دعا کیوں قبول نہیں ہوتی؟

قاضی ضیا ء ا لدین
آشم ۔ناروے
ایک شخص نے مولوی صاحب سے سوال کیا ۔مولوی صاحب کیا وجہ ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوتی۔حالانکہ میں نماز بھی پڑہتا ہوں اور صدقہ خیرات بھی کرتا ہوں۔میں کیا کروں ؟سمجھ نہیں آتی کہ ماجرا کیا ہے؟مولوی صاحب نے کہا تم اللہ کی راہ میں اس طر ح خرچ کیا کرو جس طرح اپنے سالے کی خاطر کرتے ہو۔سالے کی خاطر؟ کیا مطلب ؟مولوی صاحب کہنے لگے میں ایک روز تمہارے گھر گیا تو ساگ پکا ہواتھا۔اتنے میں تمہارا سالا آ گیا ۔تمہاری بیوی نے فوراً اسکے لیے مرغی پکائی اور اسکی خاطر مرغی سے کی۔اتنے میں دروازے پہ کسی فقیر نے دستک دی اور اللہ کی راہ پہ بھوکے کو کھانا کھلانے کی صدا دی۔تم نے فوراً اللہ کی راہ پہ اسے ساگ دے دیا ۔ہمارا یہ حال ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جو ہمیں طرح طرح کی نعمتوں سے نوازتا ہے۔جب ہم اس کے آگے دست سوال دراز کرتے ہیں تو قیمتی سے قیمتی اور اعلیٰ چیزیں مانگتے ہیں۔مگر جب اللہ کی راہ پہ خرچ کرنے کی باری آتی ہے تب ہم گھٹیا چیزیں دیتے ہیں جو کھانا پسند نہیں جو چیزیں نا کارہ ہیں وہ ہم خیرات کر دیتے ہیں۔اس کا ثواب و اجر تو اللہ نے دینا ہے فقیر نے تو نہیں دینا ۔فقیر تو ایک وسیلہ ہے بندے کو آزمانے کا ۔ورنہ کیا وہ اللہ جس نے تجھے نوازا ہے کیا وہ اس فقیر کو نہیں دے سکتا نعوز باللہ مگر وہ تو آزماتا ہے دے کر بھی اور نہ دے کر بھی۔جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو خواب میں اپنی عزیز ترین شے قربان کرنے کا کہا تھا تو حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کو قربان کرنا چاہا مگر ا للہ نے ان کی جگہ دنبہ بھیج دیا اور انکے جذبے کو قبول کر لیا۔اللہ کو نہ کسی کی جان کی ضرورت ہے اور نہ تمہاری چیزوں کی مگر وہ تو تمہیں آزماتا ہے۔جب اللہ کی راہ پہ دینے کی باری آتی ہے ہمیںجو چیز پسند نہیں ہوتی وہ دیتے ہیںجب ہم اللہ کی راہ میں ایسی چیزیں دیتے ہیں تو پھر ہمیں بھی ایسی ہی چیزیں ملیں گی۔پھر یہ شکوہ بے جا ہے کہ دعا کیوں قبول نہیں ہوتی؟؟

ہم امت ابراہیمی ہیں۔ حضرت ابراہیم کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔انہوں نے تو اپنی عزیز ترین شے اپنا بیٹا اللہ کی راہ میں قربان کرنا چاہا ۔اللہ تبارک و تعالیٰ کو انکی یہ بات اتنی پسند آئی کہ ہم کئی صدیاں گزر ے کے باوجود ان کی یاد مناتے ہیں ۔اس واقعہ کی یاد ہر عید قرباں پر جانوروں کی قربانی دے کر کرتے ہیں۔مگر ہمارا ایمان کمزور ہے۔ہم قربانی تو کر دیتے ہیں مگر جب گوشت کے حصے کرنے کی باری آتی ہے تو بجائے سنت طریقے سے حصے بانٹنے کے اچھا ولا حصہ اور ران اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔بڑہیا گوشت اپنے عزیز دوستوں کو اورچھچھڑے ہڈیاں اللہ راہ پہ غرباء کو تقسیم کر دیتے ہیں۔پھر شکائیت کرتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟؟
اسی طرح ایک گوالن مسجد میں مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئی۔سلام عرض کیا ۔مولوی صاحب نے پوچھا کیا بات ہے بہت دنوں بعد آئی ہو ۔گوالن کہنے لگی مولوی صاحب میں آپ کی خدمت میں دودھ پیش کرنے آئی تھی۔سوچا آپ مسجد میں بچوں کو اللہ کا کلام پڑھاتے ہیں۔نیک کام کرتے ہیں ۔یہ دودھ بچے پئیں گے تو مجھے بھی ثواب ملے گا۔اتنا ذیادہ دودھ مولوی صاحب گوالن کی کمال فیاضی پر حیران رہ گئے۔خیر تو ہے مولوی صاحب نے استفہامیہ انداز میں پوچھاپہلے تو گوالن ٹال مٹول سے کام لیتی رہی ۔پھر کہنے لگی بس کیا بتائوں مولوی صاحب دودھ کے ڈول میں بکری کی مینگنیاں گر گئی تھیں میں نے سوچا مسجد میں دے آئوں وہاں بچے پی لیں گے۔دودھ ضائع کرنے کے بجائے یہاں مسجد میں دے جائوں کسی کے کام آ جائے گا ۔بچے دودھ پی کر دعا دیں گے۔
اور جیسا دودھ ہے ویسی ہی دعا بھی لگے گی تمہیں!!!یہ تو حال ہے ہمارا جب اللہ کی راہ پہ دینے کی باری آتی ہے تو ہم سب سے ناکارہ چیز دیتے ہیں پھر ہم یہ کیسے توقع کرتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول ہوںذرا سوچیں اور اپنے دل کو ٹٹولیںکہ اللہ کی راہ پہ دیتے وقت ہمارا کیا رویہ ہوتا ہے ۔ہم اہل سنت اوت دین ابراہیمی پہ چلنے والے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے والے دوسروں کو جھوٹے بے ایمان کہنے والے ۔اللہ کی راہ پر خرچ کرتے وقت کس کی راہ پر چلتے ہیں سنت ابراہیمی کی راہ پر یا شیطان کی راہ پر؟؟؟

4 تبصرے ”دعا کیوں قبول نہیں ہوتی؟

  1. Allah ko hamaray ikhlas ki zroorat hy. Agar hamaray amal k peechay khaloos awr taqwa ho ga toe aisa amal uss ki bargaah mn yaqeenan maqbool ho ga. Bahut acha article hy

  2. شازیہ عندلیب صاحبہ اردو کانفرنس کراچی کی ایک رپورٹ بمہ تصویروں کے ساتھ ای میل کی تھی کیا ہوا اس کا وسیم ساحل

اپنا تبصرہ لکھیں