رات جی کھول کے پھر میں نے دعا مانگی ھے

اور اک چیز بڑی بیش بہا مانگی ھے
اور وہ چیز نہ دولت ,نہ مکاں ھے نہ محل تاج مانگا ہے نہ دستار وقتا مانگی ہے
نہ تو قدموں کے تلے فرش گہر مانگا ہے اور نہ سر پر کلہ بال ہما مانگی ہے
نہ شریک سفر آزاد سفر مانگا ہے
نہ صدائے کرس و بانگ دعا مانگی ہے
نہ سنکدر کی طرح فتح کا پرچم مانگا
اور نہ مانند څضر عمر بقا مانگی ہے
نہ کوئی عہدہ نہ کرسی نہ لقب مانگا ہے
نہ کسی څدمت قومی کی جزا مانگی ہے
نہ تو مہمان خصو صی کا شرف مانگا ہے
اور نہ محفل میں کہیں صدر کی جا مانگی
ہے
نہ تو منظر کوئی شاداب و حسین مانگا ہے
نہ صحت بخش کوئی آب و ہوا مانگی ہے
محفل عیش نہ سامان طرب مانگا ہے
نہ تو منظر کوئ شاداب و حسین مانگا ہے
نہ صحت بخش کوئ آب و ہوا مانگی ہے
محفل عیش نہ سامان طرف مانگا ہے
چاندنی رات نہ گنگھور گٹھا مانگی ہے
بانسری مانگی نہ طاوس نہ بربط نہ
رباب
چین کی نیند نہ آرام کا پہلو مانگا
بخ بیدار نہ تقدیر ردا مانگی ہے
نہ تو اشکوں کی فراوانی سے مانگی ہے
نجات
اور نہ اپنے مرض دل کی شفا مانگی ہے
سن کے حیران جوئے جاتے ہیں ارباب چمن
آخرش! کون سی پاگل نے دعا مانگی ہے
آ تری کان میں کہ دوں اے نسیم
سحری
سب سے پیاری مجھے کیا چیز ہے.کیا
مانگی ہے
وہ سراپا ہے رحم گنبد خضری کے مکیں
ان کی غلامی میں مرنے کی دعا مانگی ہے
صلی اللہ علیہ وسلم
فوزیہ وحید اوسلو

اپنا تبصرہ لکھیں