سونامی سے گمنامی تک

ڈاکٹر سلیم خان

نریندر مودی اور مہندر دھونی کا نہ صرف ردیف قافیہ یکساں ہے بلکہ ان دونوں کے ستارے بھی فی الحال یکساں طور پر گردش میں ہیں ۔ دھونی نے برطانیہ کی سرزمین پر پہلا میچ ڈرا کیا  دوسرے میں فتح حاصل کی اور جب لوگوں کو امید ہو چلی کہ ہندوستانی کرکٹ کے اچھے دن آ چکے ہیں اور جلد ہی ہماری ٹیم برطانیہ سے کامیاب و کامران ہو کر لوٹے گی تو اچانک ہوا کا رخ بدل گیا ۔  یکے بعد دیگرے تین ٹسٹ میچوں دھونی کو  منھ کی کھانی پڑی اور وہ ٹسٹ سیریز میں ۱ کے مقابلے ۳ سے ہارگئے۔  نریندر مودی نے بھی پارلیمانی انتخاب میں اوول جیسی کامیابی حاصل کی لیکن پھر اس کے بعد شروع ہو گئی بادِ خزاں ۔  اترانچل کے ضمنی انتخاب  میں کانگریس نے ایسا دھوبی پچھاڑ مارا کہ  بی جے پی تینوں نشستوں پرچاروں شانے چت ہو گئی ۔ اس کے باوجود میچ فکسنگ کرکےنریندر مودی اپنے چہیتے امیت شاہ کو مین آف دی میچ قرار دے دیا  ۔شاہ کے پارٹی کا صدر بن جانے کے باوجود بات بگڑتی ہی جارہی ہے ۔

پنجاب کے اندر معاملہ برابری پر چھوٹا ۔ وزیر دفاع ارون جیٹلی جو خود اپنا دفاع کرنے میں ناکام رہے تھے ایک اسمبلی حلقہ میں بھی اپنے امیدوار کو کامیاب نہیں کر پائے۔کانگریس کی پرنیت کو ر نے پٹیالہ میں زبردست کامیابی درج کروائی۔ لگتا ہےوزیر دفاع کی اس کمزوری سے پاکستانی بھی آگاہ ہو چکا  ہے  اس لئے سرحدپر گولہ باری میں آئے دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم کا ۵۶ انچ والا سینہ جو میاں مشرف کے خلاف خوب دہاڑتا تھا اب پچک کر ۵۶ سینٹی میٹر ہو گیا  ہے  اور اس میں آواز ہی نہیں نکلتی ۔

 پٹیالہ کے نتائج میں عام آدمی پارٹی کیلئے ایک بہت بڑا سبق ہے ۔ پارلیمانی انتخاب میں  جس حلقہ سے اس نے پرنیت کور کو شکست دی تھی وہیں پر اس کے امیدوار ہر جیت سنگھ کی ضمانت ضبط ہوگئی۔   پنجاب عاپ کا سب سے مضبوط قلعہ  سمجھا جاتاتھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب اس میں دراڑ پڑ گئی ہے ۔  تلونڈی سابو حلقۂ انتخاب  میں کانگریس کوخود گھر کے چراغ سے آگ لگ گئی ۔  مہندر سنگھ سدھو انتخاب سے قبل پالا بدل کر اکالی دل  میں شامل ہوگئے۔ اکالی دل نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور اسمبلی کے ٹکٹ سے نواز دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سدھو نے کانگریسی امیدوار ہرمندر سنگھ جسی کو شکست فاش سے دوچار کردیا ۔

کرناٹک میں جہاں تین ماہ قبل بی جے پی کو ۲۸ میں سے ۱۹ نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی سو دن کے اندر مودی کا جادو بے اثر ہو گیا اور اسے بیلاری کی نشست گنوانی پڑی ۔ بی جے پی ایم ایل اے سر رامالو کے ایم پی بن جانے  کے سبب یہ نشست سے خالی ہوئی تھی۔ یہ وزیر خارجہ سشما سوراج کے اثرو رسوخ والا علاقہ مانا جاتا ہے لیکن مرکزی وزیر اس اسمبلی حلقہ سے اپنی پارٹی کے امیدوار کو کامیاب کرنے میں ناکام رہیں۔ کانگریس نے چکوڑی پر اپنا قبضہ برقرار رکھا لیکن شکار پور جہاں سے یدورپاّ نے ۷ مرتبہ کامیابی حاصل کر چکے ہیں اس بار بی جے پی نے ان کے بیٹے  رگھویندر کو میدان میں اتارا۔

