سانحہ بہاولپور اور ہماری پسپائی


حدِ ادب
انوار حسین حقی

_______________
سترہ اگست کا دن اس مرتبہ بھی ایک عام دن کی طرح گزر گیا۔ہمیں اس سانحے کی شدت اور اس کے پس منظر میں کارفرما سازشوں کا نہ تو کوئی ادراک ہے اور نہ ہی ہماری قوم یا قیادت اس بارے میں کچھ جاننا چاہتی ہے۔جس قوم کی سیاست اور قیادت کی منزل محض پانچ سال کا عرصہ اقتدار پورا کرنا ہو ۔وہ قوم باالکل پاکستانی قوم کی طرح ہوتی ہے۔ اس کے حالات بھی پھر ایسے ہی ہوتے ہیں۔جیسے ہمارے ہیں۔
شہدائے بہاولپور کو بھلانے کے حوالے سے قوم سے کیا شکوہ کیا جائے کہ جب جنرل ضیاء الحق شہید اور جنرل اختر عبد الرحمان شہید کی اولاد اور ان کے سیاسی وارث اور منہ بولے بیٹے میاں نواز شریف نے بھی سب کچھ بھلا دیا۔26 سال کا عرصہ گذرنے کے باوجود ہم صدرِ پاکستان اور پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کے قاتلوں کو بے نقاب نہیں کر سکے۔
ان چھبیس سالوں میں قوم کے ساتھ مذاق کیا جاتا رہا۔ہماری قیادت ، سول اور عسکری بیورو کریسی ہمیشہ عوام کے لئے ذہنی اذیت اور کرب کا سامان پیدا کرتی رہتی ہے۔دو سال پہلے ایک ایسی ہی مشقِ ستم کا سلسلہ آئی بی کے سابق سربراہ بریگیڈیئر ( ر) امتیاز نے دراز کیا تھا بریگیڈئیر (ر ) امتیاز نے ایک نجی ٹی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ سابق صدر جنرل محمدضیاء الحق کا طیارہ امریکہ نے بعض اندرونی قوتوں کے ساتھ مل کر تباہ کر وایا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادے محمد اعجاز الحق نے بھی کئی مرتبہ کہا ہے کہ امریکہ نے سی ون تھرٹی کے طیارے میں جاں بحق ہونے والوں کا پوسٹ مارٹم رکوا دیا تھا۔
بریگیڈئیر امتیاز نے ” سانحہ بہاولپور” کے حوالے سے 23سال بعد اس سانحہ ملوث قوتوں کی ادھوری نشاندہی کرنے کی کوشش کی تھی۔انہوں نے امریکہ کا نام تو لیا تھا لیکن ان قوتوں اور شخصیات کو نے نقاب کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی جو بقول اُن کے جنرل ضیاء الحق کے طیارے کی تباہی کی سازش میں امریکہ کہ آلہ کار بنی تھیں۔بریگیڈئیر امتیاز کا انکشاف کس حد تک سچائی پر مبنی ہے اس بات کو ایک طرف رکھتے ہوئے آئی بی کے سابق سربراہ کی طرف سے کئے جانے والے انکشاف کی اخلاقی حیثیت پر غور کیا جائے تو حرمتِ قلم کے ایک تاجدار ” محمد طاہر ” کے یہ الفاظ میرے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو جاتے ہیں کہ ”وہ سچ جو انتظار کرکے بو لا جائے، جس کے اظہار میں کوئی خطرہ نہ رہ جائے ا ور جس پر بولتے، سنتے،اور سوچتے ہوئے اسے خود” سچ ” سمجھنا دشوار ہو جائے ۔ ایسے سچ کی پرورش ذہنی عیاریاں اور فکری آوارگیاں کرتی ہیں۔اظہارِ صداقت ان لوگوں کو مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ یہ لوگ بنیادی طور پر صداقت کا مُثلہ کرنے کے مشن پر مامور ہوتے ہیں۔”
بریگیڈئیر ( ر) امتیاز نے جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حوالے سے انکشاف کیا تھا یا جو سچ بولاتھا۔ اس کے حوالے سے قوم کے ذہنوں میں یہ سوال ابھرا تھاکہ بریگیڈئیر (ر) امتیاز کا ” یہ سچ” 23 سال سے زائد عرصہ تک مصلحت کے سیاسی مقبرے میں کیوں دفن رہا۔ان گذرے بیس سالوں کے دوران ان کے ضمیر نے ایک بار بھی انہیں نہیں جھنجوڑا۔ نہ جانے کیوں اب باسی کڑھی میں اچانک اُبال کیسے آگیا ہے وہ دو عشروں کے بعد بھی ادھورا سچ بول رہے ہیں اور ایک ایسے قومی سانحہ میں ملوث قوتوں کو پورے طور پر بے نقاب کرنے کی جرائت نہیں کر پارہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں پاک فوج اپنی اعلیٰ ترین قیادت سے محروم ہو گئی تھی۔
یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے مجھے بڑی اذیت کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ ہماری قوم کی بد قسمتی ہے کہ اپنے تاریخی راز جاننے کے لئے اِسے ایسے لوگوں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے جن کی زندگیاں اور کردار خود سازشوں سے جڑا ہوتا ہے۔بریگیڈئیر ( ر) امتیاز کی طرف سے بولے جانے والے اس ادھورے سچ سے قوم کی اذیت میں مزید اضافہ ہوگیاتھا اور قوم ابھی تک اس معاملے میں سسک اور تڑپ رہی ہے۔
