شکاری چڑیل اور ڈرپوک وزیر

shazia logo11 تحریر شازیہ عندلیب
گذشتہ روز تمام یورپین میڈیا پرہنگری کی ایک صحافی خاتون کی عجیب حرکت کی خبر گردش کرتی رہی جس نے یہ خبر پڑہی حیران رہ گیا۔
صحافی خاتون کی حرکت ہی اتنی عجیب تھی کہ اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ابھی تو ہنگری کے وزیر اعظم کا بیان اور شامی پناہ گزینوں کے ساتھ افسوس ناک رویہ پرہی ہر با شعور شخص ہنگری پر ملامت کررہا تھا کہ ہنگری کی ہی خاتون صحافی کی نئی حرکت نہلے پہ دہلا ثابت ہوئی۔آجکل ملک شام میں اسلامی انتہا پسندوں کی جنگی اور غیر انسانی اور غیر اخلاقی کاروائیوں کی وجہ سے مجبور ہو کرشامی با شندے محفوظ ممالک کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔متاثرین جنگ اپنے مال و متاع اور چھوٹے چھوٹے بچوں سمیت ٹرینوں بسوں گاڑیوں پر اور کچھ پیدل سربیا کے راستے ملک ہنگری میں داخل ہو رہے ہیں۔ان پناہ گزینوں کا مقصد ہنگری کے راستے دوسرے محفوظ ممالک کی جانب نقل مکانی کرنا ہے جن میں جرمنی اور سکینڈینیوین ممالک اور فرانس وغیرہ شامل ہیں۔
خبر کا متن آپ اردو فلک کی ہفتہ 11 گیارہ ستمبر کی اشاعت میں اس لنک پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
https://www.urdufalak.net/urdu/category/current-affairs/news
جرمنی ناروے اورسویڈن میں مقامی لوگ اور حکومت نہ صرف ان مجبور لوگوں کو خوش آمدید کہہ رہیں ہیں بلکہ ان کے لیے امدادی بجٹ بھی مخصوص کیے جا رہے ہیں اور لوگ ان کے لیے کپڑے اور خوراک بھی فراہم کر رہے ہیں۔ فن لینڈ کے وزیر اعظم نے تو اپنی رہائش تک شامی مہاجروں کو پیش کر دی ہے۔ناروے میں کیمپوں میں اس قدر ذیادہ کپڑے اور خوراک لوگوں نے جمع کر دیے ہیں کہ کیمپوں میں اب جگہ کم پڑ گئی ہے اور حکومت کو لوگوں سے یہ ا مداد بند کر کے صرف مالی امداداور خدمت کی اپیل کرنی پڑی۔خدمت سے مراد مہاجروں کو مقامی زبان سکھانایہاں کے معاشرے رسوم طرز زندگی اورموسم سے روشناس کرانا ور سیر کرانا جیسے کام شامل ہیں۔ایسی خدمات کے لیے ٹریننگ سینٹرز قائم کر دیے گئے ہیں جبکہ کئی تنظیمیں جن میں ریڈ کراس اول نمبر پر ہے مہاجروں کی مدد کے ساتھ ساتھ انہیں ٹور پربھی لے جا رہی ہے ۔یہ ہے ترقی یافتہ اقوام اور ممالک کی شان کہ جب ان کے پاس مجبور اور بے بس لوگ آئے تو وہ ان سے خندہ پیشانی سے ملتے ہیں اورپورے جی جان سے نہ صرف ان کا استقبال کرتے ہیں بلکہ انہیں ہر طرح کی سہو لیات بہم پہنچاتے ہیں۔پھر اس کے بعد جیسے وہ مجبور لوگوں پر مہربان ہوتے ہیں تو قدرت ان پر اس سے ذیادہ مہربان ہوتی ہے اور انہیں ان خدمات کے صلے میں اقوام عالم میں عزتاورسربلندی عطا ء کرتی ہے۔چاہے اس قوم کا تعلق کسی ملک و ملت اور مذہب سے کیوں نہ ہو۔