 نریندر مودی کانگریس کی موروثی سیاست پر تنقید کرتے نہیں تھکتے مگر جب  پارٹی کا نائب صدر اور رکن پارلیمان  یرورپاّ کے  حلقۂ انتخاب میں جانشین کی مجبوری آتی ہے تو نظر انتخاب ان کے بیٹے کے علاوہ کسی پارٹی کارکن پر نہیں پڑتی۔ شکارپور میں رگھویندر کی صرف ۴ ہزار ووٹوں کے معمولی فرق سے کامیابی یدورپاّ کے بھی ہوش اڑا دئیے  ۔ یدورپاّ نے اپنی پارٹی اور بیٹے دونوں کی کارکردگی پر این ڈی ٹی وی کے سامنے بلا جھجک  عدم اطمینان کا اظہار کردیا ۔ یہ بت اطمینانی بالآخر دہلی تک پہنچے گی اس لئے کہ فی الحال بنگلور میں کانگریس کی حکومت ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کیلئے سب سے زیادہ تشویشناک خبر مدھیہ پردیش سے آئی جہاں گزشتہ اسمبلی اور حالیہ پارلیمانی انتخاب میں اسے زبردست کامیابی ملی لیکن ایسا لگتا ہے کہ مرکز میں  نریندر مودی کی ناکامیوں کی قیمت اب وزیراعلیٰ  شیوراج چوہان کو بھی چکانی پڑے گی۔ چوہان آگار میں تو وہ اپنا قلعہ بچانے میں کامیاب ہوگئے لیکن باہوری بنڈ میں انہیں  ان کو پسینہ  چھوٹ گیا ۔ شیوراج کو اس کا احسا س  پہلے ہی ہو چکا تھا ۔  اس نشست بی جے پی کے ایم ایل اے پربھات پانڈے کا انتقال ہوا تو بی جے پی نے کرناٹک کے طرز پر ان کے بیٹے پرنوپانڈے کو ٹکٹ دے دیا لیکن مہم کے دوران جب بی جے پی کو اپنی کمزوری کا احساس ہوا تو خود وزیراعلیٰ نے وہاں اپنی ساری طاقت جھونک دی اورخود تین دنوں میں ۱۴ جلسوں سے خطاب کیا ۔ ان کے علاوہ ریاستی صدر نریندر سنگھ تومر نے دو دنوں تک مہم چلائی۔  چوہان نے اس ایک حلقۂ انتخاب میں کامیابی درج کرانے کیلئے سات وزراء کو تعینات کیا اس کے باوجود کانگریس کے امیدوار سوربھ سنگھ کو شکست نہ دے سکے ۔

اس انتخاب میں کانگریس نے اپنے سابق رکن اسمبلی نشت کمار کا ٹکٹ کا ٹ دیا  جو ؁۲۰۱۳ میں یہاں سے کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے  اور بہوجن سماج پارٹی کے سوربھ سنگھ کو پارٹی میں شامل کر کے ٹکٹ دے دیا۔ نشت کمار کانگریس سے اس قدر بددل ہوئے کہ انہوں نے چوہان اور تومر کی موجودگی میں بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی اور انتخابی مہم میں کھل کر کانگریس کی مخالفت کی  لیکن اس کا خاطر خواہ فائدہ  بی جے پی کو نہیں ہوا ۔ اس بار کی لڑائی ذات پات کی بنیاد پر لڑی گئی ۔ پانڈے چونکہ براہمن ہیں اس لئے ان کے خلاف سنگھ کو ٹکٹ دے کر کا نگریس نے راجپوت رائے دہندگان کو رجھانے کو شش کی اور دگ وجئے سنگھ اس کام کیلئے چوہان کے خلاف میدان میں اتر گئے ۔ تقریباً گیارہ سال بعد دگ وجئے نے اس محاذ پر شیوراج چوہان کو شکست فاش سے دوچار کیا جو ان کیلئے اچھے دنوں کی شروعات ہو سکتی ہےبشرطیکہ وہ دہلی کے بجائے بھوپا ل پر توجہ دیں۔

کانگریس کیلئے وجئے راگھو گڑھ میں تلونڈی کی کہانی دوہرائی گئی ۔  بی جے پی کے امیدوار سنجے پاٹھک  گزشتہ مرتبہ کانگریس کے امیدوار تھے اور انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی لیکن پارلیمانی انتخاب کے موقع پر ان کے پارٹی سے اختلافات ہوگئے اور وہ ناراض ہو کر بی جے پی میں شامل  ہو گئے ۔ بی جے پی ان کی خوب پذیرائی کی اور انہیں ٹکٹ سے نواز دیا نتیجہ یہ ہوا کہ کانگریس کو یہ سیٹ گنوانی پڑی اور سنجے پاٹھک بڑے آرام سے بی جے پی کے ایم ایل اے بن گئے  کوئی بعید نہیں کہ چوہان انہیں کوئی وزارت تھما کر ان کی خوشامد کریں ۔ کانگریس اگر اپنے ناراض کارکنان کو ساتھ رکھنے میں ناکام ہوتی ہے تو اس کے اچھے دن جلد نہ آسکیں گے اور اس کی ذمہ داری خود اس پر آئیگی۔

بی جے پی کو سب سے بڑا جھٹکا بہار میں لگا جہاں دس حلقۂ انتخاب پر قسمت آزمائی ہو رہی تھی ۔ ان میں سے ۶ بی جے پی کے قبضے میں تھی اور تین پر جے ڈی یو کا میاب ہوئی تھی اس طرح گویا بی جے پی اور اس کی حامی جماعت کو گزشتہ اسمبلی انتخاب میں  ۹نشستوں پر کامیابی ملی تھی ۔ اس بار اس کا ایک حلیف الگ ہو گیا تھا لیکن اس نے کئی نئے حلیف جوڑ لئے تھے۔ پارلیمانی انتخاب کے دوران اسے ۱۰ میں سے ۸ میں حلقوں اکثریت حاصل تھی مگر اب کی نقشہ بدل گیا ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی صرف ۴ نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکی اور ۶ لالو، نتش اورراہل الحاق کے قبضے میں چلی گئیں ۔  ان میں سے بھاگلپور ایک ایسا حلقۂ انتخاب ہے جہاں گزشتہ ۱۵ سالوں سے بی جے پی پرچم لہراتی آئی ہے لیکن وہاں اس کانگریس نے اسے دھول چٹا دی  جس کو صفٖحۂ ہستی سے مٹانے کیلئے وزیر اعظم مودی نے دھرم یدھ چھیڑ رکھا ہے۔

بہار کی اس شکست کیلئے بی جے پی  کے نائب صدر شاہنواز حسین نے ریاستی لیڈرشپ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے ۔شاہنواز حسین نے یہ بھی کہا کہ  یہ نتائج چونکہ توقع کے مطابق نہیں آئے ہیں اس لئے ان  کا موازنہ پارلیمانی انتخاب سے نہ کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ اگر نتائج  توقع کے مطابق آتے تو کیا اس وقت بھی موازنہ کرنے سے گریز کیا جاتا؟  یہ عجیب تماشہ ہے کہ کامیابی کیلئے تو مودی کو سارا کریڈٹ دے دیا جاتا ہے ۔ امیت شاہ کو سہرہ باندھ دیا جاتا ہے لیکن جب ناکامی ہاتھ لگتی ہے تو مقامی رہنماؤں کو ذمہ دار قرار دے دیا جاتا ہے ۔  سشیل مودی پارلیمانی انتخاب  میں جے ڈی یو کی ناکامی کے سبب نتیش سے استعفیٰ کا مطالبہ کررہے تھے اگر اس کے جواب میں اسمبلی کے ضمنی انتخاب کی ناکامی پر اگر کوئی نریندر سے استعفیٰ کا مطالبہ کربیٹھے تو بی جے پی کیا جواب دے گی ؟ کیا وہ اس بات کو تسلیم کرے گی کہ جس طرح یہ مطالبہ بچکانہ ہے اسی طرح وہ بھی ایک احمقانہ مطالبہ تھا۔

 بہار کے اندر نتیش کمار اور لالو پر شاد یادو نے جس سیاسی بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے وہ یقیناً قابل  تحسین ہے ۔ سب سے پہلے تو لالو یادو نے اپنے اختلاف کو بالائے طاق رکھ کرنتیش کی حکومت کو گرنے بچایا۔ اس کے بعد نتیش کمار نے وزیرا علیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے کر بی جے پی مخالفت کوبے اثر کردیا ۔ ضمنی انتخابات کا اعلان ہوا تو لالو اور نتیش نے مل جل کر انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا اور اس اتحاد میں کانگریس کو شامل کیا ۔ نشستوں کی تقسیم کو لے کر کوئی نتازعہ پیدا نہیں ہوا ۔ نتیش اور لالو نے چار چار اور کانگریس نے دو پر انتخاب لڑااور بی جے پی ہوا اکھاڑ دی ۔ اگر یہ تیسرے محاذ کی جماعتیں   آپس میں لڑنے کے بجائےاسی طرح ایک دوسرے کے اشتراک و تعاون سے کام کرتیں تو نہ کبھی بہار میں بی جے پی کو اقتدار میں حصہ ملتا اور نہ مرکز میں اس کی حکومت قائم ہوتی  لیکن جب سیاست میں خودغرضی اور ابن الوقتی کا دور دورہ ہوتا ہے تو سوجھ بوجھ کا اپنے آپ خاتمہ ہو جاتا ہے ۔ ان انتخابی نتائج کا سب سے اہم پیغام یہی ہے  کہ بی جے پی کا غبارے سے ہوا نکل چکی ہے ، نریندر مودی کی الٹی گنتی کا آغاز ہو چکا ہے اور وہ تیزی کے ساتھ سونامی سے گمنامی کی جانب رواں دواں ہے ۔

اپنا تبصرہ لکھیں