سترہ اگست 1988 ء کو تین بج کر اکیاون منٹ پر بہاولپور کے نزدیکی علاقے ” بستی لال کمال ” پر گر کر تباہ ہونے والے C-130 طیارے( پاک ون ) میں سوار پاک فوج کی اعلیٰ قیادت او ر افغان جہاد کے عالی دماغ جن میں جنرل ضیاء الحق، جنرل اختر عبد الرحٰمن، لیفٹیننٹ جنرل میاں محمد افضال، میجر جنرل شریف ناصر، میجر جنرل عبد السمیع، میجر جنرل میر حسن، بریگیڈئیر نجیب احمد،برگیڈئیر عبد الماجد، بریگیڈئیر عبد الطیف، بریگیڈئیر معین الدین احمد، بریگیڈئیر صدیق سالک، کرنل صفدر محمود،کیپٹن زاہد فاروق سمیت ایئر فورس کے عملے اور صدر کے ذاتی سٹاف کے ارکان شہید ہو گئے تھے۔ یہ ایک بہت بڑاسانحہ اور حادثہ تھا۔ اتنے افسران تو پاک بھارت کے درمیان ہونے والی دو جنگوں میں بھی شہید نہیں ہوئے تھے۔ بد قسمت طیارے میں سوار امریکی سفیر آرنلڈ رافیل اور امریکی سفارتخا نے کے ملٹری اتاشی بریگیڈئیر واسم بھی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حادثے کے بعدایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ بعض قوتیں غیر محسوس انداز میں معاملے کو دبانے کی جد و جہد میں مصروفِ عمل ہو گئی تھیں۔ اگرچہ 17 – اگست1988 ء کو پاک فضائیہ کے سر براہ ایئر چیف مارشل حکیم اللہ نے پی اے ایف کا بورڈ آف انکوائری قائم کیا ۔امریکی ائیر فورس کے چھ افسران کی ایک ٹیم نے مذکورہ بورڈ کو فنی اور مشاورتی تعاون بھی فراہم کیا تھا۔ حادثے ہی کے روز پنجاب پولیس کے اے ایس آئی عبد لغنی کی جانب سے تھانہ لودھراں میں رپورٹ درج کروائی گئی۔
دس ستمبر 1988 ء کو ہی صدرِ پاکستان غلام اسحٰق خان نے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی جس میں ڈی جی ایف آئی اے،ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے،ایڈیشنل آئی جی پنجاب پولیس، چوہدری اعجاز حسین ڈپٹی ڈائریکٹر آئی بی شامل تھے جبکہ ایف کے بندیال سیکرٹری ریاستی امور و سرحدی علاقہ جات خصوصی رابطہ کار مقرر ہوئے۔13 ستمبر 1988 ء کو تھانہ لودھراں میں اس واقعہ کے حوالے سے فوجداری مقدمہ درج ہوا۔ یکم نومبر1988 ء کو ہیڈ کوارٹر 31 کور نے ” کورٹ آف انکوائری ”کا تقرر کیا۔ جون1989 ء میں امریکی ادارے ایف بی آئی کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا۔مئی تا جولائی1989 ء میں امریکی عدلییہ کی سب کمیٹی کی سماعت اور بیانات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔10 جون 1991 ء کو اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری شجاعت حسین کی سر براہی میںاعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دی گئی۔گیارہ اگست1992 ء کو وزارتِ داخلہ حکومتِ پاکستان نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے جناب جسٹس شفیع الرحمٰن کی سربراہی میں ایک عدالتی کمیشن کا تقرر کیا جس میں جناب جسٹس شیخ ریاض احمد ( لاہور ہائی کورٹ) اور جناب جسٹس امام علی جی قاضی( سندھ ہائی کورٹ) بطور ارکان شامل تھے۔اس کمیشن نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ حکومت کو پیش بھی کر دی تھی لیکن اس کے باوجود سانحہ بہاولپور اسرار کے پردوں میں لپٹا ہوا ہے۔
سابق صدر جنرل محمد ضیاء الحق اور ان کے رفقاء کا ائک فضائی حادثے میں جاں بحق ہو جانے کے واقعہ کو قومی سانحہ سمجھنے والی قوم اب تک ایک قومی المیئے سے دو چار ہے۔کہ ان تک سچ اپنی اصل شکل میں نہیں پہنچ پاتا۔وہ شکوک و شبہات کی دلدل میں پھنسا اور دھنسا ہوتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں سچ بولنا ہمیشہ خطر ناک رہا ہے۔اظہارِ صداقت کو ہمیشہ طاقت سے خطرہ رہتا ہے۔اس لئے بیشتر سچ تاریخ کے سینے میں دفن ہو گئے ہیں جبکہ بے شمار جھوٹ اس سچائی کا روپ دھار چکے ہیں جن کا مناسب محاکمہ بھی ممکن نہیں رہا۔اور کیوں نہ ہو جس ملک میں بے ضمیری کی منزل اقتدار ہو ، جہاں سچ پر ایوانوں کا پہرہ ہو،جہاں ” حب الوطنی پر سنگین قبضہ ہو وہاں حقائق گھٹ گھٹ کر مر ہی جایا کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں تاریخ کا چہرہ نقابوں میں رہتا ہے۔اور یہ سب کچھ عظیم تر قومی مفاد کی چھتری تلے ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ لکھیں