آض آپ اگر کار کردگی کے لحاظ سے دیکھیں تو ہیہ ممالک ناروے سویڈن فن لینڈ اور جرمنی عالمی سطح پر ترقی یافتہ خوشحال اور خوش اخلاق ممالک ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس قدر مہنگے ممالک ہونے کے باوجود دنیا کے لوگ یہاں سیر کرناا ملازمت کرنا اور رہنا پسند کرتے ہیں۔دنیا میں کہیں کوئی آفت ٹوٹ پڑے کوئی مصیبت آ جائے ناروے مالی اور جسمانی مدد پیش کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے تو پھر خوش حالی اور ترقی پر اس کا حق تو بنتا ہے نا ۔۔۔پناہ تو پاکستان نے بھی افغانیوں کو دی تھی مگر ان کے ساتھ جو نارواء سلوک روا رکھا گیا انہیں فنڈذ ہونے کے باوجود خیموں میں طویل عرصے تک مفلسوں کی طرح پناہ دی گئی ۔جس کے نتیجے میں ان لوگوں نے طاقت کے بل بوتے پراور دشمنوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے امن کو تاراج کر دیا۔اگر ہمارے ملک کے امراء بھی انہیں اپنے رائے ونڈ اور سندھ بلوچستان کے محلات میں پناہ دیتے تو افغان مہمان مہاجروں کی میزبانی ضرور رنگ لاتی وہ ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے بجائے ملکی معشیت کی مضبوطی کا باعث بنتے۔یہی اصول معاشر ے میں انفرادی سطح پربھی لاگو ہوتا ہے جو گھرانے اپنے مجبور و بے بس عزیز و اقارب کو مشکل وقت میں خوش دلی کے ساتھ خوش آمدید کہتے ہیں انہیں اپنے گھروں میں پناہ دیتے ہیں ان کی میزبانی اور دلجوئی کرتے ہیں قدرت بھی انہیں ہر طرح کی سر بلندی عطاء کرتی ہے۔یہ مشاہدہ تو اپنے آس پاس اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جن لوگوں نے کسی کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ان پر اعتبار جماء کر انہیں عزیزوں کو مالی سماجی نقصان پہنچایا ہمیشہ قدرت کے انتقام کا نشانہ بنے اور نشان عبرت بن کر رہ گئے۔کئی لوگ مشکل وقت میں یا کسی کمزور عزیز کو ان کے وراثتی حق سے محروم کر دیتے ہیں انہیں ان کے اپنے یا والدین کے گھروں سے نکال دیتے ہیں ۔مگر کچھ عرصے کے بعد وہ خود بھی بے گھر ہو کر در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔آپ اپنے آس پاس دیکھیں تو آپ کو بھی ایسی بیشمار مثالیں نظر آئیں گی۔قدرت کا یہی اصول عالمی سطح پربھی کار فرماء نظر آتا ہے۔اللہ ظالموں کی رسی دراز تو ضرور دراز کرتا ہے مگر انہیں وہ خوشحالی اور عزت و استحکام نہیں دیتا جو کہ کھلا دل رکھنے والی قوموں کو دیتا ہے۔
نارویجن حکومت اور عوام کے جذبہء میزبانی کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔اب تک ناروے میں تین ہزار نو سو ستاسی 3987شامی پناہ گزین آ چکے ہیں۔یادرہے کہ موجودہ حکومت کے ایجنڈے میں غیر ملکیوں کی ذیادہ حمائیت نہیں ۔اس کے باوجود آپ ان کا رویہ دیکھیں ان بے خانماں پناہ گزینوں کے ساتھ۔محدود بجٹ کے باوجود حکومت نے مہاجروں کو خوش آمدیدکہااور نارویجن عوام سے درخواست کی ہے کہ جن لوگوں کے پاس فالتو رہائشیں ہیں یا گھر میں خالی جگہ ہیں وہ کیمپوں سے رابطہ کریں۔اور جب تک حکومت کی جانب سے ان کے لیے مناسب رہائش کا بندو بست نہیں ہو جاتا انہیں اپنے ہاں بطورمہمان ٹھہرائے رکھیں۔نارویجن حکومت کا جذبہء خیر سگالی اور مہمان نوازی دیکھ کر مجھے ہجرت مکہ کا منظر یاد آ جاتا ہے جب اہل مدینہ نے مہاجروں کو جنہیں انصار بھی کہا جاتا ہے کو نہ صرف خوش آمدید کہا بلکہ انہیں ا پنے گھروں میں پناہ دی انہیں ہر سہولت دی ہر چیز میں حصہ دیا۔یہاں تک کہ بعض لوگوں نے نبی پاک سے اپنی گھر والیاں بھی مہاجرین کے نکاح میں دینے کی پیشکش کی جس سے نبی پاک نے روک دیا۔صر ف ناروے ہی نہیں سویڈن اور جرمنی نے بھی مہاجرین کو خوش آمدید کہا ہے ۔لیکن ڈنمارک کی حکومت مہاجرین شام کو دیکھ کر ناک بھوں چڑہا رہی ہے اور ہنگری کی حکومت نے تو حد کر دی انہوں نہ صرف انہیں مہاجرین کو جو کہ اس راستے سے گزر رہے تھے یعنی کہ ہنگری میں مسافر تھے انہیں قیدیوں کی طرح ظالمانہ سلوک کیا ۔ بلکہ انہیں آہنی تار والے کیمپوں میں بند کر کیے قیدی بنا لیا ۔ اور یہ قانون بھی بنایا کہ اس باڑھ کو کراس کرنے والے مہاجروں کو تین سال کی قید کی سزاء دی جائے گی۔اس پر ہی بس نہیں بلکہ ایک تازہ خبر کے مطابق نارویجن اخبار وی جی نے لکھا ہے کہ ہنگری میں مہاجر کیمپوں میں مہاجروں کو جانوروں کی طرح کھا نادیا جا رہا ہے۔ہنگری حکومت کی ان حرکتوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ واقعی صرف انگریزی والا ہنگری ہی نہیں بلکہ اینگری ملک بھی ہے۔ایک بھوکا کسی دوسرے بھوکے کے ساتھ کیسا سلوک کر تا ہے یہ دیکھنا ہو تو ہنگری کو دیکھیں اس پر مستزاد یہ کہ وزیر اعظم اتنا ڈرپوک کہ چند ہزار مہاجروں کو دیکھ کر یہ گمان کر بیٹھ اکہ کہیں ان کی تعداد اد ہنگری کے لوگوں سے ذیادہ نہ ہو جائے ۔حالانکہ پوری دنیا کا یہ اصول ہے کہ جنگی پناہ گزین صرف دوران جنگ پناہ لیتے ہیں اس کے بعد واپس اپنے ملکوں کو بھیج دیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ ناروے میں پہلے بوسنیا ء اور پھر افغان پناہ گزینوں کے ساتھ ہوا کہ انہیں جنگی حالات میں پناہ دی گئی اورپھر حالات نارمل ہونے پر واپس بھیج دیے گئے۔

جس ملک کا وزیر اعظم اتنا ڈرپوک ہو گا اسکے عوام کیسے ہوں گے۔اسکا بھی پتہ چل گیا صحافی عورت کے سلوک سے جس میں اس نے پولیس کنٹرول کے دوران ایک مہاجر جس نے بچہ اٹھایا ہوا تھا اس کو اور ایک بچی کو لاتیں ماریں ۔پھر ندامت سے یہ بیان دیا کہ میں ڈر گئی تھی ۔وہی وزیر اعظم ہنگری سے ملتا جلتا بیان جس کے پیچھے خوف اور بزدلی چھپی تھی۔اس کے ساتھ ساتھ یہ درخواست بھی کی کہ اسے نسل پرست شکاری چڑیل نہ سمجھا جائے تو اور کیا پھراسے معصوم چڑیل سمجھا جائے؟؟؟ّ ّّ

اپنا تبصرہ لکھیں