شادی کرنی ہے؟ مذہب بدل لو!

سہیل انجم
اس وقت متعدد موضوعات قابل توجہ ہیں۔ جن میں پیغمبر اسلام کے توہین آمیز خاکوں کے سلسلے میں پیدا تنازع اور بہار اسمبلی انتخابات قابل ذکر ہیں۔ لیکن ایک اور موضوع ہے جو قارئین کی توجہ چاہتا ہے۔ یہ کوئی نیا موضوع نہیں، بلکہ بہت پرانا موضوع ہے اور رنگ بدل بدل کر سامنے آتا رہتا ہے۔ یہ موضوع ہے تبدیلی مذہب کا۔ ہندوستان میں یہ بہت حساس معاملہ ہے۔ اگر کوئی مسلمان تبدیلی مذہب کرکے ہندو بن جائے اور کسی ہندو لڑکی سے شادی کر لے تو اس پر کوئی واویلہ نہیں مچتا لیکن اگر کوئی ہندو لڑکی تبدیلی مذہب کرکے مسلمان لڑکے سے شادی کر لے تو ہندوتو وادی طبقہ فوراً چیخ و پکار شروع کر دیتا ہے اور لو جہاد، لو جہاد کہہ کر ہندووں کو مسلمانوں کے خلاف اکسانے کی کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر یہی صورت حال رہی تو ہندوستان میں ہندو اقلیت میں آجائیں گے۔ آسام کے ایک طاقتور وزیر ہیمنت بسوا شرما نے گزشتہ دنوں اس عزم کا اظہار کرکے کہ ان کی حکومت لو جہاد کے خلاف سخت لڑائی چھیڑے گی اور قومی کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن ریکھا شرما نے مہاراشٹرا کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری سے ملاقات کے وقت لو جہاد کی روک تھام کی بات کرکے ایک بار پھر اس مسئلے کو ہوا دے دی ہے۔ جبکہ قارئین اس بات سے واقف ہی ہیں کہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا یہ ایک مرغوب موضوع ہے۔ جب بھی سیاسی مقاصد کے تحت ضرورت پڑتی ہے وہ لو جہاد کا شور مچانے لگتے ہیں۔
ابھی حال ہی میں الہ آباد ہائی کورٹ میں ایک معاملہ آیا جس میں درخواست دہندہ نے عدالت سے تحفظ کا مطالبہ کیا اور یہ اپیل کی کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور ہمارے خاندان والوں کو ہم پر جبر کرنے سے روکا جائے اور ہمیں اپنی زندگی جینے کا موقع دیا جائے۔ درخواست لڑکی کی جانب سے دی گئی تھی جو کہ پیدائشی مسلمان تھی مگر وہ تبدیلی مذہب کرکے ہندو بن گئی اور ایک ہندو لڑکے سے اس نے شادی کر لی۔ جسٹس مہیش چندر ترپاٹھی نے اس معاملے پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ سنایا کہ شادی کرنے کے لیے تبدیلی مذہب ناقابل قبول ہے۔ جسٹس ترپاٹھی نے درخواست خارج کرتے ہوئے 23 ستمبر کو اپنے فیصلے میں لکھا کہ ’خاتون ایک پیدائشی مسلمان تھی مگر شادی سے ٹھیک پہلے اس نے ہندو مذہب اختیار کر لیا۔ عدالت نے پایا کہ اس نے 29 جون کو اپنا مذہب بدلا اور 31 جولائی کو ہندو لڑکے سے شادی کر لی۔ اس سے واضح ہے کہ صرف شادی کرنے کے لیے مذہب تبدیل کیا گیا۔ لہٰذا عدالت آئین ہند کی دفعہ 226 کے تحت اس معاملے میں مداخلت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی اور درخواست خارج کرتی ہے‘۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں دسمبر 2014 کے نور جہاں بیگم عرف انجلی مشرا اور دیگر بنام یو پی حکومت اور دیگر کے مقدمے میں سنائے گئے فیصلے کا حوالہ دیا۔ اس میں یہی بات کہی گئی تھی کہ شادی کے لیے تبدیلی مذہب ناقابل قبول ہے۔ عدالت نے سابقہ فیصلے کے ساتھ ساتھ قرآن کی آیات کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ مذہب میں اعتقاد کے بغیر اپنا مذہب بدلنے کو جائز نہیں قرار دیا جا سکتا۔ 2014کا فیصلہ الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سوریہ پرکاش کیسروانی نے سنایا تھا۔ وہ معاملہ یو پی کے پانچ جوڑوں کی طرف سے دائر کیا گیا تھا۔ ان تمام معاملوں میں لڑکے مسلمان تھے اور لڑکیاں ہندو تھیں جنھوں نے قبول اسلام کرکے مسلم لڑکوں سے شادی کی تھی۔ ان جوڑوں نے بھی اپنے تحفظ کی دہائی دی تھی۔ جسٹس کیسروانی نے 2000 کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ غیر مسلم کا اسلام میں اعتقاد کے بغیر محض شادی کے مقصد سے اسلام قبول کرنا بے معنی ہے۔ عدالت نے کہا تھا کہ ایسی شادیاں مقدس قرآن میں کہی گئی باتوں کے خلاف ہیں۔’ قرآن میں آیا ہے کہ اعتقاد نہ رکھنے والی خواتین سے تب تک شادی مت کرو جب تک کہ وہ اعتقاد رکھنا نہ شروع کر دیں اور اپنی لڑکیوں کی شادی اعتقاد نہ رکھنے والوں سے تب تک نہ کرو جب تک کہ وہ اعتقاد رکھنا نہ شروع کر دیں‘۔ (اس آیت کا ترجمہ مولانا مفتی محمد شفیع نے معارف القرآن میں یو ںکیا ہے: ’نکاح نہ کرو کافر عورتوں سے جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہو جاویں…. اور اپنی اختیار کی عورتوں کو کافر مردوں کے نکاح میں مت دو جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہو جاویں‘)۔ عدالت کے مطابق ’تبدیلی مذہب کے معاملے میں دل کا بدلنا اور پرانے مذہب کے مقابلے میں نئے مذہب کے اصولوں کے تئیں ایماندار اور مخلص ہونا چاہیے۔ اگر تبدیلی مذہب کا سہارا اللہ کی وحدانیت میں یقین کے بغیر اور محمد (ﷺ) کو اپنا پیغمبر مانے بغیر ایک مقصد کو حاصل کرنے کے لیے لیا گیا ہے تو تبدیلی مذہب درست نہیں ہے‘۔ یقیناً یہ تمام فیصلے قابل قدر ہیں۔ کوئی بھی شخص خواہ وہ کسی بھی مذہب سے ہو اگر صرف شادی کے مقصد سے اپنا مذہب بدلتا ہے خواہ کوئی بھی مذہب اختیار کرے تو اسے اس کی اجازت نہیں ملنی چاہیے۔ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں معمولی معمولی باتوں کو بہانہ بنا کر مسلمانوں کے خلاف ماحول سازی کی جاتی ہے، اس کی قطعاً اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
حالانکہ اسی ملک میں متعدد ہندووں کی جانب سے دوسری شادی کرنے کے لیے مذہب اسلام کا سہارا لیا گیا اور پھر بعد از نکاح اپنے قدیم مذہب کو اختیار کر لیا گیا۔ اس سلسلے میں فلم اداکار دھرمیندر سمیت کئی اہم شخصیات کی مثالیں موجود ہیں۔ دھرمیندر پہلے سے شادی شدہ تھے اور ان کے بچے بھی تھے۔ چونکہ وہ ہندو مذہب کے مطابق دوسری شادی نہیں کر سکتے تھے اس لیے ہیما مالنی سے شادی کرنے کی غرض سے وہ مسلمان ہو گئے۔ انھوں نے اپنا نام دلاور خان رکھا اور ہیما مالنی نے عائشہ رکھا۔ دونوں نے نکاح کیا اور پھر دھرمیندر اور ہیما مالنی ہو گئے۔ دھرمیندر کی پہلی بیوی پرکاش کور ہیں۔ سنی دیول اور بابی دیول پہلی بیوی کے بیٹے ہیں اور ہیما مالنی سے دو بیٹیاں آہنا اور ایشا ہیں۔ دھرمیندر کا قبول اسلام کوئی پہلا اور آخری معاملہ نہیں ہے۔ ہریانہ کا وہ واقعہ تو عوام کے ذہنوں میں تازہ ہوگا جب 2008 میں سابق وزیر اعلیٰ بھجن لال کے بیٹے اور ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ چندر موہن نے ریاست کی اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل انورادھا بالی کے عشق میں گرفتار ہو کر اسلام کے دامن میں پناہ لی تھی۔ ان کا اسلامی نام چاند محمد اور انورادھا کا فضا رکھا گیا تھا۔ اس خبر نے نہ صرف ہریانہ میں بلکہ پورے ملک میں کافی شہرت حاصل کی تھی۔ لیکن جب انورادھا بالی عرف فضا سے ان کی طبیعت بھر گئی تو وہ پھر اپنے پرانے گھر میں واپس لوٹ گئے اور پھر چندر موہن ہو گئے۔ چاند محمد بننے کے بعد ان کے اہل خانہ نے انھیں عاق کر دیا تھا۔ اب پھر وہ بھجن لال کے بیٹے ہو گئے اور خاندانی وراثت میں اپنے حصے کے حقدار ہو گئے ہیں۔ جبکہ انورادھا بالی اپنے شوہر کے اس رویے سے اس قدر دل برداشتہ ہوئیں کہ انھوں نے خود کشی ہی کر لی۔ اسی طرح چند سال قبل اترپردیش میں سماجوادی حکومت کے دور میں رامپور میں ایسا ہی ایک معاملہ سامنے آیا تھا۔ وہاں انتظامیہ اور مقامی بالمیکی بستی کے درمیان تنازع پیدا ہوا تھا۔ انتظامیہ سڑک کو کشادہ کرنے کے لیے اس بستی کو منہدم کرنا چاہتی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس بستی کے لوگوں نے حکومت کی زمین پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ بستی کے لوگوں کا دعویٰ تھا کہ وہ ہمیشہ سے یہیں رہتے آئے ہیں اور وہ اسے خالی نہیں کریں گے۔ اسی درمیان اس معاملے میں ایک خطرناک موڑ آیا۔ بالمیکیوں کے دعوے کے مطابق میونسپلٹی کے ایک عہدے دار نے ان کو مشورہ دیا کہ تم لوگ اسلام قبول کر لو تو تمھارے مکان منہدم ہونے سے بچ جائیں گے۔ یہ بات ہم لوگوں کو معقول لگی۔ ہماری بستی کے پاس اقلیتوں کی کچھ آبادیوں کو منہدم نہیں کیا گیا ہے۔ لہٰذا ہم لوگوں نے اسلام مذہب اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ گویا اپنے گھروں کو بچانے کے لیے اسلام کا سہارا لیا گیا۔ اس وقت ریاستی حکومت میں اعظم خان ایک طاقتور وزیر تھے۔ بعض لوگوں کا الزام تھا کہ ان کی وجہ سے ہی تبدیلی مذہب کا مشورہ دیا گیا تھا۔ ایسے واقعات اکثر و بیشتر پیش آتے رہتے ہیں جب لوگ دنیاوی مشکلوں سے نجات پانے کے لیے اور اسلام کے بارے میں بغیر کچھ جانے سمجھے نمائشی طور پر قبول اسلام کر لیتے ہیں۔ بعد میں وہ کس مذہب پر عمل پیرا رہتے ہیں کسی کو نہیں معلوم۔ لہٰذا اس قسم کی تبدیلی مذہب کی بالکل حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی۔ الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ یقیناً قابل قدر ہے۔
اپنا تبصرہ لکھیں