تو کہ ناواقف آداب غلامی ہے


تحریر شازیہ عندلیب
پچھلے دنوں آزاد کشمیر کے انتخابات کے آزادانہ نتائج نے ورطہء حیرت میں ڈال دیا۔ اس لیے کہ ہماری حکومت نے پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولنگ ختم ہونے سے پہلے ہی نتائج کا اعلان کر دیا۔اس سے ذیادہ اچنبھے کی بات اس سے پہلے یہ ہوئی ۔وہ یہ تھی کہ نارویجن لیڈر کی مسلہء کشمیر میں دلچسپی نے حیران کر دیا۔ وہ مسلہء جو کہ پچھلے چھیاسٹھ سالوں سے حل نہیں ہوا۔ کیا وہ ناروے جیسی پرامن اور فلاحی مملکت حل کر پائے گی۔ وہ مسلہء ناروے کے بزرگ ملک برطانیہ نے جسکی داغ بیل ڈالی، وہ کشیدگی جسے امریکہ نے ہلہ شیری دی وہ چنگاری جسے اسرائیل نے بھڑکایا ۔ کیا ناروے جیسی معصوم اور ہمدرد حکومت اسے حل کر پائے گی۔ سیاسی شجرہء نسب کے حسا ب سے اگر امریکہ کی حیثیت ناروے کی بزرگ مملکت کی سی ہے تو برطانیہ اسکا ماما چاچا ٹھہرا۔ کیا ناروے عالمی طاقتوں کی مرضی کے بناء مسلہء کشمیر حل کر پائے گا۔سچ مچ؟؟
اگر یہ مسلہء واقعی ناروے کی مداخلت سے حل ہو جائے تو اس سے اچھی بات کوئی نہیں۔ اصل میں غریب اور پسماندہ ممالک کے مسائل ترقی یافتہ اقوام اپنے مفاد کے لییاستعمال کرتے ہیں۔ جیسے مسلہء فلسطین،مسلہء کشمیر اور اب پاکستان کا مسلہء سوات۔جب بھی کسی ملک میں انتخابات ہوتے ہیں لیڈران اپنی دوکان چمکانے کے لیے ان مسائل کو حل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔جیساکہ امریکہ کے الیکشن میں اوبامہ نے مسلہء کشمیر حل رنے کا وعدہ کر کے اپنا ووٹ بینک بڑہایا۔ اس طرح اس سے پہلے ایک امریکی صدر نے مسلہء فلسطین کے حل کا نعرہ لگا کر الیکشن جیتے۔انڈیا کے انتخابات میں سونیاگاندھی نے بھی مسلہء کشمیر حل کرنے کا دعویٰ کیا۔الیکشن کے بعد سب اپنے وعدے بھول گئے۔ کیونکہ
وہ وعدہ ہی کیا جو ایفاء ہو گیا
ناروے کا معاملہ دوسرا ہے ۔ ناروے کا شمار ان پر فریب ممالک میں نہیں ہوتا جو گھوٹے اور دھوکہ باز ہیں۔ نہ ہی اسکے لیڈر دوسرے ممالک کی طرح دغا باز ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف اپنی قوم سے مخلس ہیں بلکہ دوسروں کی مددبھی خلوص سے کرتے ہیں اس لیے اگر ناروے کے ایک سیاسی لیڈر نے پاکستان کا مسلہء کشمیر حل کرنے کا کہا ہے تو وہ واقعی پاکستان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ اصل مسلہء تو یہ ہے کہ پاکستان اس وقت اسقدر داخلی انتشا و مسائل کا شکار ہے کہ شائید کشمیر کے مسلہء کو توجہ نہ دے سکے۔
ایک خبر کے مطابق نارویجین کرسچ پارٹی کی چیف انگر ہانسن نے نارویجن حکومت سے مسلہء کشمیر کے حل کے بارے میں ثالث کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی۔ متعدد پاکستانی تنظیموںنے اس بات کو سراہا۔ماضی بعید میں برطانوی لارڈ ماوئنٹ بیٹن نے کشمیر کا علاقہ متنازعہ چھوڑ دیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ دونوں قومین لڑاو جنگ میں اپنس وقت او پیسہ برباد کرتی رہیں۔ دور اندیش انگریز اپنی چال میں کامیاب ہو گیا۔وہ دشمنی کا ایسا بیج بو گیا جس سے ببول کا درخت اگا۔یہ درخت اب ایک تناور شجر بن چکا ہے اسکا پھل انڈیا، پاکستان کے عوم کھا رہے ہیں۔ اس تنازعہ سے اصلحہ بنانے والے ممالک کی فیکٹریوں کی دال روٹی چل رہی ہے۔اگر یہ تنازعہ ختم ہو گیا ت و امریکہ بھوکوں مرنے لگے گا۔ اگر کشمیر کے تنازعے میں کشمیری عوام مر رہے ہیں تو اس تنازعہ کے خاتمہ سے امریکی عوام مرنے لگے گیں۔لہٰذا عالمی مفاد میں اس تناذعہ کا برقررار ہنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح فلسطین کے تناذعہ کا موجود رہنا۔اس مسلہء کے خاتمہ سے عالمی سیاست میںمندے کا رجحان پیدا ہو جائے گا۔الیکشن میں لیڈر کس مسلہء کا نام لے کرووٹ اکٹھے کریں گے۔پاکستانی لیڈر کس مسلہء کا حوالہ دیکر واویلہ مچائیں گے۔ یہ تو عالمی سیاست میں بقول شاعر
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
اصل میں مسلہء کے حل کے لیے کوئی بھی سنجیدہ نہیں۔ نہ عالمی لیڈر نہ قومی قیادت، نہ دس نمبری حکمران اور نہ دونمبر سیاست دان۔

تو کہ ناواقف آداب غلامی ہے“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں