انڈیا اردو سوسائٹی ، قطر کے زیر اہتمام عید ملن مشاعرہ

رپورٹ: ڈاکٹر نشاط صدیقی۲۷؍ستمبر ۲۰۱۵ ؁ء رات آٹھ بجے ، انڈیا اردو سوسائٹی،قطر نے عید قرباں کی مناسبت سے علامہ ابن حجر لائبریری کے کشادہ ہال میں عید ملن مشاعرے کا اہتمام کیا ۔ خواتین کے لئے پردے کے اہتمام کے ساتھ نشستیں مخصوص کی گئی تھیں۔ مشاعرے سے قبل انڈیا اردو سوسائٹی،قطر کے رابطہ سکریٹری سید محمد رفیع صاحب کی طرف سے پرتکلف عشائیہ کا بھی اہتمام تھا ۔
مشاعرے کا آغاز سوسائٹی کے نائب جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد اسلم کی تمہیدی نظامت سے ہوا ، انہوں نے مہمانوں کا استقبال کیا اور آج کے مشاعرے کی صدارت کے لیے سوسائٹی کے صدر جناب عتیق انظر کو دعوت دی ، مہمان خصوصی اور مہمان اعزازی کی نشستوں کو رونق بخشنے کے لئے سوسائٹی کے نائب صدر ڈاکٹر ابو سعد احمد اور پونہ سے تشریف لائے ہوئے ادب دوست مہمان جناب طیب شیخ کو دعوت دی گئی ۔ ڈاکٹر محمد اسلم صاحب نے عید الاضحی کی مناسبت سے کچھ سنجیدہ اور کچھ مزاحیہ منتخب اشعارسے حاضرین کو محظوظ کیا اور مشاعرے کی باقاعدہ نظامت کے لئے جناب محمد شاہد خاں کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی ۔
انڈیا اردو سوسائٹی،قطرکے جنرل سکریٹری اور آج کے ناظم مشاعرہ جناب محمد شاہد خاں نے حاضرین کا استقبال کرتے ہوئے فرمایا کہ انسان اپنے مافی الضمیر کی ادائیگی کے لئے لفظوں کا محتاج ہوتا ہے۔ ایک بچہ اپنی پیدائش کے وقت تقریبا گونگا ہوتا ہے ، اسکے والدین اور اردگرد موجود لوگ اسکی حرکات و سکنات سے اس کی ضرورتوں کا اندازہ کرتے ہیں، پھر جیسے جیسے اسکا سن بڑھتا ہے ویسے ویسے اس کا اسلوب بیان نکھرتا جاتا ہے ، غوں غاں سے لے کر مفرد الفاظ کے نطق تک ایک مرحلہ طے ہوتا ہے ، دوسرے مرحلے میں وہ جملے اور مرکبات استعمال کرنا سیکھتا ہے اور اپنے مافی الضمیر کی ادائیگی پر قدرت حاصل کرلیتا ہے ، انسان کی زندگی میں ایک تیسرا مرحلہ بھی آتا ہے جب اس کے پاس کسی خیال یا کسی ضرورت کے اظہار کے لئے ایک سے زائد جملے ، تراکیب اوراسالیب موجود ہوتے ہیں ، یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جسے ہم ادب اور شعر وشاعری سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اس مختصر گفتگو کے بعد شعراء کرام کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے انہوں نے آج کی نشست کے پہلے شاعر جناب عابد گونڈوی کو دعوت دی ، عابد صاحب نے سنجیدہ اور مزاحیہ دونوں طرح کا کلام سنایا اور خوب داد و تحسین حاصل کی ، منتخب اشعار سے آپ بھی محظوظ ہوں:
یاد جب اس کی ہوئی تو فورا اس سے مل لیا
