بھارت میں دو بندروں کی دھوم دھام سے ’شادی‘

بندروں کی ’جوڑی‘ کو شادی کے بعد جیپ کے اوپر بٹھا کر لے جایا گیاشمالی بھارت میں دو سو سے زائد دیہاتیوں نے دو بندروں کی شادی کی تقریب دھوم دھام سے منائی۔

شادی دونوں بندروں کے مالکوں نے منعقد کی۔ بندر کے مالک نے کہا کہ وہ ان کے لیے ’منہ بولے بیٹے کی طرح‘ ہے۔

شادی پیر کی شام بہار کی ریاست میں ضلع بیتیاہ میں منعقد کی گئی۔ ’دلھن‘ کو ایک سنہری فراک اور ’دلھے‘ کو پیلی ٹی شرٹ پہنائی گئی تھی۔

بندروں کو ہندو دیومالا میں احترام سے دیکھا جاتا ہے۔

13 سالہ بندر ’رامو‘ کو اپنی دلھن ’رام دلاری‘ کے ساتھ پھولوں سے بھری ہوئی جیپ کے اوپر بٹھا کر لے جایا گیا۔ ’سینکڑوں‘ دیہاتیوں نے ’جوڑی‘ کا خیر مقدم کیا۔

بندروں کے مالک اڈیش ماہتو دہاڑی دار ہیں اور ان کی تین بیٹیاں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ رامو ’میرے سب سے بڑے بیٹے کی طرح ہے۔‘

اڈیش نے بی بی سی ہندی کو بتایا: ’میں سب سے پہلے رامو کی شادی کروانا چاہتا تھا۔‘

بندر کے مالک کہتے ہیں کہ وہ ان کے ’بیٹے‘ کی طرح ہےاڈیش نے تقریباً سات سال پہلے رامو کو نیپال میں خریدا تھا اور اس کے بعد رام دلاری کو ایک دیہاتی میلے میں خریدا۔

انھوں نے کہا کہ ’پہلے تو ان دونوں کی بالکل نہیں بنتی تھی۔ لیکن بعد میں یہ ایک دوسرے کو پسند کرنا شروع ہو گئے، اس لیے میں نے ان کی شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔‘

بندروں کی شادی کی نگرانی ایک مقامی پادری سنیل شاستری نے کی۔

انھوں نے کہا: ’پہلے تو میں بندروں کی شادی کروانے سے ہچکچا رہا تھا لیکن جب میں نے دیکھا کہ اڈیش اس شادی کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو میں شادی کروانے کے لیے رضامند ہو گیا۔ ہم نے شادی کی تقریب کے لیے ایک مبارک دن اور وقت بھی چنا۔‘

شادی کے کارڈ بھی چھپے اور شادی پر گانا گانے کے لیے ایک بینڈ کو بھی بلایا گیا۔ مہمانوں کے لیے ایک ضیافت کا اہتمام بھی کیا گیا۔

کئی ہمسائے شادی کے جلوس کو دیکھنے کے لیے آئے اورانھوں نے تصاویر لے کر سوشل میڈیا پر لگائیں۔

شادی کے دوران دونوں بندروں کو زنجیروں سے باندھا گیا تھا لیکن شادی کے بعد ان کے مالک نے انھیں کھلا چھوڑ دیا۔

مشرقی اڑیسہ ریاست میں سنہ 2008 میں تقریباً 3000 لوگ اس طرح کی بندروں کی ’شادی‘ کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔

اپنا تبصرہ لکھیں