اوور سیز پاکستانیوں کے لیے یوم پاکستان کی اہمیت

میرا پیارا پاکستان


شازیہ عندلیب
پاکستانی دنیا کے کسی بھی خطے میں بستے ہوں ان کے دل اپنے وطن کے نام پر دھڑکتے ہیں۔ اس لیے کہ وطن کی حیثیت ماں دھرتی جیسی ہوتی ہے اور اپنی ماں سے کون پیار نہیں کرتا ماں چاہے کتنی بھی کمزور اور بیمار کیوں نہ ہو ہر اہل دل خاص طور سے سچا مسلمان اور پاکستانی اپنی ماں سے پیار کرتا ہے۔ہم چاہے کسی بھی ملک کی نیشنلٹی لے لیں وہاں کتنا ہی عرصہ کیوں نہ گزار لیں مگر ذرا اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کے بتائیں کہ پاکستان کے نام پہ پاکستان جانے پر پاکستان کی خبروں پہ دل دھڑکتا ہے کہ نہیں؟
پاکستان کی خوشیوں پہ کامیابیوں پہ یہ دل رقص کرتا ہے کہ نہیں؟
پاکستان کے دکھ تکلیف پہ مشکلوں اور آفتوں پہ یہ دل روتا ہے کہ نہیں؟
یہ سب ہوتا ہے تو پھر آپ کو مبارک ہو کہ آپ اہل ایمان ہیں اس لیے کہ فرمان الٰہی ہے کہ
جس کے دل میں وطن کی محبت نہیں وہ اہل ایمان نہیں۔
بیرون ملک بسنے والے پاکستانی وطن سے دور ضرور رہتے ہیں مگر ان کے دل وطن سے قریب ہیں۔اسکا ثبوت یہ ہے کہ جب بھی پاکستان سے کوئی مہمان کوئی اہم شخصیت کسی بھی بیرون ملک جاتی ہے لوگ اسے ملنے کے لیے بیتاب ہو جاتے ہیں۔جب بھی کوئی مشکل وقت آتا ہے یہی پاکستانی اپنے وطن کی ہر مدد مالی مدد حمائیت اور مظاہروں کے لیے تیار ملتے ہیں۔اوور سیز پاکستانی نہ صرف ان ممالک کی ترقی میں بھرپور حصہ لیتے ہیں بلکہ پاکستان میں بھی ترقی کا باعث بنتے ہیں۔بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کی فنڈنگ کی وجہ سے کئی فلاحی ادارے اور ٹرسٹ چل رہے ہیں جس کا مقصد ضرورتمند اور دکھی لوگوں کی امداد کرنا ہے۔
بیشتر پاکستانی تعلیم روزگار اور تحفظ کی خاطر اپنے وطن سے دور رہیتے ہیں۔یہ ہجرتیں شروع زمانے سے انسان کو اسکے آبائی علاقوں اور ملکوں سے دور لے جاتی رہی ہیں۔اسلام اسی طرح پھیلا اور لوگ اسی طریقے سے ایک دوسری تہذیبوں رہن سہن اور مختلف کھانے پینے کے طریقوں سے واقف ہوئے ہیں۔جہاں مختلف قومیں آباد ہوں وہاں نسلی اور لسانی بنیادوں پر مسائل بھی ابھرتے ہیں۔کہیں کم اور کہیں ذیادہ۔مگر افسوس ہوتا ہے کہ پاکستان و کہ اسلام کے نام پہ معرض وجود میں آیا ہے وہاں کے لوگ ہی آپس میں مل کر نہیں رہ پاتے صوبائی اور علاقائی تعصب نے ملک کا ماحول خرا ب کر دیا ہے اور پھر سیاستدانوں کا رویہ نہلے پہ دہلہ۔
ُسوال یہ ہے ہے بیرون ملک یوم آزادی کا کیا مقصدہے اور اسے کیوں منایا جائے؟
بیرون ملک اپنا قومی تشخص او پہچان اجاگر کرنے کے لیے یہ دن منانا چاہیے اور اپنی نئی نسل کو بچوں کو اور اپنے مقامی ساتھیوں کولیگز کو اپنی پہچان کروانے کے لیے یہ دن منانا ضروری ہے اس لیے کہ نسلی تعصب کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دوسری اقوام آپ کی تہذ یب و روایات سے ٹھیک سے واقفیت نہیں ہوتیں،جس کی وجہ سے اجنبیت اور فاصلے بڑھتے ہیں جو کہ تصادم اور جھگڑون کی وجہ بنتے ہیں۔ایسے حالات میں شر پسند عناصر اور جھگڑا ڈالنے والے لوگوں کو بھی موقعہ مل جاتا ہے۔اگر آپ مقامی لوگوں کو بھی اپنے تہواروں اور قومی دنوں میں شامل کریں تو اس سے صحتمند ماشرے کی تشکیل ہو گی۔مگر یاد رلکھین مقامی لوگوں کو اپنی خوشیوں میں شامل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اپنی تہذیبو روایات کو چھوڑ دیں۔ایک ملٹی کلچرل معاشرے کا اصل حسن تو یہی ہے کہ آپ انکی روایات کا احترام کرتے ہوئے اپنارنگ بھی دکھائیں اور خوبصورت ثقافتی امتزاج کا باعث بنیں۔جیسے خاص تہواروں پہ اپنا لباس اپنے کھانے اور اپنی روائتی سجاوٹ اور گیت پیش کریں۔
ضروری نہیں کہ آپ یہ پروگرام اسی دن پیش کریں اپنے مقامی جاننے والوں کو اچھے پڑوسیوں کو اور بچوں کے کلاس فیلوز اور دوستوں کے ساتھ کسی اور دن بھی کوئی پارٹی کر سکتے ہیں۔اپنے طن کے خاص ایونٹس کی تصاویر اور وڈیوز دکھا سکتے ہیں بچے پاکستانی ترانے اور گیت سنا سکتے ہیں پھر جب اس کے ساتھ آپ پاکستانی کھانے پیش کریں گے تو یقین کریں کہ آپ کے مہمان انگلیاں چاٹتے رہ جائیں گے اور آپ کے گرویدہ ہو جائیں گے۔کیونکہ پوری دنیا میں پاکستانی کھانوں کا کوئی ثانی نہیں۔میری بیٹی کی ایک نارویجن اور عراقی دوست کو روٹی بہت پسند تھی میری بیٹی اکثر فرمائش کرتی کہ میری دوست کے لیے بھی روٹی ضرور بنائیں۔صبرینہ کی نارویجن دوست کارنمیلیاء کو روٹی پکانے کا منظر بہت پسند تھا وہ اکثر اس بات پہ حیران ہوتی تھی کہ آخر یہ روٹی پھول کیسے جاتی ہے اور وہ بھی بغیر سوڈے اور خمیر کے۔۔۔جبکہ اسکول میں انہیں جو پیزا بنانا سکھایا جاتا ہے اس میں تو ہمیشہ خمیر استعمال ہوتا ہے۔
اسی طرح میری ایک نارویجن کولیگ کی فیملی کچھ عرصہ پاکستان میں بچپن میں فیملی کے
ساتھ رہ کے آئی تھی وہ اکثر پاکستان کا ذکر بہت خوش ہو کر کیا کرتی تھی۔جو غیر ملکی پاکستان کو اور پاکستانیوں کے بارے میں جانتے ہیں انکی اچھی روایات سے واقف ہیں وہ ہمیشہ ہمیں عزت و احترام ہی دیتے ہیں۔مجھے ناروے میں رہتے ہوئے دو دہائیاں گزر گئی ہیں مگر میں نے ہمیشہ نارویجنوں کا رویہ دوستانہ ہی دیکھا ہے۔یہاں کے اخباروں میں بھی پاکستان کی خبریں زینت بنتی رہتی ہیں جس کے بارے میں نارویجن ضرور پوچھتے ہیں۔جیسے انتخابات یا کوئی اور خاص واقعہ۔بہر حال جو بھی ہے پاکستانی بیرون ملک کتنے ہی اچھے کیوں نہ رہ لیں انکی اصل پہچان انکا پاکستان ہی ہے اس لیے پاکستا کا نہ صرف قومی دن بلکہ باقی تہوار بھی منانے چاہئیں اگر آپ چاہتے ہیں کہ بیرون ملک مقامی معاشروں میں آپکی عزت ہو نسلی منافرت میں کمی آئے تو پھر آپ بھی اپنے وطن کی عزت کریں اور کروائیں چاہے ملکی حالات کتنے ہی خرا ب ہوں وطن کی عزت پہ آنچ نہ آئے۔لیکن دو باتوں کاخیال رکھیں کہ ایسے مقامی لوگوں کو ساتھ لے کے چلیں جو روشن خیال ہوں حاسد اور تنگ نظر لوگوں سے دور رہیں۔دوسرے آپ کے کسی رویہ سے یہ ظاہر نہ ہو کہ آپ انہیں نیچا دکھا رہے ہیں۔یہ بہت بیوقوفی کی بات ہے۔اور اپنا وطن تو ہے ہی پیارا
اپنا وطن اپنی پہچان میرا پیارا پاکستان
جو سمجھے وہ سچا مسلمان جو نہ سمجھے وہ نادان
چاہے بسے کوئی پردیس یا وہ بدلے اپنا بھیس
پھر بھی رہے گا اپنا مان میرا پیارا پاکستان
یہ بھی سچ ہے نکلے اکثر سیاستدان بڑے بے ایمان
لیکن کچھ نے وطن کی خاطر وار دی اپنی جان
پلا کے چائے دشمن کو بنایا اپنا مہمان
اپنا وطن اپنی پہچان میرا پیارا پاکستان

اپنا تبصرہ لکھیں