خوفزدہ تصویر

وسیم ساحل

  سوشل میڈیا پرچارسالہ شامی بچی حدیہ کی تصویرجس میں اس کوخوفزدہ  چہرے کے ساتھ  ہاتھوں کوسر سے بلند کر  دیکھایا گیا ہے نے تہلکہ مچاکر ایک معمہ بنا دیا ۔اس تصویرکو ٹوئٹر پر سب سے پہلے غزہ کی ایک فوٹو جرنلسٹ نادیہ ابوشعبان نے شیئرکیا   اور 15 ہزار سے زائد افراد نے اسے ری ٹویٹ کیا – ٹویٹ کرنے والےکچھ لوگوں کاخیال تھاکہ یہ ’انسانیت کی ناکامی کی دلیل‘ہے تو کئی لوگوں نے اِسے جعلی قراردیالیکن یہ تصویر نادیہ ابوشعبان نے صرف شیئرکی لیکن وہ خود بنانیوالی نہیں تھیں ۔ ابتداءمیں تصویرشیئر کرنے والی ویب سائٹ امگور نے بتایا کہ یہ تصویرترک فوٹو جرنلسٹ عثمان صغیرلی نے بنائی ہے ۔
 ترک فوٹوگرافرعثمان صغیر لی نے شامی بچی حدیہ کی تصویرکے متعلق بی بی سی کوبتاتے ہوئے کہا کہ یہ تصویر بنانے کے لیے دراصل وہ ایک ٹیلی فوٹو لینزاستعمال کر رہے تھے جسے بچی نے سمجھا کہ یہ کوئی ہتھیار ہے،عموماً بچے کیمرے کو دیکھ کر یا تو بھاگ جاتے ہیں یا چہرہ چھپا لیتے ہیں یا پھر مسکرا دیتے ہیں اور مجھے بچی کے خوفزدہ ہونے کا احساس تصویر کھینچنے کے بعد اسے دیکھنے پر ہوا،وہ اپنا ہونٹ کاٹ رہی تھی اور اس نے ہاتھ بھی بلند کیے ہوئے تھے‘۔
 فوٹوگرافرعثمان صغیر لی نے مزید  بتایا کہ چارسالہ حدیہ گذشتہ سال دسمبر میں ترکی کی سرحد کے قریب شام میں ایک مہاجر کیمپ میں موجود تھی جہاں شامی شہر حما سے اپنی والدہ اور دو بہن بھائیوں کے ساتھ 150 کلومیٹر کا سفر کر کے اس کیمپ میں پہنچی تھیں ۔
عثمان صغیر لی نے کہا کہ بچے معصومیت میں حقیقت بیان کر دیتے ہیں اورحدیہ کی یہ تصویرجس میں وہخوفزدہ  چہرے کے ساتھ  ہاتھوں کوسر سے بلند کیے ہوئے ہے ان پناہ گزین کیمپوں میں  صحیح صورتحال کی عکاسی ہے

خوفزدہ تصویر“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں