شہدائے جموں کی یاد میں

ڈاکٹر عارف محمود کسانہ سویڈن

ہمارا خیال تھا کہ یہ صرف چند دنوں کی بات ہے اور جلد ہی حالات بہتر ہوجائیں گے اور ہم پھر سے اپنے گھروں میں واپس چلے جائیں لیکن بد قسمتی سے وہ دن کبھی نہ آیا اور ہم لوگ اپنے وطن واپس جانے کی آرزو لیکر ایک کرکے اس دنیا سے رخصت ہورہے ہیں۔ میرے دادا جموں سے اپنی ہجرت کی داستاں سناتے ہوئے اکثر آبدیدہ ہوجایا کرتے تھے۔ ایک وہ ہی نہیں تقسیم ہند کے وقت جموں سے اپنے گھر وں کو چھوڑ آنے والے سبھی اپنے وطن کو کبھی نہیں بھولے تھے اور بہت سے تو یہ وصیت کرکے اس دنیا سے جاتے تھے کہ اگر اُن کا انتقال ہوگیا تو انہیں بطور امانت دفن کیا جائے اور جب بھی موقع ملے تو اُن کے جسد خاکی کو اپنے وطن کی مٹی کے سپرد کردیا جائے۔ ہجرت کے بعد میرے دادا اور نانا اپنے خاندان کے ساتھ جموں سے سیالکوٹ منتقل ہوئے تھے۔وہ یہاں برسوں زندہ رہے لیکن اپنا وطن ہمیشہ جموں کی سرزمین کو ہی کہتے تھے۔ وہ اکیلے نہیں تھے اُن جیسے لاکھوں دوسرے بھی اسی کیفیت میں تھے اور مجھے یاد ہے کہ جب بھی انہیں کبھی وہاں کا بچھڑا ہوا رشتہ دار یا ساتھی ملتا تو گویا اُن کی عید ہوجاتی تھی۔ جب مطلع صاف ہوتا تھا تو شام کے وقت میرے نانا سیالکوٹ قلعہ پرکھڑے ہوکر جموں شہر کی روشنیوںکا حسرت بھری نگاہوں سے نظارہ کیاکرتے تھے اور ان کی آنکھیں نم ناک ہوجا یاکرتی تھیں۔ ہجرت کرکے آنے والے بزرگوں سے میں نے پوچھا کہ آپ لوگوں کو صورت حال کا ادراک کیوں نہیں ہوسکا جس میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ مسلمان کے خون سے جموں کی سرزمین رنگین ہوئی۔ وہ کہتے تھے کہ ١٩٤٦ء کے انتخابات اور تقسیم ہند کے منصوبہ کے بعد پنجاب کے تقسیم کی باتیں ہونے لگیں لیکن ریاست جموں کشمیر چونکہ برطانوی ہند میں شامل نہ تھی بلکہ ایک دیسی ریاست تھی جسے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا پورا اختیار تھا کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک ساتھ الحاق کا فیصلہ کرلے یا پھر اپنی خودمختاری کا اعلان کرلے۔ مہاراجہ کشمیر ریاست کو خودمختار رکھنا چاہتا تھا اور اُسے کانگرس کی بجائے مسلم لیگ کی ریاستوں کے بارے میں پالیسی اپنے اور ریاست کے فائدہ میں نظر آتی تھی اسی لیے اُس نے ١٢ اگست ١٩٤٧ء کو ریاست جموں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ stand still agreement کا معائدہ کیا جس کی صورت میں دفاع، امورخارجہ، مواصلات اور کسٹم وغیرہ کے حکومت پا کستان کے کنٹرول میںچلے جانے سے ہم لوگ بھی مطمئن ہوگئے۔ ١٤ اگست کو ریاست بھر میں پاکستان کی آزادی کا دن بہت خوشی سے منایا گیا اور مہاراجہ نے خود پاکستانی پرچم کو سلامی دی لیکن یہ خوشی زیادہ دن نہ قائم رہ سکی اور ریاست کے مختلف حصوں سے شورش کی خبریں آنا شروع ہوگئیں۔
قیام پاکستان کو بھی ایک ہفتہ ہی ہوا تھا کہ پونچھ کے علاقہ سے ریاستی حکومت کے خلاف مسلح کاروائیوں کا سلسلہ ریاست کے دوسرے تک پھیلنا شروع ہوگیا جس کے رد عمل میں دوسری جانب سے بھی جوابی کاروئیوں کا آغاز ہوگیا۔ بھارتی سامرج ریاست جموں کشمیر کو ہر قیمت میں ہڑپ کرنے کا فیصلہ کرچکا تھا۔ جموں کے مسلمان ان حالات کے لیے نہ تو تیار تھے اور نہ ہی اس کشت و خون کا تصور کر سکتے تھے۔ جموں اگرچہ مسلم اکثریتی علاقہ تھا مگر بھارت کے ساتھ سرحد ہونے کی وجہ سے ہندووں اور سکھوں کے جتھے منظم انداز میں حملہ آور ہونے لگے۔ اگرچہ اکتوبر کے وسط تک جموں شہر کے حالات پر امن تھے مگر دیہات کے علاقوں سے لوگ حفظ ماتقدم کے طور پر پاکستان کی جانب پناہ کی تلاش میں جانے لگے۔ میرے اپنے خاندان کے افراد کا کہنا ہے کہ ہم نے ذوالحج کا چاند پاکستان اور جموں کی سرحد پر دیکھا تھا جو پندرہ اکتوبر کی تاریخ ہوگی۔ اس کے بعد جب کشمیر پر ٢٢ کتوبر کو قبائلی حملہ شروع ہوا تو پھر جموں میں بھی قتل و غارت میںشدت آتی گئی۔ ٢٣ اکتوبر کو جموں کے ایک قصبہ میراں صاحب میں ڈوگرہ سپاہیوں اور جن سنگھیوں نے مسلمانوں کے مجنع پر شدید فائرنگ کرکے ہزاروں افراد کو شہید کردیا۔مسلمانوں کے گھروں پر حملے شروع ہوگئے اور ہزاروں مسلمان عورتیں کو اغواہ کرلیا گیا جن میں مسلم کانفرس کے صدر چوہری غلام عباس اور قائمقام صدر چوہدری حمید اللہ کی بیٹیاں بھی شامل تھیں۔ ٢٦ اکتوبر کو جبری الحاق کا بہانہ بنا کر بھارتی فوج جموں کشمیر میں داخل ہوگئی۔ ٣ نومبر کو پٹیالہ سے مزید فوجی کمک جموں آگئی اور ٤ نومبر کو بھارتی وزیر دفاع سردار بلدیو سنگھ اور وزیر داخلہ سردار پٹیل مزید منصوبہ بندی کے لیے جموں آئے۔٥ نومبر کو مسلمانوں کو کہا گیا کہ اگر وہ پاکستان جانا چاہتے ہیں تو پولیس لائن پہنچ جائیںجہاں سے انہیں ٹرکوں اور گاڑیوں میں بھر کرلے جایا گیا مگر راستہ ہی میں انہیں شہید کردیا گیاصرف لوگ ہی اپنی جانیں بچا سکے۔ اگلے روز پھر جموں کے مسلمانوں کو قافلہ کی صورت میں پاکستان پہنچانے کی غرض سے روانہ کیا مگر انہیں بھی راستہ میں شہید کردیا گیا۔ اس قدر ظلم و بربریت کی مثال چشم فلک نے شائد پہلے نہ دیکھی ہوگی۔ بچ نکلنے والے جب وہ واقعات سناتے تھے تو رونگھٹے کھڑے ہوجاتے تھے۔
سیالکوٹ میں مقیم جموں کے اہم عمائدین سے اکثر ملاقاتوں میں اُن حالات و واقعات کے تفصیلات سے آگاہی ہوئی۔جموں کی اُن معروف شخصیات میں سٹیٹ کونسلر قاضی خورشید عالم، ہفت روزہ پاسبان کے ایڈیٹر منشی معراج دین، ہفت روزہ ولر کے مجید امجد بٹ، ہفت روزہ دور جدید کے ایڈیٹر عبد الحمید نظامی ، آزاد کشمیر اسمبلی کے سابق قائد حزب اختلاف چوہدری سلطان علی، سابق ڈپٹی سپیکر چوہدری فرمان علی، سابق رکن آزادکشمیر اسمبلی چوہدری وزیر علی، ملک اور دوسرے زعماء شامل تھے۔ ان میں سے اکثر کا یہ کہنا تھا کہ ریاست کے ساتھ پاکستان کے stand still agreement کے بعد تعلق کیوں نہ مضبوط بنایا گیا۔ سیالکوٹ سے جموں کے لیے ٹرین کیوں بند کی گئی۔ قبائلی حملہ اگر ناگزیر بھی تھا تو اسے سیالکوٹ سے کٹھوعہ اور جموں کی جانب کیوں نہ کیا گیا۔ بھارت سے آنے والی صرف ایک شاہراہ کو کٹھوعہ کے قریب بند کرکے جموں کے مسلمانوں کو کیوں نہ بچایا گیا۔ اکتوبر کے وسط کے بعد جب جموں میں مسلمانوں پر حملے شروع ہوئے پھر بھی قبائلیوں کو جموں کی جانب کیوں نہ متحرک گیا گیا۔ مسلم کانفرس جموں کی قیادت کیوں حالات کا ادراک نہ کرسکی اور بہت سے اس کے رہنماء اسلامیان جموں کو بے یارو مددگار چھوڑ کر خود کیوں فرار ہوگئے۔ قائد اعظم کے منع کرنے کے باوجود مسلم کانفرس کی قیادت نے کیوں بلاوجہ محاذ آرائی شروع کی جس کے نتیجہ میں جماعت کے صدر چوہدری غلام عباس، آر ساغر اور دوسرے جیل میں ڈال دیئے گئے۔ لاکھو ں انسانوں کا خون بھی بہا اور ریاست بھی جبری تقسیم ہوگئی۔ اُن شہداء نے اپنے خون سے جو شمع روشن کی تھی وہ آج بھی روشن ہے اور جموں کشمیر کی تیسری نسل نے بھی اس جبری تقسیم کو تسلیم نہیں اور وہ مادر وطن کی آزادی کے لیے آج بھی متحرک ہیں اور اُس دن کی نہ صرف آرزو رکھتے ہیں بلکہ اس کے لیے مصروف جدوجہد ہیں جب آ ملیں گے سینہ چاکان وطن سے سینہ چاک۔

اپنا تبصرہ لکھیں