دوریاں نزدیکیاں دونوں برابر ہیں یہاں
کیسی کیسی بازیاں لگتی ہیں عورت کے لئے
گوریاں اور کالیاں دونوں برابر ہیں یہاں
مال و دولت کی فراوانی بہت ہے دیس میں
سبزیاں اور مرغیاں دونوں برابر ہیں یہاں
زیب و زینت میں یہاں تواک سے بڑھ کر ایک ہے
بچیاں اور بوڑھیاں دونوں برابر ہیں
عابد گونڈوی کے بعد جناب وصی الحق وصی کو زحمت سخن دی گئی ، ان کا تعارف کراتے ہوئے ناظم مشاعرہ نے کہا کہ وصی الحق وصی کے تعارف کے لئے ان کی شاعری کافی ہوگی ، انہیں دوحہ میں اپنی ادبی شناخت بنانے کے لئے کسی ایجنٹ کی ضرورت نہیں پڑے گی، وصی صاحب کا منتخب کلام نذر قارئین ہے:
خدا کے حکم پہ لخت جگر کی قربانی
مثال ایسی کہاں ہے کسی بشر کے لئے
چھری پسر کے گلے پرہو ، ذبح دنبہ ہو
ہے انتہائے مسرت کسی پدر کے لئے
یقین ہوتو ہر اک امتحان آساں ہے
یہ اک پیا م ہے ، ہر صاحب نظر کے لئے
گلے ملوکہ محبت کا ہے سبب یہ بھی
حسین لمحہ یہ ہے عفوو در گزر کے لئے
وصی میں کیوں نہ لکھوں یہ سنہری حرفوں میں
اب اس سے بڑھ کے بھی کچھ ہوگا آب زر کے لئے

دروغ عام ہوا صدق معتبر نہ رہا
عجیب دور ہے کچھ فرق خیروشر نہ رہا
کچھ ایسے غرق رہی تیرگی میں یہ اپنی
شبِ فراق کو اندازۂ سحر نہ رہا
قفس کے پار بھی ہے قید و بند سی صورت
اڑان کے لئے آزادمیرا پر نہ رہا
ثبوت ہم سے ہماری ہی سرفروشی کا
لگے ہے یوں کہ سرِ دار اپنا سر نہ رہا
حیات و زیست کے یہ مرحلے ہیں کب مشکل
یہ اور بات کہ ایمان قدر پر نہ رہال
تضاد جب سے وصی قول وفعل میں آیا
تمہاری بات کا لوگوں پہ کچھ اثر نہ رہا
وصی الحق وصی کے بعد دوحہ کے ابھرتے ہوئے شاعر راشد عالم راشد کی باری آئی ، راشد صاحب نے دو غزلیں عنایت کیں ، منتخب اشعار سے آپ بھی محظوظ ہوں:
کیا تم گئے دنیا مری ویران بہت ہے
گھر ہی نہیں دل کی گلی سنسان بہت ہے
پہلے تو مجھے ہجر کا احساس نہیں تھا
اب ان سے ملاقات کا ارمان بہت ہے
دل دے کے اگر اس کی نہ مانی تو ائے کمبخت
اس کا نہیں بس تیرا ہی نقصان بہت ہے
وہ بزم میں آئے تو تمہیں کیا ہوا راشد
کیوں آج تو اپنوں سے بھی انجان بہت ہے

ناداں ہوں میں اوروں میں جہاں ڈھونڈ رہا ہوں
خود دل میں ہے میرے میں کہاں ڈھونڈ رہا ہوں
آنکھوں میں سمندر ہے تو زلفوں میں گھٹائیں
ہونٹوں پہ میں کلیوں کے نشاں ڈھونڈ رہا ہوں
منصور کی جرأت ہو کہ حنبل کی صداقت
دربار میں تیرے وہ زباں ڈھونڈ رہا ہوں
گھر میں ہی مجھے آتا ہے جنت کا مزہ تو
حیرت ہے میں پھولوں کا مکاں ڈھونڈ رہا ہوں
راشد نہیں ہے فائدہ صرف آہ و بکا سے
کہہ دو کہ میں مومن کی اذاں ڈھونڈ رہا ہوں
راشد صاحب کے بعد دوحہ کے ایک اور نوجوان شاعر جناب روئیس ممتاز کو دعوت سخن دی گئی، روئیس کے منتخب اشعار سے قارئین بھی حظ اٹھائیں:
گرترا ساتھ نہ ہوگا تو بکھر جائے گی
زندگانی ہے گزرتی ہے گزر جائے گی
زندگی موت نہیں ہوتی یہ سچ ہے لیکن
اور اگر ایسے رہے زندہ تو مر جائے گی
توڑ دینے دو مجھے حوصلے ٹوٹیں نہ کہیں
زندگی آئینہ دیکھے گی تو ڈر جائے گی
شاعری میری نہ تم ڈوب کے پڑھنا ہر گز
مجھ پہ جو گزری ہے تم پر بھی گزر جائے گی
روئیس ممتاز کے بعد وقار صاحب کو زحمت سخن دی گئی ، وقار صاحب اچھی شاعری کرتے ہیں ، لیکن اس طرف زیادہ توجہ نہیں دیتے ،کبھی کبھار ہی مشق سخن کی تکلیف گوارا کرتے ہیں ،وقار صاحب نے ایک غزل کے چند شعر اور ایک نظم پیش کی، نظم کا عنوان ہے ’وطن کی صبح‘
جو آزادی کی شہزادی تھی کس دنیا کی رانی تھی
سنا تھا جس کو بچپن میں وہ پریوں کی کہانی تھی
ہمالہ حوصلہ تھا فکر دریا کی روانی تھی
بڑا بے خوف تھا بچپن بڑی بانکی جوانی تھی
کبھی مجھکو بھی اک شہناز لالہ رخ تماشہ تھی
کبھی دل پر ہمارے تھی کسی کی حکمرانی تھی
بہ ہنگام سحر ہر روز میں اک خواب بنتا تھا
شفق کی سرخیاں مجھ کو نوید کامرانی تھی
مری گردن نہ جھکتی تھی کسی نمرود کے آگے
میں ابراہیم تھا مجھ پر حرم کی پاسبانی تھی
وطن کی آبرو پر جان دینا دین تھا میرا
متاع جاں لٹا دینا حیات جاودانی تھی
ہماری صبح روشن تھی ہماری شام رنگین تھی
زمینی جبر تھا کوئی نہ آفت آسمانی تھی
یہ کس نے میرے گھر آنگن کو وحشت ناک کر ڈالا
یہ کس کی بد نظر تھی جس نے سب کچھ خاک کرڈالا
مرے اجلے وطن کی خاک کو ناپاک کر ڈالا
جہاں اہل جنوں کی بے بسی پر قیس روتا ہے
جہاں اہل خرد نے بھی گریباں چاک کرڈالا
عروس قصر جمہوری کو رسوا کردیا کس نے
یہ کس نے نرگسی آنکھوں کو یوں نمناک کر ڈالا
کیا کس جرأت گستاخ نے خاموش گاندھی کو
یہ کس کی شہ نے ناتھورام کو بے باک کر ڈالا
شبستان سیاست میں کئے گھی کے دئے روشن
عوام الناس کے تن کو کفن پوشاک کرڈالا
وطن کی صبح تو ایسی نہ تھی میرے وطن والوں
چمن کی شام تو ایسی نہ تھی میرے چمن والو
کبھی سورج کی کرنوں پر کوئی پہرہ نہیں ہوتا
کبھی میلا کسی پر چاند کا چہرہ نہیں ہوتا
مری قربانیاں چرخ کہن نے یاد رکھی ہیں
لہو سے ہم نے تاریخ جہان آباد لکھی ہے
نہ سنبھلے تو زمانہ پھر تمہیں پامال کردیگا
تمھارے ماضی سے بدتر تمھارا حال کردے گا
تمھاری نامرادی کے فسانے وقت لکھے گا
تمھارے نام سے پہلے تمہیں کم بخت لکھے گا
جو کچھ لوٹا ہے تو نے رکھ لے امن عام واپس کر
وطن کی صبح لوٹا دے چمن کی شام واپس کر
اب ناظم مشاعرہ نے دوحہ کے فعال اور ممتاز شاعر جناب افتخار راغب کو حاضرین سے رو برو کرایا ، آپ نے ایک ظریفانہ غزل کے ساتھ عید اور اس کے پیغام کے حوالے سے بھی ایک غزل پیش کی :
