شمالی یورپ میں لمبے روزے ۔

ہونہار طلبہ کا پورپی ممالک کا دورہ ۔

سویڈن کی ڈائری عارف محمود کسانہ
شمالی یورپ کے مسلمان جن میں سویڈن، ناروے اور فن لینڈشامل ہیں، دنیا بھر میں سب سے لمبے روزے رکھنے کا اعزاز حاصل کررہے ہیں۔اس سعادت میں بچے بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ دارالحکومت میں روزے کا دورانیہ بیس گھنٹے سے زائد ہے جبکہ شمالی سویڈن جو کہ قطب شمالی کا حصہ ہونے کی وجہ سے آدھی رات کے سورج کی سرزمین ہے وہاں تو ان دنوں چوبیس گھنٹے سورج چمکتا ہے وہاں عجیب صورت حال ہے اور لوگ مختلف آراء اور فتووں کے تحت رمضان گذار رہے ہیں کیونکہ امت مسلمہ میں اجتہاد کا کوئی متفقہ ادارہ موجود نہیںاس لیے ہر کوئی اپنے فہم اور پسند کی رائے کے مطابق روزے رکھ رہا ہے۔ شمالی سویڈن میں کوئی سٹاک ہوم یا جنوبی شہر مالمو کے اوقات کار اپنائے ہوئے ہے تو کوئی مکہ یا قریب ترین مسلم شہر استنبول کے افطار و سحرکے کیلنڈر کے تحت اپنے روزے رکھ رہا ہے۔ لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو چوبیس گھنٹے کا روزہ رکھتے ہیں۔ ہونا تو چاہیے کہ ایک رائے پر اجتہاد کرکے اسے اپنا لیا جائے۔ کچھ عرصہ قبل یورپین فتویٰ کونسل نے ایک قابل عمل رائے دی تھی کہ چونکہ قرآن حکیم نے سحر و افطار کے اوقات کومتعین کردیا ہے اس لیے انہیں تو کسی طور تبدیل نہیں کیا جاسکتا البتہ جن لیے اس قدر طویل روزے رکھنے ممکن نہ ہوں وہ سال کے دیگر ایام رکھ میں رکھ لیں جس کی طرف قرآن مجید نے الذین یطیقونہ کہہ کر اشارہ کیا ہے۔ سویڈن جیسے ممالک کے لیے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں یہ ایک قابل عمل رائے ہے۔
پنجاببھر سے سیکنڈری اور ہائیر سیکنڈری بورڈکے امتحانات میں اول آنے والے طلباء و طالبات ان دنوں چار یورپی ممالک کے تعلیمی دورہ پر ہیں۔ ان میںباقی تینوں صوبوں ِ آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان سے بھی ایک ایک طالب علم کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ سلسلہ وزیر اعلٰی پنجاب شہباز شریف کی ذاتی دلچسپی سے شروع ہوا اور اس سلسلہ میں یہ پانچواں دورہ ہے۔ یہ ایک اچھا قدم ہے کہ عام عوام کے بچے جنہیں شائد کبھی بھی ان یورپی ممالک کا دورہ کرنے کا موقع نہ ملتا وہ اس سے مستفیذ ہورہے ہیں ۔ حکومت پنجاب صوبہ بھر میں تعلیمی بہتری کے لیے اہم اقدامات اٹھا رہی ہے اور اپنے وسائل اس قومی ترقی کے شعبہ پر خرچ کررہی ہے۔ حکومت نے بہتسے اچھے اقدامات کیے ہیں جن کی تعریف نہ کرنا بخل ہوگا لیکن دوسری جانب حکومت پنجاب کے کچھ امور پر تنقیدبھی نہ کرنا حریت افکار کے منافی ہے۔ ایک صحافی اور لکھنے والے کو نہ صرف غیر جانبدارانہ اور آزاد ہونا چاہیے بلکہ کسی قسم کے خوف اور لالچ کی پروا کیے بغیر سچ ہی لکھنا چاہیے ۔ اگرچہ پاکستان میں صحافیوں کے حالات بہت مشکل ہیں مگر یورپ میں مقیم صحافی اس سلسلہ میں بہتر پوزیشن میں ہیں کہ وہ بغیر کسی دبائو اور خوف کے اپنے حق گوئی کا علم بلند کرسکتے ہیں۔
حکموت پنجاب نے تعلیمی میدان میں جو اہم کارنامہ سرانجام ہے وہ میرٹ کو اپناناہے۔ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کی جانب سے ایچی سن کالج میں کوٹہ سسٹم ختم کرکے داخلے میرٹ پر کرنے کا فیصلہ تاریخ ساز ہے۔ اسی طرح حکومت پنجاب کی جانب سے صوبہ کی 12اہم جامعات میں کوٹہ سسٹم ختم کرنا بھی ایسا اہم قدم جس کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ اس طرح اقربا پروری کا خاتمہ ہوگا اور لائق طالب علم اپنی اہلیت کی بنیاد پر یونیورسٹیوں میں داخلہ لے سکیں گے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جانب سے لائق ترین طلبہ کے یورپ کا مطالعاتی دورہ بھی اہم قدم ہے جس کی غرض و غایت بتاتے ہوئے وفد کے ہمراہ آئے گورنمنٹ کالچ یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر ڈاکٹر خلیق الرحمٰن اور ڈپٹی سیکریٹری شاہد اقبال نے بتایا کہ طلبہ اس دورے سے یورپ میں ہونی والی ترقی ، یہاں کے سسٹم اور متعلقہ سرگرمیوں کا مشاہدہ کرکے اسے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کریں گے۔ یہ ایک خوش آئند نظریہ ہے اور نوجوان نسل سے بجا طور پر اس کی توقع کی جاسکتی ہے کیونکہ پاکستان کی تقدیر بدلنے والا وہ ہی آخری سہارا ہیں۔ ممکن ہے وہ اپنے اس دورہ کے بعد ایک نئے عزم سے ملکی ترقی کے لیے کام کریں لیکن دوسری جانب یہ بھی یک حقیقت ہے کہ انہیں اس دورہ پر بھیجنے والوں نے یورپ کے متعدد دورے کرکے اور یہاں ایک طویل عرصہ گذار کربھی کچھ نہیں سیکھا۔ پاکستان کے موجودہ حکمران ہوں یا ماضی کے ارباب اختیار،ملک کا بالادست طبقہ ہو یا اعلٰی افسر شاہی سب نے یورپ میں تعلیم و سیاحت میں بہت وقت گذار کے بھی کچھ نہیں سیکھا ۔ جب وہ یہاں ہوتے ہیں تو یورپی اقدار کی تعریف بھی کرتے ہیں اور اس کی پابندی بھی کرتے ہیں لیکن جونہی ان کی پرواز پاک سرزمین پر اترتی ہے وہ گھڑی کو سوئی کو تبدیل کرنے کے ساتھ ہی اپنا مائنڈ سیٹ بھی بدل کر وہی پرانا کر لیتے ہیں اور ائیرپورٹ سے پورے پرٹوکول کے ساتھ روانہ ہوتے ہیں۔ ان طلبہ کو انہوں نے بھیج دیا ہے کہ جائو دیکھ کر آئو کی یورپ کا نظام کیسا ہے۔ کیا نہوں نے خود نہیں دیکھا کہ یہاں سنگ بنیاد اور افتتاح کی تقریبات میں عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ضائع نہیں کیا جاتا۔ قومی تعمیر نو کے کاموں کو ذاتی تشہیر کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ یورپ میں تعلیمی مواد اور لیب ٹاپ تقسیم کرنے کے کوئی وزیر اعلیٰ نہیں آتا ، نہ وہ عوام کے ٹیکس کی رقم کو اپنی پبلسٹی کے لیے ضائع کرتے ہیں ۔ انہیں یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ یہاں کے وزیر سرکاری کاموں میں نہ براہ راست مداخلت کرتے ہیں اور نہ کسی وزیر اعلٰی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی سرکاری ملازم کو معطل کرسکے۔ یہاں کے اراکن پارلیمنٹ کا کام قانون سازی ہے اور وہ نہ ملازمتیں دلاتے ہیں اور نہ ہی ترقیاتی رقوم لینے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں۔یہوں قانوں کی حکمرانی ہے اور قانون سب کے لیے ایک جیسا ہے۔ ایک سپاہی بھی وزیر اعظم کا چالان کرسکتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے تمام اہم رہنماء یورپ سے کچھ نہیں سیکھ سکے۔
ایک عشرہ قبل پاکستان سے اکونٹس گروپ کے پندرہ سی ایس پی آفیسر سکالرشپ پر سویڈن آئے جیسے اور بہت سے آفیسر دیگر ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے لیے آتے ہیں۔ واپس جا کر انہوں وہاں کیا تبدیلی کی۔ کچھ بھی سب ویسا ہی رہا صرف پیسے کا ضیائع ہوا اور سیر سپاٹاکرکے واپس اسی روش پر گامزن۔ جب تک سوچنے کے انداز اور سسٹم میں تبدیلی نہیں آتی حلات بدلنے اور ترقی محض خواب ہی رہے گا۔ پاکستانی بیوروکریسی شاہ سے زیادہ شاہ پرست کا کرادر ادا کرتی ہے۔ حکمرانوں کی خوشامند کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ یہی کچھ یورپی ممالک کے دورہ پر آئے ہوئے وفد کی قیادت کرنے والے والے کررہے تھے۔ ایک محفل میںتو کسی نے ڈپٹی سیکریٹری سے پوچھ بھی لیا کہ آپ وزیر اعلٰی کے زاتی ملازم ہیں یا حکومت پنجاب کے۔ وہ یہ بھی بڑے فخر سے بتا رہے تھے کہ وزیر اعلٰی کو ہمارے ایک ایک دن اور ایک ایک سرگرمی کا علم ہے اور ہزاروں میل دور ہوکر بھی وہ ہمارے دورے کی جزئیات سے بھی آگاہ ہیں۔سوال یہ ہے کہ وزیر اعلٰی اگر انتے ہی باخبر ہیں تو انہیں لاہور میںاپنے گھر کے قریب ماڈل ٹائون میں ادارہ منہاج القرآن پر پولیس کے ظالمانہ قتل عام کی خبر کیوں نہ ہوسکی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کئی گھنٹے جاری رہنے والے آپریشن سے وہ لاعلم تھے۔ اور وہ لاعلم تھے تو اس عہدہ کے لیے نااہل ہیں۔ وزیر اعلیٰ جن کا مشغلہ ہی سرکاری ملازمین کو معطل کرنا ہے انہوں نے اس واقعہ کے ذمہ دار اعلٰی افسروں کو کیوں معطل نہیں کیا۔ اگر وہ یورپ سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں تو یہ بھی جان لیں کہ اگر کسی یورپی ملک میں پولیس نے 13 انسانوں کو نہیں بلکہ کتوں کوہی گولیاں مار کر ہلاک کیا ہوتا تو یہاں کہرام مچ جاتا اور پوری حکومت بشمول تمام ذمہ دار افسر فوری مستعفی ہوچکے ہوتے اور قانون کے شکنجے میں ہوتے۔ انتے بڑے واقعہ سے وہاں کے ارباب اقتدار نے کچھ بھی نہیں سیکھا تو طلبہ کے وفد یورپ بھیج کر کیا سیکھیں گے۔

اپنا تبصرہ لکھیں