تعلیم کے ساتھ تربیت بھی لا زمی

بدلتی ہو ئی قدروں کے بیچ تشخص پر زور
[اشہر ہاشمی]
بدلتی ہو ئی دنیا میں انسا نی قدروں کا بدلنا ایک لا زمی امکان ہے لیکن ان قدروں کی آمیزش میں مذہبی اقدار کا عنصر موجود رہے تو غیر ضروری لہریں شخصیت پر اثر انداز ہونے سے رہ جا تی ہیں ۔عالمی سطح پر آ ج کی جو صورت حال ہے اس میں ضد ،جارحیت ،غلبہ اور دوسروں کے وسائل پر قبضہ کی اصل نیت نئے نئے نام اور نئے نئے مکھوٹوں کے ساتھ سامنے آ تی ہے ۔ نئے برانڈ نا م کے پیچھے چھپا ہوا نام یا نئے مکھوٹے کے پیچھے چھپا ہوا چہرہ پہچاننا اتنا مشکل نہیں لیکن تلا ش کی نیت اور پہچان کے جذبے کی کمی ہے ۔ اس وقت قوم پرستی کا جنون سوا ر ہے ۔ حتی کہ جہوریتیں بھی قوم پرستی کے نا م پر ووٹ ما نگ رہی ہیں ، الیکشن جیت رہی ہیں اور حکومتیں بنتی دیکھ رہی ہیں ۔ اسرائیل میں کسی قوم پرست پارٹی کا اقتدار میں آ نا یا رہنا اسرائیل کی مجبوری ہے ۔ وہاں مقابلہ اس کا ہے کہ کو ن سی پارٹی قوم پرستی کے نا م پر کتنی بڑی جا رحیت پسند اور شدت پسند ہے ۔ امریکہ کے ساتھ یہ مجبوری نہیں تھی گو کہ قوم پرستی امریکی پہچان کا بھی حصہ ہے لیکن دنیا کی قدیم ترین جمہوریت ہو نے کے نا طے امریکہ میں دوسروں کیلئے بہت گنجا ئش رکھی گئی تھی ۔ اس گنجا ئش کو قابل احترام بھی بنا یا گیا ۔ امریکہ میں مقامی لوگوں کو سفید فام اور افریقہ سے آ کر بسنے والوں کو سیا ہ فام یا دوسرے علا قوں سے آ کر آ باد ہو نے والوں کو رنگ دار قوم کے نا م سے نہیں پکا را جا تا ۔ ان کیلئے افریقن امریکن ،انڈین امریکن جیسی اصطلاحیں بنا ئی گئیں جن میں مشترک لفظ امریکی ہے ۔ یہ قوم پر ستی کے جذبے کی ایک اچھی مثال ہے ۔اسی طرح تہذیب یا فتہ ہو تی ہو ئی قوموں نے لفظ معذور کا متبا دل تلا ش کیا جو کہ عزت دارانہ لفظ ہے ۔ ایک مختلف ڈھنگ سے اہل ۔ یعنی تہذیب کے ارتقا میں انسان کی توقیر کا عمل مسلسل بڑھ رہا ہے ۔ ہم اتفاق سے ایک ایسی زبان سے تعلق رکھتے ہیں جو زبان کی بجا ئے مکمل تہذیب ہے ۔ اردو صرف زبان نہیں ،صرف اظہار کا وسیلہ نہیں بلکہ ایک مکمل تہذیب ہے اور اس تہذیب نے انسا نی رشتوں کا احترام اتنے بڑے پیما نے پر کیا ہے کہ دنیا کی دوسری زبانوں کے سامنے جب اردو میں انسانی رشتوں کے احترام کی حقیقت کھلتی ہے تو حیرانی دیکھنے کے لا ئق ہو تی ہے ۔ اردو نے فارسی ،ہندی ،عربی ،سنسکرت اور دیگر ہندوستانی زبانوں کے مقامی الفاظ سے اپنی شیرازہ بندی کی ہے ۔ اس زبان میں انگریزی زبان کے لفظوں کی کھپت بھی آ سانی سے ہو جا تی ہے ۔ یہی سبب ہے کہ اردو کا دامن بہت وسیع ہے اور اس کا ادب بہت پر امارت ۔غالب یا میر عالمی ادب میں اپنی پہچان کے ساتھ اس لئے موجود ہیں کہ ان کی شعریات مشرقی ،اسلامی اور اردو تہذیب اور اس کے حوالوں سے مرتب ہو ئی ہے ۔گو کہ اردو اب حکومت کی زبان نہیں رہی ۔درباروں میں اس کا گذر نہیں ۔دفا تر میں اجنبی ہے ۔سرکاری کا م کا ج میں کہیں کہیں دوسری سرکا ری زبان کے نا م پر استعمال میں لا ئے جا نے کی اہلیت سے سرفراز کی گئی ہے لیکن عملاًاس سے فیضیاب نہیں ہو تی ۔اردو کی تدریس کا انتظام بھی دھیرے دھیرے ہندی بو لنے والوں سے ختم ہو رہا ہے ۔ جن ریا ستوں میں ہندی بو لی جا تی ہے ان ریا ستوں میں سگی بہنیں کہلا نے کے با وجود ہندی اور اردو سا تھ ساتھ نہیں پنپ سکیں ۔ ہندی اردو پر غالب آ ئی ۔ مرکزی حکومت کی کا م کا ج کی زبان ہو نے کے نا طے ہندی کو اردو پر سرکا ری فوقیت بھی حاصل ہے ۔ایسے میں اردو یا تو مدرسوں میں پنپ رہی ہے ، یا اخبارات میں یا مشا عروں میں ۔جن ریا ستوں میں اردو پر غیر ہندی مقامی زبانیں حاوی ہیں وہاں لوگوں نے اردو کی تدریس کا اہتمام کر رکھا ہے ۔ مہا راشٹر ،آ ندھرا ،تلنگانہ ،کر نا ٹک ،مغربی بنگا ل ایسی ریا ستیں ہیں جہاں اردو کی تدریس پرا ئمری سطح سے لے کر یو نیورسٹی سطح تک ایک انتظام کے تحت چل رہی ہے ۔ بہار میں ہندی کا علا قہ ہو نے کے باجوود اردو کی تدریس کی طرف سے زیا دہ غفلت نہیں برتی گئی ۔ دہلی میں کم از کم فصیل بند شہر کے اندر اردو کی تدریس کا اہتما ہے ۔ کچھ دوسری آ بادیوں میں بھی اردو کے اسکول کا لج کام کر رہے ہیں ۔جا معہ ملیہ اسلامیہ ان میں ایک نما یاں ادارہ ہے ۔ دہلی یو نیورسٹی اور جے این یو میں بھی اردو کی اعلیٰ تعلیم کا اعلیٰ انتظام ہے لیکن ٹیلی ویژن سے اور سرقے والی نیوز ایجنسیوں سے عام ہوتی ہو ئی زبان اردو کی معیاری صحافتی زبان کے دو سو سال میں تیار شدہ زبان کو تباہ کررہی ہے ۔ اردو کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ زبان ہی نہیں بگڑ تی ،تہذیب کو بھی چو ٹ لگتی ہے ۔ یہا ں زیادہ تفصیل میں جا نے کی گنجا ئش نہیں لیکن اردو صحافت میں ابھی 30برس پہلے تک آ بروزیری یا ریپ جیسے الفاظ استعمال نہیں ہو تے تھے ۔ ایسے ہی کسی واقعہ کی خبر نگا ری میں یہ لکھا جا تا تھا کہ مجرم نے کسی عورت کے ساتھ اپنا منھ کا لا کیا ۔ یہ جو زبان گندی کئے بغیر مفہوم کی ترسیل کا ایک مہذب طریقہ تھا وہ زبان پر باہر سے آ تی ہو ئی یلغار میں صرف اسلئے ٹوٹ گیا کہ اندر قلعہ بندی نہیں تھی ۔اردو کی تعلیم کے ساتھ تربیت یہاں ضروری ہو رہی ہے ۔ اردو کی تدریس کا یہ پہلو نظر انداز کیا گیا تو حالات پہلے سے زیا دہ بگڑ جا ئیں گے اس لئے وقت کا تقاضہ ہے کہ حالات کو قابو میں رکھنے کیلئے اردو زبان کی تدریس میں اس عنصر کو شامل کیا جا ئے کہ زبان نئی قدروں کا ساتھ تو دے لیکن اپنے تشخص کے ساتھ ۔ qq

اپنا تبصرہ لکھیں