خوبصورت پڑوسن اور نیلا دوپٹہ

انتخاب صائقہ بابر

نئی خوبصورت، طرحدار اور جواں سال پڑوسن محلے میں آباد ہوئی تھی۔ تین چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ شوہر شکل ہی سے خرانٹ اور بدمزاج لگتا تھا۔ پڑوسن کی صورت دیکھ کر ہی محلے کے مردوں کی تمام تر ہمدردیاں خاتون کے ساتھ ہوگئیں۔
خاتون نے آہستہ آہستہ محلے کے گھروں میں آنا جانا شروع کیا۔ شیخ صاحب اور مرزا صاحب کو اپنی اپنی بیگمات کے توسط سے پتا چلا کہ نئی پڑوسن کا شوہر تند خو اور شکی ہے۔ خاتون شوہر سے کافی ڈرتی ہیں۔ یہ سنتے ہی دونوں مرد حضرات کی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھ گئیں۔ دل ہی دل میں شکوہ کر لیا کہ یا اللہ کیسے کیسے ہیرے ناقدروں کو دے دیئے ہیں۔

ایک دن نئی خوبصورت پڑوسن سبزی والے کی دکان پر شیخ صاحب کو ملی۔ خود ہی آگے بڑھ کر سلام کیا۔ شیخ صاحب کو اپنی قسمت پر ناز ہوا۔ خاتون نے کہا کہ شیخ صاحب برا نہ مانیں تو آپ سے کچھ مشورہ درکار ہے۔ شیخ صاحب خوشی سے باولے سے ہوگئے۔ خاتون نے عام گھریلو عورتوں کی طرح بھائی صاحب کہنے کے بجائے شیخ صاحب کہا تھا۔

شیخ صاحب نے دلی خوشی چھپاتے ہوئے نہایت متانت سے جواب دیا۔ جی فرمایئے۔ خاتون نے کہا میرے شوہر کام کے سلسلے میں اکثر شہر سے باہر رہتے ہیں۔ میں اتنی پڑھی لکھی نہیں۔ بچوں کے اسکول کے ایڈمیشن کی سلسلے میں رہنمائی درکار تھی۔

خاتون نے کہا کہ یوں سڑک پہ کھڑے ہو کر بات کرنا مناسب نہیں۔ کیا آپ کے پاس وقت ہوگا تو چند منٹ مجھے سمجھا دیں۔ تاکہ میں کل ہی ان کا داخلہ کروا دوں۔ شیخ صاحب چند منٹ کیا صدیاں بتانے کو تیار تھے۔ فورا کہا جی ضرور۔ آییے۔

شیخ صاحب خاتون کے ہمراہ چلتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔ ابھی صوفے پر بیٹھے ہی تھے کہ باہر اسکوٹر کے رکنے کی آواز آئی۔ خاتون گھبرا گئ۔ یا اللہ میرے شوہر آگئے۔ انہوں نے تو میرا اور آپ کا قتل ہی کر دینا ہے۔ وہ کچھ بھی نہیں سنیں گے۔ ایک کام کیجیے۔ یہ سامنے کپڑوں کا ڈھیر ہے۔ آپ یہ نیلا دوپٹے کا گھونگھٹ نکال کر بیٹھ جائیں اور کپڑے استری کرنا شروع کردیں۔ میں کہہ دوں گی کہ استری والی ماسی کام کر رہی ہے۔

شیخ صاحب نے جلدی سے گھونگھٹ کاڑھا اور استری کرنے لگے۔ تین گھنٹے تک استری کرتے رہے جب تک وہ خرانٹ شخص گھر میں موجود رہا۔ جیسے ہی شوہر گھر سے باہر گیا۔ پسینے میں شرابور، تھکن سے چور شیخ صاحب نڈھال قدموں سے گھر سے نکلے۔

جیسے ہی باہر نکلے سامنے مرزا صاحب آتے دکھائی دییے۔ پوچھا کتنی دیر سے اندر ہو۔ بولے تین گھنٹوں سے استری کررہا ہوں۔ مرزا صاحب نے تاسف سے دیکھا اور بولے۔ جس کپڑوں کے ڈھیر کو تم نے تین گھنٹے استری کیا ہے، کل میں نے ہی چار گھنٹے بیٹھ کر دھوئے ہیں۔
کیا تمہیں بھی نیلا دوپٹہ اڑھایا تھا؟؟؟؟؟
شیخ صاحب نے اثبات میں سر ہلایا اور دونوں دوست مرے مرے قدموں سے اپنے اپنے گھروں کی طرف چل دییے

اپنا تبصرہ لکھیں