عرش کے سائے تلے

قسط نمبر ۳

ؓؓؓجہاز کیا تھا، مصری آثار قدیمہ کاتاریخی نمونہ تھا۔ہاں البتہ ائیر ہوسٹس جدید فیشن کی تھیں۔ دور سے دیکھنے پر یورپین معلوم ہوتی تھیں۔ پاس آنے پر معلوم ہوتا کہ یہ سنہری بال رنگے ہوئے ہیںQist number 33
کچھ ہی دیر بعدروانگی کا وقت ہو گیا۔ پتہ چلا کہ گروپ لیڈر نے پرائیویٹ طور پر جہاز مصری ائیرلائن سے بک کروایا گیا تھا۔۔ ہمارے حج لیڈر کی کمپنی چونکہ پرائیویٹ تھی اس لیے السیے اوسلوایر پورٹ کے حکام نے انہیں ٹکٹ بنانے کی اجازت نہیں دی۔تمام مرد حضرات نے احرام اچھ طرح سے کس کر باندھ لیے۔پھر جہاز میں سوار ہونے کی بار آئی۔ جہاز کیا تھا، مصری آثار قدیمہ کاتاریخی نمونہ تھا۔ہاں البتہ
ائیر ہوسٹس جدید فیشن کی تھیں۔ دور سے دیکھنے پر یورپین معلوم ہوتی تھیں۔ پاس آنے پر معلوم ہوتا کہ یہ سنہری بال رنگے ہوئے ہیں۔انگریزی سے نابلد تھیں۔ صرف عربی آتی تھی۔چنانچہ وہیں سے عربی بولنے کی پریکٹس شروع کر دی۔اگر کوئی اور موقع ہوتا تو اتنے پرانے جہاز میں سفر کرنا بہت برا معلوم ہوتا لیکن اس وقت یہ سب کچھ بہت خوشگوار معلوم و رہا تھا۔ہم لوگوں نے اپنی اپنی سیٹیں سنبھال لیں۔ پھر مائیک پہ سفر کی دعا کا آغاز ہوا۔لیکن اس سے پہلے گھنٹہ بھر جہاز کے پورے عملے اور حج لیڈر کی ایک بزرگ مسافر سے بحث ہوتی رہی۔وہ بزرگ اپنے پاس رکھا ہوا سامان اسٹور میں رکھوانے پہ آمادہ نہیں ہو رہے تھے۔وہ مسلسل اپنی ضد پہ اڑے ہوئے تھے۔جہاز پہلے ہی نو گھنٹہ لیٹ تھا اب مزید ایک گھنٹہ ان صاحب کی ضد نے لے لیا۔جہاز کا عملہ انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ جہاز کے اندر گنجائش سے ذائد سامان کسی خطرہ کا باعث ہو سکتا ہے لیکن وہ یہ بات سننے پہ آمادہ ہی نہیں تھے۔لگتا تھا کہ وہ حج پہ شہید ہونے کی نیت سے جا رہے ہیں، اور باقی مسافروں کو بھی زبردستی جام شہادت پلانا چاہتے تھے۔مسلہء تو حل نہ ہوا مگر جہاز چل پڑا۔ جہاز میں ہی تلبیع پڑھنی شروع کر دیتھی۔ تلبیع کی آواز کانوں کو ہی نہیں بلکہ دل اور روح کو بھی بہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔جب سب ملکر تلبیع پڑھتے تو روح کی گہرائیاں تک سرشار ہو جاتیں۔ ان آوازوں میں ایک آواز تو صدیوں پرانی محسوس ہوتی ایسا لگتا جیسے یہ آواز زمین سے نکل کر آسمانوں کی وسعتوں کو چھورہی ہے۔میں نے جہاز کی کھڑکی سے باہر دیکھا تو چاند کو اپنا ہمسفر پایا۔ چودھویں کا چاند پوری آب وتاب سے آسمان کے طشت پہ جلوا نماء تھا۔ تاروں کی محفل سجی تھی، میں اور چاند ہوا کے دوش پہ اڑے جا رہے تھے بلندیوں کی جانب۔تب میرے لبوں پہ اپنے بچپن کی دعائیہ گیت مچلنے لگتا
یارب مجھ کو چاند کی مانند روشن روشن بنانا
کام ہو میرا قریہ قریہ کرنیں پھیلانا

ہملوگ سحر کا سپیدہ نمودار ہونے سے پہلے جدہ ایئر پورٹ پہ پہنچے۔سعودی اراکین نے ہمارا استقبال والہانہ انداز میں کیا۔سب مسافروں کو پھولوں کے ہار پہنائے۔اب زمین کے ساتھ ساتھ عمارتوں کا نقشہ اور جغرافیہ بھی یکثر تبدیل ہو چکا تھا۔ایئر پورٹ کی عمارت سفید خیموں جیسی تھی جو قدیم عربی قبائل کے طرز زندگی کی یاد دلاتی تھی۔ہمارے گروپ نے اجدہ ایئر پورٹ کے بنچوں اور راہداریوں میں آٹھ گھنٹے قیام کیا۔ اکثر تھکے ماندے مسافروں نے وہاں بنچوں پر اپنی نیند پوری کی۔ وہاں کئی لوگوں سے تعارف بھی ہوا۔اب ہم لوگوں کو مکہ شریف میں اپنے ہوٹل اور کمرے کا نمبر اور اتا پتہ مل چکا تھا۔ضیاء لاہور سے حج کے لیے آنے والے احباب کی فیملیز سے رابطہ کر چکے تھیاسلیے ٹنے طویل سفر کے بعد بھی خاصے خوش باش نظر آرہے تھے۔انکی رہائش منیٰکے پاس تھی جبکہ ہماری خانہ کعبہ کے پاس۔یعنی کہ خانہ کعبہ ہمارے ہوٹل سے صرف پانچ منٹ کی پیدل مسافت پہ واقع تھا۔

سب نے اپنا اپنا سامان لیا اورجدہ ایئر پورٹ پہ آٹھ گھنٹہ ٹھہرنے کے بعد مکہ شریف کی جانب روانہ ہوئے۔ مکہ روانہ ہوتے وقت راستہ بھر عضیب سرشاری کی سی کیفیت رہی۔ اب کوئی تاخیر دل کو بری نہیں لگ رہی تھی۔ؓالآخر ہملوگ مکہ میں اپنے ہوٹل میں پہنچ گئے۔ وہاں جا کر پتہ چلا کہ مجھے ہوٹل کی چوتھی منزل پہ کمرہ ملا ہے جبکہ ضیاء کو نویں منزل پہ۔ میرے کمرے میں چار مزید خواتین بھی تھیں۔ ان سب کا تعلق اوسلو سے تھا سوائے میرے۔ سبھی بہت خوش مزاج تھیں۔ بعد میں ہم مزاج بھی بن گئیں۔ ایک خاتون اسماء جن کا تعلق کراچی سے تھا سب سے زیادہ ہنس مکھ تھیں۔ وہ میرے پسندیدہ اور مشہور نعت خواں کی بھتیجی تھیں۔ خود بھی بہت پیاری نعتیں پڑھتی تھیں۔انکی خوش مزاجی کی وجہ سے میری ان سے دوستی ہو گئی۔ ایک روز انہیں تیز بخار ہو گیا۔ صحیح طرح بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔ میں نے یونہی حسب عادت انہیں بچوں کی یہ نظم سنائی
گڑیا بیمار ہے
اسکو بخار ہے
کوئی جلدی سے جاؤ
جا کر ڈاکٹر کو بلاؤ
گڑیا ٹھیک ہو گئی
سارے خوشیاں مناؤ
یہ نظم سنتے ہی اسماء جو نقاہت کے مارے بول بھی نہیں پا رہی تھیں کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔میں نے اس ہنسی کی وجہ پوچھی تو کہنے لگیں 249مجھے ہنسی اس لیے آ رہی تھی کہ مجھے بچپن میں گڑیا ہی کہتے تھے۔ تم نے یہ نظم سنائی تو مجھے اپنا بچپن یاد آ گیا۔اس کے بعد انکا بخار بھی اتر گیا۔ اسماء کے چہرے پہ بہت معصومیت اور پاکیزگی تھی۔مجھے تو وہ اب بھی گڑیا جیسی ہی لگتی تھیں۔ سرخ و سفید چہرے پہ گھنگریالے بال اور اس پہ انکی معصوم سی مسکراہٹ۔زبان بھی بہت شیریں تھی۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں بی بی عائشہ کی ذیارت بھی ہوئی تھی خواب میں۔ وہ واقعی اتنی ہی نیک اور معصوم تھیں کہ انہیں ضرور ذیارت ہوئی ہو گی۔سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے شوہر کی بہت فرمانبردار تھیں۔شائید اسی لیے حج سے واپسی پہ انکے شوہر نے انہیں سونے کا لاکٹ بھی تحفے میں دیا۔

اپنا تبصرہ لکھیں