سازش میں اصل کردار افتخار چودھری کا تھا

محمد عبد الحمید
اوائل 2006 کا ذکر ہے۔ کسی نے پوچھا،:”پرویز مشرفر کا مستقبل کیا ہے؟” اس سوال کا جواب قیاس آرائی سے ہی دیا جا سکتا تھا کیونکہ حالات میں خطرہ والی کوئی بات نہ تھی۔ معیشت کی حالت 1999 کے مقابلہ میں بہت بہتر تھی۔ معاشی ترقی کی رفتار بڑھتے بڑھتے آٹھ فی صد سے زیادہ ہو چکی تھی۔ برامدات، جو کبھی آٹھ بلین ڈالر سے زیادہ نہ ہوئی تھیں، دگنی سے زیادہ ہو چکی تھیں۔ برامدات کے درامدات سے ہر سال زیادہ ہونے کی بنا پر زرمبادلہ کے ذخائر 18 بلین ڈالر کے قریب ہو چکے تھے۔
کالاباغ بند بنانے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ واپڈا نے عالمی ٹھیکیداروں کو بتا دیا تھا کہ اسی سال ستمبر میں ٹینڈر طلب کیئے جائیں گے۔ (بعد میں چودھری شجاعت نے 2007 میں الیکشن کے پیش نظر تعمیر کا فیصلہ ملتوی کرا دیا۔) کشمیر کے بارے خود ہندوستان کے بقول 80 فی صد سمجھوتہ ہو چکا تھا۔ اگر منموہن سنگھ فوج کا دبائو نظرانداز کر کے اسلام آباد آ جاتے تو باقی امور طے کر کے تصفیہ ہو جاتا۔
معاشی صورت حال بہتر ہونے کے نتیجہ میں پہلی بار عالمی مالیاتی فنڈ (آئی۔ ایم۔ ایف۔) کا پروگرام ختم کیا جا چکا تھا، یہاں تک کہ قرضہ کی آخری قسط لینے سے انکار کر دیا گیا۔ اس سے پہلے چین سے جے۔ ایف۔17 اور جے۔10 جہازوں کے بارے میں سمجھوتوں کے بعد ایف-16 کی ضرورت نہ رہی۔ (اب آپ نے یف۔16 کی خرید کے بارے میں کبھی کوئی خبر پڑھی ہے؟) یوں امریکہ کی محتاجی ختم ہو گئی۔ ظاہر ہے اسے یہ انقلابی تبدیلی گوارا نہ تھی۔
ان حالات میں پرویز مشرف کے اگلی میعاد کے لیئے منتخب ہونے اور ان کی جماعت کی عام انتخابات میں کامیابی میں کوئی رکاوٹ نظر نہ آتی تھی۔ تاہم دور افق پر کالی گھٹا چھا رہی تھی۔ امریکہ کے جرنیل اور جاسوس افغانستان میں بری طرح ناکام ہو رہے تھے لیکن وہ رویز مشرف پر الزام لگا رہے تھے کہ وہ پوری طرح ساتھ نہیں دے رہے۔ چنانچہ وہ صدر جارج بش کے مسلسل انکار کے باوجود کوشاں تھے کہ ان کی پسند کا جرنیل آرمی چیف بنے۔
پرویز مشرف کو ہٹانے کے لیئے کیا کیا جا سکتا تھا؟ اس سے پہلے ہماری تاریخ میں ہر دفعہ حکومت گرانے کے لیئے مختلف طریقہ استعمال کیا گیا۔ ایوب خاں کے خلاف پہلے عوامی تحریک چلائی گئی اور پھر آرمی چیف سے بغاوت کرائی گئی۔ یحیی خاں کو فوج کے اندرونی دبائو سے استعفا دینا پڑٹا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو رفیع رضا وغیرہ کے ذریعہ پروگرام سے ایک سال پہلے الیکشن کرانے پر آمادہ کرایا گیا، پھر دھاندلی اور نظام مصطفی کے نام سے تحریک چلائی گئی اور آخر کار پھانسی دلوا دی۔ ضیا الحق کو ہوا میں ہلاک کرایا گیا۔ اس دوران، سیاسی حکومتیں کاغذی جہاز ثابت ہوئیں، جنھیں ایک پھونک سے ڈبویا جا سکتا تھا۔ نواز شریف کو دوسرے دور میں ہٹانے کا منصوبہ کچھ اور تھا،جس میں فوج کا کوئی دخل نہ ہوتا لیکن وزیر اعظم نے دو ہفتے پہلے ہی اپنے پائوں پر کلہاڑی مار لی، جس کا نتیجہ انھیں بڑی دیر تک بھگتنا پڑا۔
اب ایک ہی طریقہ بچا تھا اور امریکہ نے اسے ہی پرویز مشرف کے خلاف استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیئے بہت پہلے تیاری شروع کی گئی۔ افتخار چودھری کہ شہرت تھی کہ بڑے تابعدار قسم کے جج ہیں۔ اسی لیئے پہلے کوئٹہ عدالت عالیہ کے سربراہ بنے اور پھر عدالت عظمی کے چیف جسٹس بنے۔ وہ صدر کو کارکردگی کی سالانہ رپورٹ پیش کیئے کرتے، جب کہ عدلیہ کے انتظامیہ سے الگ ہونے کی بنا پر آئینی اور قانونی طور پر اس کی نہ ضرورت اور نہ اجازت۔ پھر وہ پر رزے نکالے لگیاور حکومت کے خلاف فیصلے دینے لگے تاکہ ان کی شہرت دلیر اور نڈر جج کی بن جائے۔
وسط فروری 2007 میں وکیل نعیم بخاری نے چیف جسٹس کے خلاف کھلا خط لکھا، جس میں سنگین الزامات لگائے گئے۔ عام حالات میں کوئی وکیل ایسا قدم نہ اٹھاتا کہ دریا میں رہتے ہوئے مگرمچھ سے بیر والا معاملہ ہو جاتا۔ کوئی وکیل چیف جسٹس کو دشمن نہیں بنا سکتا، جب اس کے نتیجہ میں اس کے مقدمات کی سماعت ہی لٹکی رہے یا فیصلہ ہر دفعہ اس کے خلاف ہو۔ ظاہر ہے نعیم بخاری کو کسی نے یقین دلایا ہوگا کہ انھیں کچھ نہیں ہوگا۔ (انھی دنوں انھوں نے کسی اشتہاری ایجنسی کی ڈیڑھ ملین روپے کی پیشکش رد کر دی، جو چاہتی تھی کہ انھیں ایک اشتہار میں “””کھلا خط”” لکھتے ہوئے دکھایا جائے۔)
بے شمار معاملات میں از خود نوٹس لینے والے چیف جسٹس سے توقع تھی کہ نعیم بخاری کو توہین عدالت کے جرم میں فورا چھ ماہ کی سزا دے کر ان کا مستقبل تاریک کر دیں گے۔ لیکن کچھ نہ ہوا۔ ڈر تھا کہ نعیم اپنی صفائی دیتے ہوئے ہر الزام کا ثبوت یش کر دیں گے اور یوں سچ کہنے کی بنا پر انھیں سزا دینا ممکن نہ ہوگا۔
دریں اثنا، اسلام آباد کے ایک وکیل نے چیف جسٹس کی عدالت میں درخاست دے دی کہ نعیم بخاری ہر توہین عدالت پر مقدمہ چلایا جائے۔ حیران کن طور پر چیف جسٹس نے 7 مارچ کو یہ درخاست واپس لینے کی بغیر کوئی سوال کیئے اجازت دے دی، جبکہ توہین کے بارے میں عدالت ہی فیصلہ کر سکتی تھی۔
اس دوران صدر کو پشاور عدالت عالیہ کے جسٹس جہان زیب کی شکائت ملی کہ ان کے ایک ذاتی کیس میں چیف جسٹس نے دانستہ ان کے خلاف فیصلہ دیا۔ اس لیئے ان کی شکائت سپریم جوڈیشنل کونسل میں کاروائی کے لیئے بھیجی جائے۔ افتخار چودھری کو بھی خبر ہو گئی۔ انھوں نے صدر کے ملٹری سیکرٹری سے 9 مارچ کو ملاقات کے لیئے وقت مانگا۔ انھیں بتایا گیا کہ صدر اس دن کراچی جا رہے ہیں۔ بہرحال، اصرار پر انھیں وقت دے دیا گیا۔
چیف جسٹس گئے تھے درخاست کرنے کہ جسٹس جہان زیب کی شکائت رفع دفع کر دی جائے لیکن ملاقات کے دوران انھیں الزامات کے بارے میں فائل دکھائی گئی، جن میں سے بیشتر نعیم بخاری کے کھلے خط میں بھی شامل تھے۔ کئی باوردی جرنیلوں کی موجودگی میں مطالبہ کیا گیا کہ چیف جسٹس استعفا دے دیں۔ ورنہ معاملہ سپریم جوڈیشنل کونسل میں بھیجا جائے گا۔ انھوں نے انکار کر دیا۔
انکار کیوں کیا گیا؟ آے۔ آر۔ وائی۔ کے صابر شاکر کہتے ہیں کہ انکار کرایا گیا۔ کس نے؟ جنرل اشفاق پرویز کیانی اس وقت ڈائریکٹر جنرل، آئی۔ ایس۔ آئی۔ تھے۔ جن جرنیلوں نے بعد میں صدر کے ریفرینس کی تائید میں بیانات حلفی داخل کِیئے، ان میں کیانی شامل نہیں تھے۔ بعد میں وہ آرمی چیف بھی پرویز مشرف کی مرضی کے خلاف اور امریکہ کی حمائت سے بنے۔ تو کیا انھوں نے میٹنگ سے پہلے انکار کرنے کا پیغام دیا؟
افتخار چودھری کو الزامات کی فائل کے مطالعہ کے لیئے تنہا چھوڑ کر سب لوگ چلے گئے۔ فائل پڑھنے پر معلوم ہوا کہ ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ کہیں انکار مہنگا نہ پڑ جائے۔ چنانچہ چیف جسٹس نے صدر سے دوبارہ ملنا چاہا۔ بتایا گیا کہ وہ نماز جمعہ کے لیئے چلے گئے ہیں۔ وہیں سے کراچی کے لیئے روانہ ہو جائیں گے۔
شیخ رشید احمد کے مطابق، افتخار چودھری نے چھ ہفتوں کے دوران تین چار بار پیغام بھیجا کہ انھیں بحال کر دیا جائے تو وہ ہنگامی حالت کی توثیق کر دیں گے۔ جواب ملا، “آپ پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔”دراصل، بھروسہ پہلے ہی ختم ہو گیا، جب چند ہفتے پہلے چیف جسٹس نے ڈیفینس کالج میں لیکچر کے بعد میڈیہ کے سوال پر کہا تھا کہ صدر کے وردی میں اگلا الیکشن لڑںے پر فیصلہ وقت آنے پر “میرٹ پر کیس جائے گا۔”
اس کے بعد ریفرینس پر صدر کی ٹیم نے پے در پیغلطیاں کیں۔ سپریم جوڈیشنل کونسل میں چیف جسٹس، عدالت عظمی کے دو سب سے سینیئر جج، اور صوبوں میں سے دو سب سے سینیئر چیف جسٹس شامل ہوتے ہیں۔ اسی دن صبح ہی کراچی اور لاہور سے چیف جسٹس خاص جہاز سے بلا لیئے گئے، جبکہ ابھی نہ کونسل کی تشکیل ہوئی تھی اور نہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرینس کونسل کو ملا تھا۔ چیف جسٹس کونسل میں نہیں بیٹھ سکتے تھے کیوں کہ انھی کے خلاف ریفرینس تھا۔ ان کی جگہ دوسرے سب سے سینیئر جج، جسٹس بھگوان داس، نے بیٹھنا تھا لیکن وہ ہندوستان گئے ہوئے تھے اور مارچ کے آخر میں آنے والے تھے۔ ان کا انتظار کیئے بغیر تیسرے نمبر کے جج کو کونسل کا سربراہ بنا دیا گیا۔ ساتھ ہی چیف جسٹس کو معطل کر دیا گیا۔
