دل کا معاملہ

shazia logo 22شازیہ عندلیب
یہ پہلا واقعہ نہیں کہ وطن عزیز کے موجودہ حکمران جو ہمیشہ سے بیرون ملک کے دورے کرتے رہے ہیں کو اب دل کے دورے کاسامنا ہے۔ اس لیے وہ اس دورے سے بچنے کے لیے آپریشن کروا رہے ہیں۔گو کہ پچھلے دور حکومت میں بھی وقت کے حکمران کو دل کے دورے کا سامناکرنا پڑ اتھا حالانکہ انہوں نے سوائے اپنے اور اپنے خاندان کی خدمت کے کوئی قومی خدمت سرانجام نہیں دی۔پھر بھی دل کا دورہ پڑ گیا۔اس کی کوئی تک تو نہیں بنتی تھی۔انکا دل جو ڈوبا تو وہ اپنے ڈولتے دل کو سنبھالتے بیرون ملک جا پہنچے۔اگر وطن عزیز میں کوئی افسر کوئی محکمہ کوئی وزارت کوئی وزیر یا حکمران کرپشن کرے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔پاکستان کی پچھلی چھیاسٹھ سالہ تاریخ میں کوئی بھی حکمران سلیکشن کے بعد کرپشن سے پرہیز نہیں کر سکا۔سوائے ایک جرنیل کے۔گو کہ لوگوں نے اسے بھی کافی جدو جہد کے بعد کرپٹ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن یہ خاصی مبہم کوشش ثابت ہوئی کیونکہ ثابت کرنے والے لوگوں کا تعلق ا سی گروہ سے تھا جو عدالتوں میں پیسے لیتے ہیں اور جھوٹی گواہیاں دیتے ہیں اور ان کی وجہ سے مقدموں کی فیصلے میں مجرم بری اور بےْ قصور سزا پاتے ہیں۔ایسے لوگوں کی ہمارے ملک کے ہر شعبے میں کوئی کمی نہیں۔ انہیں کالی بھیڑیں بھی کہا جاتا ہے۔جو ملک کے ہر کوچہ و بازار میں ممیاتی پھرتی ہیں۔ایسے لوگوں کی سب سے بڑی نشانیاں ی ہ ہیں ۔یہ لوگ ہر کس و ناکس کے معاملے میں ٹانگ اڑانیلڑائی کروانے سے لے کر شکائیت لگانے تک کے سب کاموں میں ماہر ہوتے ہیں۔ذرا دھیان سے کہیں آپ کے آس پاس کوئی کالی بھیڑ تو نہیں ممیا رہی۔اور ہاں ان کی گفتگو بہت میٹھی اور انداز ہمدردانہ ہوتا ہے۔اس لیے یہ لوگ آسانی سے سادہ لوح لوگوں کو اپنا شکار بنا لیتے ہیں۔ایسے لوگوں سے پیچھا چھڑانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ان سے اپنے راز چھپائے جائیں اور ہر غیرضروری بات سے بچیں۔

جہاں تک نواز شریف کا تعلق ہے تو وہ ایک دلنواز شخصیت کے مالک ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ تیسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئے ۔انہوں نے ہمیشہ اپنے دل کی بات مانی ہے انکا دل چاہا کہ وہ وزیر اعظم بنیں تو وہ بن گئے۔جب ان کا دل چاہتا کہ وہ سیر سپاٹے کریں وہ بیرون ملک دورے پہ جاتے۔اسی لیے تو ایک مرتبہ جب ناروے میں ایک تعلیمی کانفرنس تھی انہوں نے وزیر تعلیم کو کانفرنس میں شرکت کے بجائے خود تشریف لانا پسند کیا۔پھر کانفرنس سے فارغ ہو کر انہیں ناروے میں موجود پاکستانی سفارتی عملے اور عوام سے ملاقات کرنی چاہیے تھی۔۔مگر انکا دل کھیلنے کو مچلنے لگا سو وہ نارویجن وزیر اعظم ارنا سولبرگ ور ساتھ احتیاطاً اپنی بیگم کلثوم کو بھی کرکٹ کے میدان میں لے گئے۔
یہ لڑکیوں کی کرکٹ ٹیم تھی۔ ہو سکتا ہے وہاپنے آپ کو خواتین کی موجودگی میں ذیادہ محفوظ محسوس کرتے ہوں گے۔ ویسے تو یہاں لڑکوں کی بھی ایک تو کیا کئی کرکٹ ٹیمیں ہیں لیکن شائید انہیں وہاں تحفظ محسوس نہ ۔۔۔خیر کانفرنس تو تھی تعلیمی مگر وزیر اعظم صاحب جا نکلے کھیل کے میدان میں ۔مختلف حلقوں میں بڑی لے دے ہوئی پھر بڑا سوچ بچار کے بعد ایک مختصر سا وضاحتی سرکاری بیان یہ جاری ہوا کہ وہ ہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ ہماری پاکستانی لڑکیاں اتنی بھی بیچاریاں نہیں کہ وہ کھیل نہ سکیں۔بلکہ لڑکیوں کو توبہت آزادی حاصل ہے ۔وہ چاہیں تو کرکٹ ٹیم بھی بنا لیں بے شک ۔مگر وہ جو سوات کے علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم پر بندش اور پھر اس کے نتیجے میں لڑکیوں پر ظلم و ذیادتی کے نتیجے میں ملالہ کے کیس کا ظہور ہوا اور بین الاقوامی سطح پر اسکی نہ صرف پذیرائی ہوئی بلکہ اسے امن نوبل پرائز سے بھی نوازا گیا۔ اس کا نہوں نے طالبان کے ڈر سے نام بھی نہ لیا کہ مبادا کہیں کوئی طالبان ناراض نہ ہو جائے۔پھر اس موقع پر ناروے نے نواز شریف کو بھی دعوت دی مگر انہوں نے اس موقع پر نہ آ کر تعلیمی شعبے میں پاکستانی لڑکیوں کے حقوق کی نفی کی۔چلیں خیر یہ تو ایک متنازع معاملہ تھا۔
اب جو پانامہ کا ہنگامہ ہوا تو بڑے بڑے دل گردے والے ملوث ہو گئے۔ہمارے حکمران تو کیا عوام بھی کرپشن کے میدان کے پرانے کھلاڑی ہیں وہ کیوں پیچھے رہتے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مغربی اقوام کی مشرقی اقوام کے خلاف سازش ہے ۔اگر یہ بات درست ہے تو پھر بعض مغربی حکمران جن میں آئس لینڈ اور فن لینڈ جیسے ممالک شامل ہیں ان کے حکمران بھی کیوں ملوث ہو گئے اور ناروے کے تمام حکمرانوں کا اور داروں کا یہاں کوئی نام و نشان نہیں۔آج کے دور میں خلفائے راشدین جیسے حکمران صرف کتابوں میں ہی رہ گئے ہیں امت مسلمہ کے لیے ۔لیکن ایران کے حکمران بہت مثالی ہیں اس کے علاوہ اسکینڈی نیوین ممالک کے تمام حکمرانوں کا کردار ایمانداری اور فرض شناسی مثالی ہے۔کاش ہمارے سیاستدان ان سے ہی کچھ سبق سیکھ لیتے۔
ہمارے حکمران کو عوام کا دل مٹھی میں کرنے کا گر خوب آتا ہے۔ اسی لیے وزیر اعظم صاحب نے ایک ٹربیونل بٹھایا۔تقریریں کیں صفائیاں پیش کیں بڑا سمجھایا سب کو کہ ۔۔او نئیں یہ بات ایسے نہیں یہ سب جھوٹے فراڈی ہیں پر کوئی نہ مانا۔۔بس پھر انہوں نے یہ بات اپنے دل پہ ہی لے لی۔وہ وزیر اعظم جنہوں نے اکثر اپنے دل کی بات مانی۔۔۔اسکا ساتھ دیا اب انکا دل ان کی بات نہیں مان رہا تھا۔۔۔شائید وہ استعفیٰ دینا چاہتا ہو گا۔