جینیاتی سائنس کی حیرت انگیز دنیا

afkare tazaافکارِ تازہ ۔۔۔ ڈاکٹر عارف محمود کسانہ
تو نے اندھیری رات پیدا کی تو میں نے اُس کا اندھیرا دور کرنے کے لیے چراغ بنا لیا اور تو مٹی پیدا کی تو میں اس سے پیالہ بنا لیا ۔ تو نے بیاباں اور پہاڑ پیدا کیے تو میں نے بستیاں اور باغ بنا لیے۔ یہ انسان اپنے خالق کو مخاطب ہوکر کہہ رہاہے جسے حکیم الامت نے پیام مشرق میں یوں بیان کیا ہے
تو شب آفریدی چراغ آفریدم تو خاک آفریدی ایاغ آفریدم
بیان و کہسار و راغ آفریدم خیابان و گلزار و باغ آفریدم
خالق کائنات نے انسان کی سرشت میں اختیار و ارادہ کی کو صلاحیت عطا کی اورپھر اس میں جو الوہیاتی توانائی پھونکی اُسی کی بدولت انسان نے کائنات کے راز دریافت کرنا شروع کیے۔ اُس نے فطرت سے چھیڑ چھاڑ بھی شروع کردی۔ آج جو دنیا ہمارے سامنے ہے اور جس کے بارے میں علامہ اقبال نے بھی کہا کہ محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی ، یہ سب کچھ حضرت انسان نے اپنی انہی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر کیا۔ کائنات کے راز جاننے کی لگن روز اول سے اس کے خمیرمیں تھی اور شائد اسی لیے منع کرنے کے باوجود شجر منوع کے پاس جانے سے وہ باز نہ آیا۔ زمین آسماں میں جو کچھ بھی تھا اس کے خالق نے اُس کے لیے مسخر کردیا تھا بس اب کیا تھا وہ اس کی جستجو میں لگ گیا اور اُس نے فطرت کے راز دریافت کرنا شروع کردیئے۔ اُس نے یہ بھی معلوم کرلیا کہ جانداروں کے جسم کی بنیادی اکائی خلیہ ہے اور اسی خلیہ کے مرکز میں اُس کی تمام خصوصیات اور وراثت دھاگوں کی صورت میں موجود ہے جسے اُس نے کروموسوم کا نام دیا ۔ ان ان کروموسوم پر جین موجود ہوتے ہیںجو در اصل لمبے زنجیری مالیکول ہوتے ہیں جن کی بنیادی اکائی کاربن ہوتی ہے جسے ڈی این اے کا نام دیا گیا۔ساخت اور کارکردگی کے اعتبار سے تمام جانداروں کے خلیے ایک جیسے ہوتے ہیںجبکہ ڈی این کی مخصوص ساخت اور ترتیب مختلف جانداروں کو ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے۔ ڈی این اے اگرچہ جانداروں میں بہت ہی قلیل مقدار میں ہوتا ہے مگر جسم کے تمام کام، کارکردگی اور خصوصیات کو یہی چلاتا ہے۔ اسی کھوج کے سفر نے انسان نے یہ معلوم کرلیا کہ انسانی جسم تقریباََ تیس ہزار جین کا حامل ہے اور انسانی وراثتی بیماریاں انہی جین کی تبدیلوں یا فعل میں خرابی کی وجہ سے ہوتی ہیں اسی لیے اُن کا علاج ادویات یا جراحی سے ممکن نہیں۔ اس لیے اس امر کی ضرورت محسوس ہوئی کہ ان جین پر دسترس حاصل کی جائے تاکہ ایک تو یہ معلوم کیا جائے کہ کہاں خرابیاں ہیں اور اُن کو درست کیسے کیا جائے۔ اسی جستجو نے طبی سائنس کی دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز کیا جسے ٹرانس جینک ٹیکنالوجی transgenic technology کہا جاتا ہے۔
اس تحقیق و جستجو میں انسان اب جین کے فعل کو اپنی مرضی سے دیکھنا چاہتا تھا کہ اگر کسی جین کو جسم سے نکال دیا جائے تو کیا ہوگا اور اگر کسی میں کوئی جین موجود نہیں لیکن اگر وہ اُس میں داخل کردی جائے تو پھر صورت حال کیا ہوگی۔ اس طرح وراثتی بیماریوں کا باعث بننے والی جین تلاش کی جاسکیں گی اور پھر جین تھراپی سے علاج کا مرحلہ طے ہوگا۔چونکہ جس طرح سے انسانوں میں جین موجود ہیں اسی طرح تمام جانداروں میں جین ہوتے ہیں لہذا اگر کوئی ایسا جانور مل جائے جسے تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔ اس مشکل کا حل چوہے نے دیا ۔ جی ہاں انسان اور چوہے کے جین اٹھانوے فی صد سے زائد ایک جیسے ہیںلہذا چوہا جینیاتی سائنس کے میدان میں تحقیق کا باعث بنا۔ اگر اللہ کا پیدا کردہ چوہا نہ ہوتا تو آج میڈیکل سائنس اس قدر ترقی یافتہ نہ ہوتی اور اس وقت بھی میڈیکل ریسرچ میں سب سے زیادہ چوہے ہی زیر استعمال ہیں اور طبی تحقیق کے بہت سے نوبل انعامات چوہوں پر کیے گئے تجربات کی بنیاد پر دیئے گے ہیں اس لحاظ سے وہ ہمارے دوست ہیں۔
جین کی تبدیوں کی بیناد پر پہلا ٹرانس جینک چوہا ١٩٧٤ ء میں پیدا کیا گیا۔ ٹرانس جینک تحقیق کا یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا۔ پیچیدہ انسانی بیماریاں جو کہ وارثت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ان کے کھوج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سرطان، پارکنسن، ہیموفیلیا، ذیابیطس، الزائمر اور دوسری بہت سی بیماریوں کے ماڈل چوہے اس تکنیک سے بنے لگے۔ پھر اس بات کی ضرورت بھی محسوس ہوئی کہ دنیابھر میں اس ہونے والی تحقیق میں رابطہ اور آپس میں معلومات کے تبادلہ کے لیے ایک مربوط پلیٹ فارم ہونا چاہیے جس کا آغاز سویڈن کی معروف میڈیکل یونیوسٹی کارولنسکا انسٹیٹیوٹ کے شعبہ ٹرانس جینک ٹیکنالوجی (راقم بھی اسی شعبہ سے وابستہ ہے) نے اس کا بیڑا اٹھایا اور ١٩٩٩ء میں پہلی بین الاقوامی کانفرس سٹاک میں منعقد کی۔ اب یہ دنیا بھر کے جینیاتی سائنس دانوں اور ماہرین کا سب سے بڑا پلیٹ فارم بن گیااور اس سلسلہ کی بارھویں کانفرس سکاٹ لینڈ کے دارلحکومت ایڈنبرا میں منعقد ہوئی جس میں دینا بھر سے چانچ سو سے زائد سائنس دان اور ماہرین شریک ہوئے مگر قابل افسوس ہے کہ اسلامی دنیا سے ماسوائے ایران کے کوئی اور ملک شریک نہیں تھا۔پاکستان کے کسی ایک ادراہ کا کوئی ایک فرد نہ اس کا رکن ہے اور نہ کسی نے آج تک اس میں شرکت کی ہے جبکہ بھارت سے لوگ شریک ہورہے ہیں۔ مسلم ممالک کی سائنسی پس ماندگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے۔ حالانکہ مستقبل کی دنیا جیناتی تحقیق کی دنیا ہے۔ نینو ٹیکنالوجی اور جینیاتی تحقیق ایسے دو میدان میں جو مستقبل کا تعین کریں گے اور جو اس میں پیچھے رہ جائیں گے ۔ مستقبل میں روایتی علاج کا انداز بدل جائے گا۔ جینٹک انجنئرنگ کی بدولت نئی فصلیں ، بیماریوں کے خلاف مدافعت رکھنے والے پودے، انسانی علاج کے لیے اہم مادے پیدا کرنے والے جانور اور بیماریوں کے علاج میں مددگار طریقہ کار وضع ہوں گے۔ بڑھتی ہوئی انسانی آبادی اور کم ہوتی زرخیز زمین کی وجہ سے انسانی خوارک کا مسئلہ بھی یہی علم سائنس حل کرے گا ۔
ایڈنبرا میں چار دن دن دنیا بھر کے ماہرین اپنی تحقیق پیش کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے منصوبے پیش کررہے تھے۔ ایڈنبرا سائنسی تحقیق کا اہم مرکز ہے اسی شہر میں ١٩٩٦ء میں کلونگ کے ذریعہ سے ڈولی بھیڑ پیدا کی گئی تھی جو کہ طبی تحقیق کی دنیا کا نہایت اہم واقعہ ہے۔ ایڈنبرا میں ہونے والی اس کانفرس کو شرکاء کا خوش آمدید کہنے اور ان کے اعزاز میں مئیر لارڈ پرووسٹ نے استقبالیہ دیا۔ کانفرس سے فارغ ہوکر گلاسگو میں مقیم معروف صحافی جناب طاہر انعام شیخ سے ملنے اُن کے ہاں گئے ۔ انہوں نے بہت کم وقت میں مہمان نوازی میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی اور گلاسگو شہر کی سیر بھی کرادی۔ وہاں کی خوبصورت سینٹرل مسجد گاربلزمیں نماز ادا کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ پاکستانی علاقہ میں جانے کابھی اتفاق ہوا۔ شیخ صاحب بتایا کہ پاکستانیوں کی پہلی نسل نے بہت محنت اور جانفشانی سے یہاں اپنے قدم جمائے جس کا فائدہ آج کی نسل اٹھا رہی ہے۔ گلاسگو یونیورسٹی کی پرشکوہ عمارت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ یونیورسٹی ١٤٥١ء میں قائم ہوئی تھی۔ سیالکوٹ کے برابر آبادی کے اس شہر میں پانچ بین الاقوامی معیا ر کی جامعات ہیں۔ دنیا میں اسی کا تسلط ہوگا جس کے پاس علم و حکمت ہوگی۔ خدا کی آخری کتاب بار بار ہمیں تعلیم و تحقیق کا درس دیتی ہے مگر ہم اُصے صرف پڑھتے ہیں اور اُس پر عمل دوسرے کرتے ہیں۔ آج بھی روح اقبال کہہ رہی ہے
کس طرح ہوا کند ، تیرا نشتر تحقیق ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک اور
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا

اپنا تبصرہ لکھیں