سویڈن میں پاکستانی سفارت خانہ کے احوال

OLYMPUS DIGITAL CAMERA

ڈاکٹر عارف محمود کسانہ

پاکستانی افسر شاہی کے دو بیوروکریٹس نے وزیر اعظم کے نوٹس کی بھی کوئی پروا نہیں کی
اختیارات اور انا کی لڑائی
وزیراعظم کے پولیٹیکل سیکریٹری خالی ہاتھ لوٹ گئے
ایک کروڑ روپے ماہانہ خرچ کرنے والے سفارت خانہ کی کارکردگی کیسی ہے
غریب ملک کا سفیر سویڈن جیسے امیر ملک کے وزیراعظم سے زیادہ کرایہ کے گھر میں رہتا ہے
نانا جی کی فاتحہ حلوائی کی دوکان پر

سٹاک ہوم میں پاکستانی سفارت خانہ نہ صرف سویڈن بلکہ فن لینڈ، اسٹونیا اور لٹویا کے لیے بھی سفارتی خدمات سرانجام دیتا ہے۔ سویڈن میں پاکستانی سفارت خانہ ایک پرسکون مقام رہاہے لیکن اب یہی سفارت خانہ اپنے دفتری ماحول کی وجہ سے خبروںمیں ہے جس کی وجہ خود سفارت خانہ کے اعلٰی حکام ہیں۔ معاملات اس قدر سنگین اور پوائنٹ اور نو ریٹرن تک چلے گئے کہ وزیراعظم محمد نواز شریف کو اس ناگفتہ بہ صورت حال کا نوٹس لینا پڑا اور انہوں نے اپنے پولیٹیکل سیکریٹری ڈاکٹر آصف کرمانی کو صورت حال کی بہتری کے اسلام آباد سے سٹاک ہوم بھیجا لیکن ان کا آنا بھی بے سود ہوا اور وہ سویڈن کا دورہ کرکے واپس خالی ہاتھ لوٹ گئے۔ پاکستانی افسر شاہی کے دو بڑے عہدوں پر فائیز بیوروکریٹس نے وزیر اعظم کے نوٹس کی بھی کوئی پروا نہیں کی اور ثابت کردیا ہے کہ منہ زور بیوروکریسی کو لگام دینا کچھ آسان کام نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم کیا قدم اٹھاتے ہیں اور افسران بالا کی حکمت عملی کیا ہوگی۔ سفارت خانہ میںیہ تنازعہ سفیر پاکستان کامران شاہد اور کمرشل کونصلر عائشہ مخدوم کے مابین ہے۔ شاہد کامران ایک سنئیر سفارت کار ہیں اور یہ اُن کی آخری سرکاری ملازمت ہوسکتی ہیں کیونکہ وہ چند ماہ تک ریٹائر ہونے جاے رہے ہیں۔ وہ ایک سال قبل سویڈن میں سفیر کی حیثیت سے تعینات ہوئے تھے۔ اُن کے چند ماہ بعد کمرشل کونصلر عائشہ مخدوم وزارت کامرس کی جانب سے اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے یہاں تشریف لائیں۔ پاکستان کے لیے بہتر سفارتی خدمات اور تجارتی مواقع حاصل کرنے کی بجائے دونوں آپس میں ایسے الجھے کہ نہ صرف اپنی ذمہ دارایاں احسن انداز میں ادا نہیں کرپا رہے بلکہ اس کے اور بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ سفیر پاکستان کامران شاہد سفارت خانہ کے انچارج ہونے کے ناطے کمرشل کونصلر کو بھی دفتری امور میں نظم و ضبط کا پابند دیکھنا چاہتے ہیں اور جواب دہی کا حق استعمال کرتے ہیں۔ وہ کمرشل کونصلر کی جانب سے سرکاری گاڑی اور ڈرائیور کے استعمال پر بھی نظر رکھنا چاہتے ہیںاور کمرشل کونصلر کی کارکردگی بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب کمرشل کونصلر اپنے آپ کو اُن کا ماتحت نہیں سمجھتیں کیونکہ ان کا تعلق وزارت خارجہ سے نہیں بلکہ وزارت تجارت سے ہے ۔ وہ اپنی کارکردگی کے لیے بھی سفیر پاکستان کو جوب دہ نہیں ہونا چاہتیں۔ ان کے خیال میں جب ان کی وزارت نے ان لیے نئی گاڑی کی منظوری دے دی ہے تو سفیر پاکستان کو اس میں روڑے نہیں اٹکانے چاہیے۔ دراصل یہ اختیارات اور انا کی لڑائی ہے اور دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