خود وزیر اعظم دو مرتبہ استعفیٰ دے چکے ہیں۔اب پھر کچھ لوگ ان سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں ۔تاکہ وہ اپنی مرضی کا وزیر اعظم لائیں اور کرسی پہ بٹھائیں جو پہلے سے ذیادہ مال بنائے اور وہ لوٹ مار جو وہ لوگ اس دور میں نہیں کرسکے اگلے دور میں کر لیں۔کیونکہ یہ پاکستان کاریکارڈ ہے کہ ہر نئے حکمران نے کرپشن میں پچھلی حکومت کا منہ اورریکارڈ دونوں توڑے ہیں۔مگر دیکھنا یہ ہے کہ کس حکومت نے کتنے ذیادہ اچھے کام کیے؟اگر اس کا موازنہ کیا جائے تو نواز شریف کی حکومت کا اسکور سب سے اچھا ہے۔ان کے ہر دور میں ملک میں ترقیاتی کام اور ملکی تحفظ میں اضافہ ہوا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے جسے ماننا ہی دانشمندی ہے۔اس وقت جو لوگ اور امید وار عنان حکومت کی طنابیں تھامنے کے لیے بیتاب و بیقرار ہیں وہ بھی سب سے پہلے اپنی جیبیں،اپنے خزانے اپنے پیٹ اور اپنا منہ ہی بھریں گے۔یہ اور بات کہ انکا دل پھر بھی نہ بھرے گا ۔کیونکہ حکومت کی کرسی ہوتی ہی ایسی ہے کہ اس پہ بیٹھنے والے کا دل بہت بڑا ہو جاتا ہے ۔اتنا بڑا کہ ہ کبھی نہیں بھرتا۔لیکن پھر بھی اللہ کے لطف و کرم کا دروازہ دستک دینے والوں کے لیے ضرور کھلتا ہے۔اس سے پہلے بھی نواز شریف نے اللہ کے در پہ حاضری دی تھی تو وہ پھانسی کے پھندے سے بچ گئے تھے۔اب بھی اللہ سے رجوع کریں گے تو مایوس نہیں ہوں گے۔اس لیے کہ اللہ تو کہتا ہے کہ مجھ سے مانگو وہ مانگنے والے کو دیتا ہے ۔بس یہ دعا ہے کہ اللہ وطن عزیز کے وزیراعظم کو صحت کاملہ کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی اور ملکی مفاد کے لیے کام کرنے کی توفیق بھی دے۔اسطرح کہ عوام ببھی ہدائیت پائیں اور وطن عزیزجنت نظیر بن جائے۔
جو لوگ پانامہ لیکس کے کیس کی بنیادد پر نواز شریف کوہٹانا چاہتے ہیں۔کیا انہوں نے سوچا ہے کہ ہمارے وزیراعظم نے کرپشن کر کے کوئی نیا کام تو نہیں کیا۔یہ تو ہماری قومی روائیت ہے کہ اس سیٹ پہ جو بھی بیٹھا۔اس نے یہی کام کیا۔کرپشن کے بغیر نہ حکومت کرنے کا لطف ہے اور نہ حکمرانی کا مزہ۔۔اسی لیے تو اکثر سیاستدان پہلے عوام کا دل مٹھی میں لیتے ہیں پھراپنا دل اپنے ہاتھوں میں تھام لیتے ہیں۔یہی دنیا سے پیار کرنے والوں کی نشانی ہے ورنہ جس دل میں خوف خدا ہوتا ہے اسے نہ دل کے امراض گھیرتے ہیں اور نہ دل کا دورہ پڑتا ہے نہ اوپن ہارٹ سرجری اور نہ دل کا ٹرانسپلانٹ۔۔۔اب یہ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ نے اپنے دل میں کسے جگہ دینی ہے ؟؟؟خوف خداکو یا دنیا کو۔۔ لافانی مقاصدکے لیے کام کرنا ہے یا فانی دنیا کو مقصد بنانا ہے ورنہ یہ حال ہو گا کہ لب پہ ایک سوال کچھ یوں ہو گا۔۔۔

اے دل ناداں تجھے ہو ا کیا ہے

اپنا تبصرہ لکھیں