صحیح طریقہ کیا ہوتا؟ جسٹس جہان زیب کی شکائت کے بارے میں چیف جسٹس کی بات سن کر کہا جاتا “”دیکھیں گے”” اور انھیں واپس بھیج دیا جاتا۔ پھر طریق کار کے بعد جسٹس جہانزیب کی شکائت سپریم جوڈیشنل کونسل کو بھیج دی جاتی۔ جب کونسل کی رسمی طور پر تشکیل ہو جاتی اور وہ شکائت پر سماعت کرنے لگتی تو افتخار چودھری کے خلاف ریفرینس بھی کونسل کو بھیج دیا جاتا۔ روٹین کے مطابق کاروائی ہوتی۔ دریں اثنا، بھگوان داس بھی آ جاتے۔ اس طرح اعتزاز احسن کے اٹھائے ہوئے اعتراضات پیدا ہی نہ ہوتے۔ کونسل میں صورت حال یہ تھی کہ پانچ میں سے تین ججوں سے افتخار چودھری کی بول چال ہی بند تھی۔ پھر مبینہ طور پر ریفرینس میں کچھ مواد عدالت عظمی کے ججوں نے مہیا کیا تھا۔ چنانچہ ریفرینس کا فیصلہ آسانی سے ان کے خلاف ہو جاتا۔ لیکن پھر امریکہ کا کھیل کیسے پورا ہوتا؟
ایک جرنیل سے قانونی معاملات سے پوری طرح آگاہی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ چنانچہ پرویز مشرف کے اردگرد بعض افراد نے دانستہ معاملہ خراب کر دیا۔ انھوں نے دعوی تو کیا کہ افتخار چودھری ایک ہفتہ میں نکال دیئے جائیں گے لیکن ایسے غلط قدم اٹھائے، جن کے نتیجہ میں فارغ کرنا آسان تو کیا ممکن ہی نہ رہا۔
جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے۔ صدر کی قانونی ٹیم کی حماقت سے اعتزاز احسن کو موقع مل گیا (یا انھیں دانستہ دیا گیا)۔ وہ معاملہ عدالت عظمی میں لے گئے۔ ان کے دو بڑے اعتراض تھے۔ اول، سپریم جوڈیشنل کونسل کی تشکیل صحیح طور پر نہیں ہوئی۔ دوم، ریفرینس ملنے اور کونسل کی تشکیل سے پہلے ہی کراچی اور لاہور سے چیف جسٹس خاص جہاز سے لائے گئے، جس سے حکومت کی بدنیتی ظاہر کرتی ہے۔
کئی ہفتے سماعت جاری رہی۔ کہا جاتا ہے کہ اس دوران جنرل کیانی نے بینچ کے سربراہ جسٹس رمدے سے پوچھا تو انھیں یقین دلایا گیا، “فلر نہ کریں، فیصلہ صدر کے حق میں آئے گا۔” کیانی نے صدر کو بتا دیا، جس پر انھوں نے اعلان کر دیا کہ”عدالت جو فیصلہ کرے گی، انھیں منظور ہوگا۔” فیصلہ بالکل برعکس آیا۔ کیانی تو غلط بیانی نہیں کر سکتے تھے کیوں کہ حقیقت کا پتہ چلنے پر آرمی چیف انھیں سبکدوش کر دیتے۔
جس دن سماعت ہوتی، عدالت کے باہر تماشہ لگ جاتا۔ ہر پیشی پر بہت سے لوگ لائے جاتے، جو دن بھر وہاں رہتے۔ ٹیلیویژن چینلوں کے مبصر براہ راست نشریات کے لیئے ڈائس لگا کر بیٹھ جاتے۔ رات کو ٹاک شو پر ہر طرح کے دھواں دار تبصرے حکومت کے خلاف کیئے جاتے۔ افتخار چودھری مختلف شہروں میں وکیلوں سے خطاب کرنے جاتے، گویا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اسلام آباد سے لاہور قافلہ کی صورت میں سفر کیا، جس میں 30 سے زیادہ گھنٹے لگے، جسے براہ راست اور لگاتار نشر کرنے کے لیئے چینل والوں نے سارے اشتہارات منسوخ کر دیئے۔
یہ سب کچھ بلاجواز اور نہائت نا مناسب تھا۔ صدر کے ساتھی اگر سمجھدار اور مخلص ہوتے تو پہلے دن ہی عدالت سے حکم لے کر ہر قسم کے مظاہرے رکواتے، میڈیہ میں ہر قسم کے تبصرے بند کراتے اور افتخار چودھری کی سرگرمیوں پر پابندی لگواتے۔ لیکن انھوں نے کچھ نہ کیا اور قانونی مقدمہ کو سیاسی مسئلہ بننے دیا۔
تحریک میں روپیہ پانی کی طرح بہایا گیا۔ ٹیلی ویژن پر گھنٹوں تک براہ راست نشریات بلامعاوضہ نہ تھیں۔ لاہور عدالت عالیہ کی بار نے افتخار چودھری کے استقبال کے لیئے تقریبا ڈیڑھ کروڑ روپیخرچ کیئے جب کہ بار کی سکرٹری مالیات کے مطابق ان کے پاس بجلی کا بل ادا کرنے کے لیئے بھی پیسے نہ تھے۔ ایک خبر چھپی کہ اسلام آباد میں کسی وکیل کی کال سنی گئی، جو کسی سے کہہ رہے تھے کہ فلان کو اتنے پیسے دے دو، فلاں کو اتنے دے دو۔ بعد میں خبر دبا دی گئی۔ تفصیل آ جاتی تو تحریک بلبلہ کی طرح بیٹھ جاتی۔
اتنا پیسہ کہا سے آیا؟ بتایا گیا کہ زیادہ امریکہ نے اور کچھ ہندوستان نے دیا۔ اربوں تک کا ذکر سنا گیا۔ بغیر وجہ کوئی اتنا پیسہ نہیں لگاتا۔ مقصد پرویز مشرف کو اتنا کمزور کرنا تھا کہ انھیں آسانی سے ہٹایا جا سکے۔
افتخار چودھری کو بچانے کے لیئے باقی ججوں نے ایکا کر لیا لیکن ان کا فیصلہ سوال گندم جواب چنہ کے مصداق تھا۔۔ انھیں صرف یہ حکم دینا چاہیئے تھا کہ ریفرینس طریق کار کے مطابق دائر کیا جائے اور کونسل کی تشکیل بھی صحیح طریقہ سے کی جائے۔ اس کی بجائے، انھوں نے چیف جسٹس کی بحالی کو بنیادی سوال بنا دیا۔
مانا کہ افتخار چودھری کی برطرفی غیرقانونی تھی اور انھیں بحال کر کے ٹھیک کیا گیا۔ تاہم اصل سوال تو صدر کے ریفرینس کا تھا، جس کے خلاف درخاست لے کر اعتزاز عدالت عظمی میں گئے تھے۔ اس کے بارے میں جو کہا گیا اس سے لگتا ہے کہ عالی ترین عدالت کے ججوں کو نہ قانون کا پتہ ہے اور نہ انگریزی آتی ہے۔ فیصلہ تھا کہ ہم ریفرینس کو set aside کرتے ہیں۔ یہ اصطلاح اس موقع پر استعمال ہوتی ہے، جب کسی نچلی عدالت کا فیصلہ بالائی عدالت منسوخ کر دے۔ یہاں تو ریفرینس تھا، جس کے بارے میں فیصلہ صرف سپریم جوڈیشنل کونسل کر سکتی تھی۔ عدالت صرف یہ کر سکتی تھی کہ ریفرینس صدر کو واپس کر دے۔ وہ چاہتے تو دوبارہ دائر کر سکتے تھے۔
اگر صدر کا کوئی سمجھدار دار مشیر ہوتا تو مشورہ دیتا کہ خود ہی ریفرینس واپس لے کر طریق کار کے مطابق دوبارہ دائر کریں۔ وہی کونسل اسے سنتی اور فیصلہ آسانی سے افتخار چودھری کے خلاف ہو جاتا۔ یہ کام آصف زرداری بھی کر سکتے تھے۔ لیکن امریکہ کی مرضی کے خلاف کون جا سکتا تھا؟
جون میں افتخار چودھری کی بحالی کے فیصلہ کے بعد بیرونی سرمایہ سے چلنے والی مہم ختم ہو جانی چایئے تھی لیکن ابھی صدر کو کاری ضرب لگائی جانی تھی۔ صرف زک پہنچانا کافی نہ تھا۔ اس وقت تک اانتظار کیا گیا جب چند ماہ بعد صدر کے وردی میں انتخاب کے خلاف درخاست آئی۔
20 جون کو افتخار چودھری کی بحالی کا فیصلہ بھی درست نہ تھا۔ طریقہ یہ ہے کہ کسی مقدمہ میں مفصل فیصلہ 90 دن تک نہ لکھا جائے تو وہ ساقط ہو جاتا۔ رمدے نے فیصلہ لکھنا تھا۔ وہ یورپ کے تفریحی دورہ پر نکل گئے۔ یہاں تک کہ صدر کے الیکشن کے خلاف درخاست آ گئی لیکن فیصلہ نہ لکھا گیا۔
صدر کے مشیروں نے آئین میں 17ویں ترمیم میں ایک سوراخ دانستہ یا نادانستہ رکھ دیا تھا، جس سے صدر کو ڈسا گیا۔ صدر کا انتخاب میعاد ختم ہونے کے بعد کرانے کی بجائے پہلے کرانے کا کہا گیا تاکہ موجودہ اسمبلیاں ہی سے کرایا جا سکے۔ صدر کے وردی میں الیکشن لڑنے کی بھی گنجائش رکھی گئی۔ لیکن وردی میں رہنے کی میعاد 15 نومبر 2007 رکھی گئی۔ اگر یہ تاریخ نہ دی جاتی اور وردی اتارنے کا فیصلہ پرویز مشرف کی صواب دید پر چھوڑ دیا جاتا تو نہ صدر کے الیکشن کو چیلنج کیا جا سکتا اور نہ ہنگامی حالت نافذ کرنے کی کی ضرورت پڑتی۔ لگتا ہے یہ سقم امریکہ نواز مشیروں نے جان بوجھ کر رکھا تاکہ وقت آنے پر استعمال کیا جا سکے۔
جب درخاست آئی کہ صدر وردی میں الیکشن نہیں لڑ سکتے تو اس کا فیصلہ الیکشن سے پہلے ہو جانا چاہیئے تھا لیکن یہ کہہ کر ٹال دیا گیا کہ الیکشن کے بعد کریں گے۔ یہ ایسے ہی تھا کہ شادی ہو جانے دیں، بعد میں دیکھیں گے کہ نکاح ہو سکتا تھا یا نہیں۔ التوا سے پہلے وکیل سارے دلائل دییچکے تھے۔ فریقین کی بحث بھی ہو چکی تھی۔ مزید کہنے کو کچھ نہ تھا۔ پھر بھی سماعت لٹکائی جاتی رہی۔ ایک ہفتہ کا التوا اس لیئے کیا گیا کہ ججوں نے ایک ساتھی کی بیٹی کی شادی میں شرکت کے لیئے کوئٹہ جانا ہے۔ اس وقت کچھ تیزی آئی جب سابق چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی نے ٹیلی ویژن پر ملامت کی کہ اتنا اہم کیس سست روی سے سنا جا رہا ہے۔ افتخار چودھری کی کوشش تھی کہ 15 نومبر آنے دی جائے۔ اس کے بعد فیصلہ دیا جائے کہ منٹخب ہو جانے کے باوجود پرویز مشرف صدر رہنے کے اہل نہیں۔ یوں وردی میں الیشن لڑنے کا سوال نظرانداز ہو جاتا۔
دوڑنے والوں کے لیئے میدان ایک جیسا ہوتا ہے۔ دوسرا فریق بھی چال سمجھ رہا تھا۔ انٹیلیجنس بیورو نے رپورٹ دی کہ بہشتر جج صدر کے خلاف فیصلہ دیں گے۔ چنانچہ 3 نومبر کو آئین معطل کر کے عدالت عظمی کے چند اور نچلی سطحوں کے بہت سے جج برخاست کِر دیئے گئے۔ مزید کوئی کاروائی کیئے بغیر چھ ہفتوں بعد آئین بحال کر دیا گیا۔ اب صرف اس بنا پر پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ بنایا گیا ہے، جب کہ افتخار چودھری نے اس سے کہیں زیادہ جج اس بنا پر فارغ کر دیئیکہ انھوں نے ان کے 3 نومبر کے حکم کی تعمیل نہ کی، جو غیر قانونی اور غیر آئینی تھا۔ یہ تو آئین کی کہیں بڑی خلاف ورزی تھی۔ تاہم اسے “انصاف” قرار دیا گیا۔
سنا ہے افتخار چودھری سبک دوشی کے بعد اپنی پارٹی بنائیں گے۔ اس سلسلہ میں انھیں امریکہ سے بڑی توقعات ہیں، جس کی خاطر انھوں نے کئی کام کیئے:
میموگیٹ امریکہ کے خلاف تھا۔ چنانچہ اسے دبادیاگیا اور بڑے مجرم، حسین حقانی، کو یہ جانتے ہوئے بھی باہر جانے دیا گیاکہ وہ عدالت میں پھر کبھی پیش نہیں ہوگا۔
کئی سالوں تک “مبینہ لاپتہ افراد” کا مسئلہ اٹھایا جاتا رہا۔ یہ افراد وہ دہشت گرد ہیں، جو امریکہ اور ہندوستان کی پشت پناہی سے بلوچستان کی علیحدگی کے لیئے تخریبی کاروائی کر رہے تے۔ امریکہ کے دو مقاصد تھے۔ اگر یہ افراد پیش کر دیئے جائیں تو عدالت انھیں عدم ثبوت یا اس بارے میں کوئی قانون نہ ہونے کی بنا پر رہا کر دے گی۔ اگر رہا نہ ہوں تو بار بار پیشی سے فوج کی وردی پہننے واالوں کو بدنام کیا جاتا رہے گا۔ افتخار چودھری پوری تندہی سے یہ کام کرتے رہے۔ “لاپتہ”افراد” کے لواحقین کے کیمپ لگوانے والے حامد میر جیسے کئی صحافی بھی ان کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔
مختاراں مائی کی اجتماعی عصمت دری کے معاملہ پر امریکہ میں بہت شور تھا۔ چنانچہ لاہور عدالت عالیہ نے جب ملزموں کو عدم ثبوت کی بنا پر رہا کر دیا تو افتخار چودھری نے انھیں پھر جیل میں ڈالنے کا حکم دیا اور اپیل اپنے پاس رکھ لی۔ جب آخرکار ملزم بری کیئے گئے تو وہ اس سے زیادہ قید بھگت چکے تھے، جتنی انھیں مجرم ثابت ہونے پر ملتی۔
امریکہ سے افتخار چودھری کا لگائو ڈھکا چھپا نہ تھا۔ انھوں نے کوئٹہ میں اپنے کنبہ کے لیئے چند گاڑیاں خریدیں۔ صوبائی حکومت سے کہا گیا کہ ان کے لیئے چاغی ضلع کے اے سیریز کے نمبر دیئے جائیں۔ حکومت نے جواب دیا کہ چاغی میں تو ابھی پہلا سیریز ہی پورا نہیں ہوا۔ اے تک نہیں جا سکتے۔ تاہم حکم ملا کہ یہی کرنا ہوگا۔ وجہ؟ چاغی کا گاڑیوں کی رجسٹریشن کے لیئے کوڈ CI ہے۔ جب اے سیریز کا نمبر لگ گیا تو کوڈ بن گیا CIA!
اب کیا ہوگا؟ پرویز مشرف کی پشت پر تو فوج ہے، جو اپنے سابق سربراہ کی توہین برداشت نہیں کرے گی۔ کیا عدلیہ بھی افتخار چودھری کی پشت پر ہوگی، جب وہ سب لوگ اس سے رجوع کریں گے، جن کے ساتھ انھوں نے بے انصافی کی؟ کیا وکیل بھی فی سبیل اللہ ان کے لیئے کام کریں گے؟ کیا جنگ-جیو گروپ کو چھوڑ کر۔ کہ اس کے ساتھ ان کے بڑے گہرے تعلقات ہیں، دوسرے چینل اور اخبار بھی ان کے ارشادات کو اسی طرح نمایاں کیا کریں گے، جیسے ان کے افسر تعلقات عامہ کے کہنے پر کیا کرتے تھے؟
افتخار چودھری کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ جج، جرنیل اور جاسوس صرف اس وقت تک سیاست کر سکتا ہے، جب تک کرسی پر ہو۔ اگر اترنے کے بعد بھی اصرار کرے تو اسے اندر جانا پڑتا ہے یا باہر۔ ہماری تاریخ یہی بتاتی ہے۔

السلام علیکم و رحم اللہ و برکاتہ!
اللہ حافظ!
محمد عبد الحمید
مصنف، “غربت کیسے مٹ سکتی ہے” (کلاسیک پبلشرز، لاہور)
www.mahameed.blogspot.com/

اپنا تبصرہ لکھیں