سفیر پاکستان اور کمرشل کونصلر کی چپقلش صرف دفتری امور تک محدود نہیں بلکہ اس کے اثرات دیگر امور بھی اثر انداز ہورہے ہیں۔ 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کی تقریب میں کمرشل کونصلر شریک نہ ہوئیں۔ اسی طرح جب وزیر اعظم کے پولیٹیکل سیکریٹری ڈاکٹر آصف نے سٹاک ہوم میں مقیم پاکستانی کمیونیٹی اور بزنس سے متعلقہ لوگوں سے ملاقات کی اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے ان کی تجاویزاور مسائل سُنے تو اُس اہم نشست میں سفیر اور کمرشل کونصلر دونوں موجود نہیں تھے۔ کمرشل کونصلر کی ہی شکائیت پر وزیر اعظم نے اپنے پولیٹیکل سیکریٹری کو انکوائری آفس مقرر کرکے بھیجا لیکن وہ معلامات کو حل نہ کرواسکے۔ اب وزیر اعظم کو کوئی اور ہی قدم اٹھانا پڑے گا۔ اگر سویڈن میں پاکستانی سفارت خانہ کے معاملات وزیر اعظم کے نوٹس میں آچکے ہیں تو انہیں اب تمام معاملات کو اچھی طرح سے دیکھنا چاہیے۔ انہیں یہ جائزہ بھی لینا چاہیے کہ تقریباََ ایک کروڑ روپے ماہانہ خرچ کرنے والے سفارت خانہ کی کارکردگی کیسی ہے۔ سفیر پاکستان ،کونصلراور کمرشل کونصلر کیوں سٹاک ہوم کے پوش علاقہ میں بہت مہنگے بڑے گھروں میں کرایہ پر رہ رہے ہیں۔ تقاریب میں سادگی اور حب الوطنی کا درس دینے والے قوم کے ان خدام میں سے ہرایک چایس ہزار سے اسی ہزار سویڈش کرنا (چھ لاکھ سے تیرہ لاکھ روپے) ماہانہ کرایہ کے بنگلوں میں براجمان ہیں حالانکہ اس سے کہیں کم کرایہ پر رہائشوں میں بھی رہا جاسکتاہے۔ایک غریب ملک کا سفیر سویڈن جیسے امیر ملک کے وزیراعظم سے زیادہ کرایہ کے گھر میں رہتا ہے۔ اورنانا جی کی فاتحہ حلوائی کی دوکان پر دے رہے ہیں اور بہتی گنگا میں جس کا بھی بس چلتا ہے ہاتھ دھو رہا ہے۔کمرشل کونصلر جن پر پاکستان کے غریب عوام کے ماہانہ تقریباََ بیس لاکھ روپے خرچ ہورہے کیا وہ اتنی خطیر رقم کے عوض ملک کی تجارت میں اضافہ کو فروغ دے رہی ہیں۔کمرشل کونصلر جنہیں سویڈن کے علاوہ فن لینڈ ، اسٹونیا، لٹویا، ناروے اور ڈنمارک کے ممالک میں پاکستان کی تجارت کو فرغ دینا تھا، انہوں جب سے سویڈن آئی ہیں کیا کارکردگی دیکھائی ہے۔ سفارت خانہ کی کرکردگی کیوں سست ہوگئی کہ یوم یکجہتی کشمیر کے پروگرام میں صرف پانچ لوگ شریک ہوئے۔ معاملات تو اور بھی کئی ہوں گے اور جب وزیر اعظم چھان بین کریں گے تو وہ سامنے آتے جائیں گے۔
ایک اور معاملہ کو نہ صرف سفارت خانہ بلکہ حکومت پاکستان کے لیے پریشانی کا باعث ہو رہا ہے اور سویڈن میں ساکھ کو بُری طرح متاثر ہررہی ہے وہ ہے سفارت خانہ کے ایک اور ملازم کے اہل خانہ کی جانب سے سویڈن میں سیاسی پناہ کی درخواست۔ کچھ ہی سال پہلے سفارت خانہ کے ایک ملازم پرویز مسیح نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ سویڈ ن میں سیاسی پناہ کی درخواست دی تھی۔ اس بار ایک اور ملازم گدا حسین اُجن جو کہ کونصلر سیکشن میں اہم ذمہ داری پر فائیز تھے انہوں نے اپنے بیٹے کے علاج کے لیے حکومت پاکستان کی جانب سے اخراجات ادا نہ کرنے اور اس کا تبادلہ واپس پاکستان کرنے کے خلاف اُن کے اہل خانہ نے گذشتہ ماہ سویڈن میں سیاسی پناہ کی درخواست دے دی جبکہ اُس نے خود پاکستان واپسی کے احکامات ماننے سے انکار کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے۔ سفارت خانہ کا موقف ہے کہ ساڑھے چھ لاکھ ڈالر یعنی پونے سات کروڑ جیسی خطیر رقم کی منظوری پر وزارت خزانہ نے اعتراض کیا ۔ اس کے بعد معاملہ وزیر اعظم پاکستان کے نوٹس میں لایا گیا۔حکومت نے فیصلہ کیا کہ یہ اخراجات تو سویڈن کے کارولنسکا ہاسپیٹل کو ادا کر دیے جائیں گے لیکن آئندہ کے لیے مزید اس طرح کے بڑے اخراجات سے بچنے کے لیے حکومت نے حسین اُجن کا اٹلی تبادلہ کیا جہاں سفارتی نمائندوں اور اُن کے اہل خانہ کا علاج کم خرچ پر ممکن ہے مگر انہوں نے انکار کردیا جس پر انہیں واپس پاکستان رپورٹ کرنے کا حکم دیا انہوں نے اُسے بھی ماننے سے انکار کردیا۔اس طرح کے واقعات اور معاملات سے بیرون ملک قومی وقار پر منفی اثر ات مرتب ہوں گے۔ پہلے ہی پاکستان کا امیج بیرونی دینا میں زیادہ اچھا نہیں اور ملکی سفار ت کی ذمہ داری رکھنے والوں کو اس کا احساس کرنا چاہیے۔ ۔ اگر ہم اُس ملک کے اچھا نہیں کرسکتے تو کم ازکم پُرا بھی نہ کریں۔

اپنا تبصرہ لکھیں