جموں کی داستان خونچکاں کے آئینے میں بھارت کا کریہہ چہرہ 

(Raja Muhammad Attique Afsar, )
( 6نومبر۔۔۔یومِ شہدائے جموں کے حوالے سے خصوصی تحریر)
اس روز سورج غٖروب ہوا تو فضا ء میں ہولناک خاموشی طاری تھی پرندوں کے چہچہوں کو بھی گویا چپ لگ گئی تھی ۔ اس خاموشی کو اگر کوئی چیز توڑتی تھی تو صرف مردارخور درندوں ، گِدھ اور الّو کی خونخوار آوازیں تھیں جو آج انسانی گوشت سے شکم بھرنے کے لیے بیتاب تھے ۔ان خوفناک آوازوں کو سننے والے چند ہی کان تھے اوردیکھنے کے لیے چند ہی آنکھیں، باقی شہر تو شہر ِ خموشاں بن چکا تھا ،ہر بستی ویران تھی اورہر گھر لٹا پٹا تھا ۔ ہر سمت جلے ہوئے گھروں سے دھواں اٹھ رہا تھا اورگرد آلود فضا ء پہ وحشت کا راج ۔یہ 6نومبر1947کے دن جموں شہرکا منظرتھاجسے مسلمانان جموں و کشمیر یوم شہدائے جموں کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔اس شہر پہ یہ قیامت نہ کسی زلزلے نے ڈھائی تھی نہ کسی طوفان بادوباراں نے ،نہ سیلاب کی موجوں نے اسے تاراج کیا نہ ہی آسمان سے بجلیاں گریں ۔ یہ سب ریاست جموں و کشمیر کے غاصب ڈوگرا حکمرانوں کے نسلی و مذہنی تعصب کا شاخسانہ تھا ۔ ڈوگرا سامراج یہ جان چکا تھا کہ وہ مسلم اکثریت پہ اپنا حق حکمرانی کھو چکا ہے تو اس نے اس اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت موت کا یہ ہولناک کھیل کھیلا۔لاکھوں مسلمانان جموں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا گیا ۔کسی شاعر نے کہا
سڑکیں زہرآلود نگر ویران ہوئے
ایسا پھیلا خوف کہ دل سنسان ہوئے
آدم خور درندے فارغ بیٹھ گئے
جب سے وحشت پہ مائل انسان ہوئے
جموں میں انسانی نسل کشی کا یہ دلدوز واقعہ انسانی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے ۔ اس سے قبل بھی تاریخ نے انسانی نسل کشی Genocideکے دہشت ناک مناظر دیکھ رکھے تھے ۔ ان میں تاتاریوں کے ہاتھوں بغداد کی تباہی ، صلیبی لشکروں کے ہاتھوں بیت المقدس میں قتل عام، بعد ازاں یورپی نوآبادیاتی تسلط کے ہاتھوں مسلم دنیا میں قتل عام اور بوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی کے واقعات تاریخ کا حصہ ہیں ۔ گزشتہ صدی میں نازیوں کے ہاتھوں ہونے والی یہودیوں کی نسل کشی Holocaust کو عالمی دنیا نے بہت یاد کیا اور اب تک اسے انسانی تاریخ کا ظلم عظیم قرار دیا جاتا ہے اسی کوبنیاد بنا کر فلسطین میں یہودیوں کو اسرائیل کے نام سے الگ ملک کے قیام میں نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ بھرپور تعاون بھی کیا گیا اور مقامی فلسطینیوں کو ان کے ملک سے نکال کر در بدر کر دیا گیا۔ لیکن یہ سب واقعات تو اس سرزمین پہ ہوئے جسے مغرب کہتے ہیں ۔ جہاں اقدار ، تہذیب اور تمدن کبھی ڈھونڈنے کو نہیں ملتے تھے لیکن جموں کا قتل عام اس حوالے سے منفرد ہے کہ یہ مشرق میں تہذیب و تمدن کے گہوارے میں ہوا اور پھر کشمیر جیسی پر امن ریاست میں ہوا جس کے باسی جنگ و جدل سے کوسوں دور تھے۔
ریاست جموں و کشمیر میں ڈوگرا راج نے اس سے قبل بھی ہندو عصبیت کا گھناونا مظاہرہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی ۔ ریاست کی اکثریت مسلمان تھی لیکن مسلم آبادی کو دوسرے درجے کے شہری کا درجہ دیاگیا تھا ۔ ہندو اقلیت کو کاروبار ِحکومت میں شریک کیا گیا تھا ۔ فوج ، پولیس اور دیگر محکمہ جات کے کلیدی عہدے ہندؤوں کو عنایت کیے گئے تھے ۔ ریاستی قوانین بھی ایسے بنائے گئے تھے جو مسلم آبادی کا سرا سر استحصال کر رہے تھے ۔ ڈوگرا حکومت نے مسلم اکثریت کا معاشی ، معاشرتی اور سیاسی استحصال کر کے اس قابل بھی نہ چھوڑا تھا کہ وہ اپنے حق کی بات تک کر سکیں۔جب جون 1947 میں تقسیم ہند کا اصولی فیصلہ ہوا تو ڈوگرا حکومت کو اپنا راج ہوا میں تحلیل ہوتے دکھائی دیا۔تقسیم کے اصولوں کے تحت مسلم اکثریت کی ریاستوں کو ان کی آبادی کی رائے کے مطابق پاکستان یاہندوستان میں سے کسی کا انتخاب کرنا تھا۔ریاست کی غالب اکثریت مسلم تھی اس لیے کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق فطری تھا اور اس پہ مستزاد مسلمانانِ جموں و کشمیر کی نمائندہ جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرس نے 19 جولائی 1947 کو قرارداد الحاق پاکستان منظور کر ڈالی ۔ دوسری جانب ڈوگرامہاراجہ ہری سنگھ بھارت سے الحاق کا خواہاں تھا لیکن اسکے خوابوں کی تعبیر میں مسلم اکثریت حائل تھی ۔ اس مسئلے کا حل یہ تھا کہ مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا جائے جو کہ راتوں رات ممکن نہ تھا اس لیے اس نے قیام پاکستان کے ساتھ ہی حکومت پاکستان کے ساتھ معاہدہ ٔ قائمہ کرلیا تاکہ اسے اپنے منصوبے کو پایہ ٔ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مہلت مل سکے۔مہاراجہ نے بھارت سے انتہا پسند ہندوؤں کو جموں بلوایااور مسلمانوں کے قتل عام کا منصوبہ تیار کیا۔ اس منصوبے کے تحت مسلمانوں کی بڑی تعداد کا قتل عام کیا جانا تھا اس طرح صوبہ جموں مسلم اکثریت سے محروم ہو جاتا اور باقی ریاست کے مسلمان سہم کر ڈوگرا استبداد کو قبول کر لیتے یا ریاست چھوڑ کر بھاگ جاتے ۔
مہاراجہ کشمیر نے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مسلم آبادی کو غیر مسلح کرنا شروع کیا ۔ پھر اگست کے مہینے سے مسلمانوں کے قتل عام کا آغاز کر دیا گیا ۔ پونچھ اور گلگت بلتستان کے عوام نے مہاراجہ کے مکروہ عزائم کو بھانپ لیا اور اپنے میسرہ وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے مہاراجہ کے خلاف بغاوت کر دی ۔ ان مسلمانوں کی امداد کے لیے ریاست سوات سے قبائلی لشکر بھی پہنچ گئے ۔مجاہدین کشمیر ڈوگروں کے دانت کھٹے کرتے آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ 24اکتوبر1947کو آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کا اعلان کر دیا گیا ۔ اس اعلان نے مہاراجہ کو معزول کر دیا اور وہ مفرور ہو کر جموں پہنچا۔ جموں پہنچ کر اس نے بھارت سے فوجی امداد طلب کی اس موقع کو بھارت نے غنیمت جانا اور مہاراجہ کی امداد کو بھارت سے الحاق کے ساتھ مشروط کر دیا ۔ ایک معزول و مفرور حکمران کی حیثیت سے اس نے زبانی الحاق کا معاہدہ کر لیاجس کی رو سے بھارتی افواج کشمیر میں در آئیں ۔ اس معاہدے کو زبانی کہنے کی توجیہ یہ ہے کہ بھارت نے کبھی بھی اس معاہدے کی دستاویز پیش نہیں کی ۔ بہرحال جموں میں پہلے سے موجود ڈوگرہ فوج، ہندو بلوائیوں اور بھارتی فوج نے مل کر مسلمانوں کی نسل کشی کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا۔
اس مذموم اقدام کے لیے ایک منظم منصوبہ بندی کی گئی ۔ پہلے مسلم کش فسادات کا آغاز کیا گیا تاکہ مسلمانوں کے درمیان عدم تحفظ کی فضا ء قائم کر دی جائے۔ ڈوگرہ حکومت اور بھارتی افواج ہندو انتہاپسندوں کی کاروائیوں کو روکنے میں بے بس نظر آتے یہاں تک کہ جو مسلمان بھی پناہ کی تلاش میں ریاستی ادارو ں تک گیا انہیں پولیس اور ڈوگرا فوجی خود انتہا پسندوں کے حوالے کر دیتے اوربیدردی سے مارے جانے والوں کا تماشہ دیکھتے ۔ جب شہر کے حالات خراب ہوئے تو مسلمانان جموں کو اعلانات کر کے بتایا گیا کہ 6نومبر کو قافلے روانہ ہوں گے جنہیں فوج کی حفاظت میں پاکستان پہنچایا جائے گا ۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ جموں شہر جمع ہوئے ۔ انہیں ٹرکوں میں جانوروں کی طرح اڑھس لیا گیا ۔ پناہ کی تلاش میں نکلے یہ قافلے شہر سے نکل کر ویران مقامات پر پہنچتے تو ان کی تاک میں بیٹھے مسلح ہندو ان پہ ٹوٹ پڑتے ۔ مشین گن کی گولیوں کی بوچھاڑ کی جاتی ۔مردوں اور بچوں کو قتل کرتے اور عورتوں کی آبرو ریزی کی جاتی اور ا ن کو اغوا کر لیتے ۔ اس سانحے میں مسلم کانفرس کے سربراہ چوہدری غلام عباس مرحوم کی صاحبزادی کو بھی اغوا ء کیاگیا جس کا بعد میں بھی کوئی سراغ نہ مل سکا۔غرض نہ کسی امیر کوبخشا گیا اورنہ غریب کو ۔ بلا تفریق خون مسلم سے ہاتھ رنگے گئے ۔ بھارت، ڈوگرہ حکومت اور انتہا پسند تنظیموں نے مل کر جو رقص ابلیس برپا کیا اس کے نتیجے میں لاکھوں افراد لقمہ ٔاجل بن گئے ۔ ان کی تعداد میں فرق ہے ۔ عام خیال ہے کہ 6لاکھ افراد قتل ہوئے کچھ نے 5لاکھ گنوائے اور کچھ ہندی جرائد نے یہ تعداد 2لاکھ بتائی ۔ تعداد میں فرق کی وجہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ منظم منصوبہ بندی کی وجہ سے ہوا۔کرنے والوں نے اس کی تعداد بتائی نہیں اور ظلم کا شکار ہونے والے دنیا کوروداد سنانے کے لیے بچے نہیں ۔ کچھ لوگ جو خوش قسمتی سے بچ پائے انہوں نے ان واقعات کو بیان کیا ۔
واقعے میں ہلاکتوں کی تعداد خواہ کچھ بھی ہو یہ واقعہ انسانی تاریخ پہ بدنما دھبا ہے ۔ بھارت سرکار کے سیکولرازم کے پردے کے پیچھے چھپے بھیانک چہرے کو بے نقاب کرنے کے لیے یہی ایک واقعہ کافی ہے ۔اس عظیم سانحے پہ ہندو لیڈر گاندھی جی بھی خاموش نہ رہ سکے اور اس کی ذمہ داری ڈوگرا حکومت پہ عائد کر دی اسی جرم کی پاداش میں انہیں بھی ہندو جنونیت کا نشانہ بننا پڑا۔ لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہماری حکومتوں نے اس واقعے کو کسی بین الاقوامی فورم پہ اجاگر نہیں کیا۔اقوام عالم کو یہ باور نہیں کرایا گیا کہ سیکولر بھارت کی بنیاد ہی انتہاپسندی اور دہشتگردی پہ رکھی گئی ہے ۔ جبکہ ہندوستان کی حکومت اورمیڈیا پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی کی کسی بھی کاروائی کو عالمی منظر عام پہ لانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور اقوام عالم میں پاکستان کو دہشتگرد اور انتہا پسند قرار دلوانے کی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں ۔ 1947سے لے کر اب تک کی بھارتی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر عیاں ہوتی ہے کہ ہندوستان میں ہندو جنونیت کسی دوسرے مذہب یا قوم کو برداشت کرنے کی روادار نہیں اور مسلم دشمنی تو ان کی رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے ۔ہندو انتہا پسندوں کی کوشش ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو یا تو ہندو تہذیب میں ضم کر دیا جائے یا انہیں ہندوستان سے نکال دیا جائے اور جہاں یہ دونوں عمل نہ ہو سکیں تو وہاں قتل عام اور نسل کشی کے ذریعے اپنے اہداف حاصل کیے جائیں ۔ بھارت میں تمام اقلیتوں کے خلاف مذہبی جنونیت کے متعدد مظاہرے ہو چکے ہیں یہاں تک کہ ہمارے ہاں ہونے والی دہشتگردی میں بھی اکثر بھارتی خفیہ ایجنسیوں کا ہی ہاتھ ہوتا ہے البتہ کرائے کے قصاب انہیں ہماری ہی صفوں سے مل جاتے ہیں ۔ قتل عام اور نسل کشی کی کئی داستانیں ہیں حالیہ دور میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت میں کیے جانے والے مسلم کش اقدامات اس کی بین مثالیں ہیں ۔ ہندوستان کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے تو انتہا کر دی ایک طرف 1971 میں سقوط ڈھاکہ کی ذمہ دار مکتی باہنی کی عسکری امداد کی توثیق کر دی تو دوسری جانب برما میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر برمی (میانمار) حکومت کی حمایت بھی کر دی ۔موصوف نے روہنگیا مسلمانوںکو دہشت گرد قرار دیا اور بھارت میں رہائش پذیر روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کاروائی کا عندیہ دے دیا ۔ ڈر یہ ہے کہ اگر جاندار آواز نہ اٹھائی گئی تو مستقبل میں مسلم نسل کشی کے بڑے واقعات رونما ہوں گے ۔ گزشتہ برس سے کشمیر میں جاری تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے جو مظالم برپا کئے ہیں وہ کسی بڑی نسل کشی کا پیش خیمہ ہیں ۔نہتے کشمیریوں پر ایسے ہتھیاروں (پلٹ گنز)سے فائرنگ کی جاتی ہے جس سے وہ معذور ہو جا تے ہیں ۔اگر یہی سب کچھ کسی یورپی قوم کے ساتھ ہوا ہوتا تو آج تک اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی برادری اس کا نوٹس لے چکی ہوتی لیکن مقام افسوس ہے کہ ہماری سیاسی قیادت، سفارتی ٹیم اور قلمکار اسے اقوام عالم تک پہنچانے میں بری طرح ناکام رہے ہیں ۔ البتہ ترکی کے صدر رجب طیب کی خدمات اس سلسلے میں قابل ستائش ہیں ۔ اس معاملے میں امت مسلمہ خواب غفلت میں ڈوبی ہے جہاں دشمن کے ہاتھوں خون مسلم بہایا جا رہا ہے وہاں آواز بلد کرنا تو درکنار اپنے ہی ہاتھوں اپی ہی نسل کشی کئے جاتے ہیں ۔ شام اور عراق کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ تاہم امت مسلمہ اور عالمی ضمیر کو ایک بار پھرپوری قوت کے ساتھ جھنجوڑنے کی ضرورت ہے ۔
آج کے قلم کار اور تجزیہ نگار حضرات ماضی کو فراموش کر کے بھارت کے ساتھ دوستی کا درس دیتے ہیں ۔ہندو اور مسلم کو ایک ہی تہذیب قرار دیتے ہیں ۔ دو قومی نظریے کے پیچھے بھی لبرل بنیادیں تلاش کرتے ہیں ۔ کشمیر کو بھول کر دوطرفہ تجارت کی بات کی جاتی ہے۔ ان قلمکاروں نے کشمیر کو سرحدی تنازعہ کی حیثیت دے رکھی ہے ۔بھارت اس سوچ کو پروان چڑھا رہا ہے اور ان لوگوں کی بھرپور معاونت کر رہا ہے جو سوشل و الیکٹرانک میڈیا پہ آکردو قومی نظریے اور نظریۂ پاکستان سے متضاد رائے دیتے ہیں ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ محض سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ یہ کروڑوں مسلمانوں کی بقا کا مسئلہ ہے کشمیر کی مسلم اکثریت کی بقا کا مسئلہ ہے ۔آج بھارتی آشیرباد پہ کچھ نام نہادقوم پرست ڈوگرا راج کے راگ الاپ رہے ہیں اسے کشمیر کا سنہری دور قرار دے رہے ہیں ۔ یہ عاقبت نا اندیش لوگ گلاب سنگھ کو ہیرو کے طور پہ پیش کر رہے ہیں ۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے ان لوگوں نےمغربی ممالک میں گلاب سنگھ کی برسی بھی منانا شروع کر دیاہے جسے چند پاکستانی میڈیا گروپس پہ پذیرائی بھی ملی ہے۔ حیرت تو اس بات پہ ہے کہ ان گلاب سنگھی حضرات کو اپنے میں سے کوئی لیڈر بھی نہیں مل سکا جو ایک ملعو ن ترین شخص کی پرستش شروع کر دی؟جموں میں قتل ہونے والے لاکھوں افراد ان گلاب سنگھی افراد سے سوال کرتے ہیں کہ ہم کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کریں؟کشمیری قوم پرستی کا دعوی کرنے والو!ہمارے ہی قاتلوں کی برسیاں کس منہ سے مناتے ہو ؟ جدیدیت کا شکار ہوے والے اہل قلم دوستوں سے گزارش ہے کہ وہ سنہرے سپنے ضرور دیکھیں ، دوستی کی بات ضرور کریں مگرتاریخی حقائق سے پردہ پوشی نہ کریں ۔
دے رہے ہیں جو لوگ تمہیں رفاقت کا فریب
ان کی تاریخ پڑھو گے تو دہل جاؤ گے
اﷲ تعالی شہدائے جموں کی قربانی کو قبول فرمائے اور ان کی جانوں کے صدقے ہمیں دوست اور دشمن میں فرق کرنے کی توفیق عطا فرمائے اورتمام امت مسلمہ کو دشمنوں کے شر سے محفوظ فرمائے ۔ آمین۔

اپنا تبصرہ لکھیں