلام کی سیاحت کے بعد افغانستان کی طرف سے ہندوستان میں داخل ہوا اور گورنر پنجاب کا مہمان ہوا . اس نے ایک تو “اسرار خودی ” کا وو انگریزی ترجمہ پڑھ رکھا تھا . جو پروفیسر نکلسن نے کیا تھا دوسرا اسلامی دنیا میں اقبال کا چرچہ سن رکھا تھا . تیسرا وہ اپنی ایک کتاب کے بارے میں علامہ اقبال سے راے لینا چاہتا تھا . اس نے گورنر سے درخواست کی کہ اقبال کو چاے پر مد عو کرے.علامہ کی اخبار نویس کے ساتھ چاے کی پیالی پر بہت علمی گفتگو ہوئی. جب علامہ رخصت ہونے لگے تو گورنر نے کہا ” مجھے بہت افسوس ہے کہ حکومت نے آپ کی ادبی خدمات کا اعتراف کرنے میں سستی برتی ہے .میں اس وقت خطابات کی سفارش کر رہا ہوں اور میری خواہش ہے کہ آپ کے لئے “سر ” کے خطاب کی سفارش کی جاۓ . علامہ نے انکار کیا اور کہا کہ میں خطابات و اعزازات کے مسائل میں نہی پڑنا چاہتا.
اور یوں اسلام معاشی امتیازات کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا . اس کے بعد گورنر نے بتایا کہ “شمس العلما” کے خطابات کے لئے اس سال پنجاب سے کس شخصیت کا انتخاب کیا جاۓ. میں بعض مسلمان معزز ین سے اس سلسلے میں تجویز طلب کی ہیں اگر آپ کے ذہن میں کوئی نام ہے تو بتا دیں . علامہ نے کہا میں صرف اس شرط پر نام تجویز کروں گا کہ اس کے بعد کسی اور نام پر غور نہ کیا جاۓ . گورنر نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا اچھا آپ بتایں . علامہ نے اپنے استاد مولوی میر حسن کا نام تجویز کیا . گورنر اس نام سے بے خبر تھے . بولے انہوں نے کون کون سی کتابیں لکھی ہیں . علامہ نے کہا انہوں نے کوئی کتاب نہیں لکھی میں ان کی زندہ کتاب ، آپ کے سامنے ہوں .وہ میرے استاد محترم ہیں . علامہ نے گورنر کو یہ بھی بتا دیا کہ وہ درویش قسم کے انسان ہیں سرکار دربار میں حاضری ان کے بس کا روگ نہیں ہے . اس لئے الان خطب کے بعد ان کو لاہور نہ بلایۓ گا . جب خطب ک اعلان ہوا تو گورنر نے خطاب کی سند مولوی میر حسن کے فرزند سید علی تقی شاہ کے سپرد کر دی جو گورنمنٹ ہاوس میں ڈاکٹر کے عہدے پر فائز تھے . جب علامہ کو سر کا خطاب ملا تو علامہ نے کچھ شعر لکھے تھے
لو مدرسہ علم ہوا قصر حکومت
افسوس کہ سر ہو گئے اقبال
پہلے تو سر ملت بیضا کے وہ تھے تاج
اب اور سونو تاج کے سر ہو گئے اقبال
پہلے تو مسلمانوں کے سر ہٹے تھے اکثر
تنگ آ کے اب انگریز کے سر ہو گئے اقبال
کہتا تھا کل ٹھنڈی سرک پر کوئی گستاخ
سرکار کی دہلیز پہ سر ہو گئے اقبال
سر ہو گیا ترکوں کی شجاعت سے سمرنا
سرکار کی تدبیر سے سر ہو گئے اقبال
اپنا تبصرہ لکھیں