ہچکچاتا ہے کیا گلے لگ جا
عیدکا دن ہے آ گلے لگ جا
آگے بڑھ وسوسوں کو دیکر مات
ہے اگر حوصلہ گلے لگ جا
ذہن و دل روشنی سے بھر جائیں
بھول کر ہر گلہ گلے لگ جا
کیوں پس و پیش اس قدر آخر
یوں نہ آنکھیں چرا گلے لگ جا
بے رخی تیری مجھ کو مار نہ دے
رہ الگ مجھ سے یا گلے لگ جا
گرد رنج و ملال پیچھے چھوڑ
ہاتھ آگے بڑھا گلے لگ جا

ایسا ہم زلف کوئی آجائے
میرے حصے کی مار کھا جائے
سالے سالی کی یاد آجائے
جب بھی جوتا کوئی چرا جائے
میرے شعروں میں گر مزاح نہیں
میرے حلیے پہ ہی ہنسا جائے
’’کوئی صورت نظر نہیں آتی‘‘
میرا چشمہ مجھے دیا جائے
چیختے چیختے صدی گزری
رینگتے رینگتے صدا جائے
خیر خواہوں کی خیر خواہی سے
بے تکی شاعری بھی چھا جائے
سب میں کیڑے نکالتا ہے مگر
سن کے تنقیدتلملا جائے
ہڈیاں ہم اسے کھلاتے ہیں
پھر بھی ہم پر و ہ بھونکتا جائے
اس کی راہوں میں خار کے بدلے
اس کی غزلیں کو ئی بچھا جائے
جسکو باسی غزل کی عادت ہو
بزم اردو قطر میں کیا جائے
جس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم
اس کے بارے میں سب لکھا جائے
ایک بھی شاعرہ نہیں آئی
کون سننے مشاعرہ جائے
وہ سنائے غزل ظریفانہ
اور ہر شخص کو رلا جائے
چھوڑ دوں گا میں شاعری راغب
شعر کہنا تو پہلے آجائے
جناب افتخار راغب کے بعد بزم اردو قطر کے صدر اور قطر کے معروف ادب نوازا ور سماجی کارکن جناب شاد اکولوی صاحب کو دعوت سخن دی گئی ، آپ نے عید قرباں کے حوالے سے ایک قطعہ اور حالات حاضرہ کی عکاس ایک غزل سے سامعین کو محظوظ فرمایا:
پر مسرت آج کی یہ شام ہے
خالق کونین کا انعا م ہے
خواہشاتِ نفس ہم قرباں کریں
عید قرباں کا یہی پیغام ہے

زندہ لاشیں کھڑی دوکان پہ ہیں
پیاز کے بھاؤ آسمان پہ ہیں
پھر کوئی جنگ چھڑ نہ جائے کہیں
تیر رکھے ہوئے کمان پہ ہیں
سیکھئے کچھ زمین کا بھی چلن
آپ اڑتے تو آسمان پہ ہیں
سرخ آندھی کی زد میں تھے جو کبھی
کچھ کبوتر وہ سائبان پہ ہیں
مغربی کہکشاں کی بارش سے
تیل کی منڈیاں لگان پہ ہیں
منتظر ہے کہیں مکاں دوگز
اور جھگڑے کسی مکان کے ہیں
شاد کے شعر ہیں بہت سادہ
دوستوں کی مگر زبان پہ ہیں
شاد اکولوی کے بعد آج کے مشاعرے کے صدر نشیں ، دوحہ کے سینیر شاعر اور جدید لب و لہجہ کے حامل جناب عتیق انظر کو آواز دی گئی، آپ نے دو غزلوں اور ایک نظم سے سامعین کو مسرت و بصیرت بخشی:
شجر کی گود خالی ہوگئی ہے
پریشاں ڈالی ڈالی ہوگئی ہے
ہوائیں رقص کرتی ہیں جنوں میں
بہار گل نرالی ہوگئی ہے
لہو میں تر بہ تر ہے فاختہ کیوں
نظر ہر اک سوالی ہوگئی ہے
ابھرتاہی نہیں ہے چاند کوئی
نظر کھڑکی کی جالی ہوگئی ہے
ہنسی کے پھول سب میں بانٹتی ہے
وہ بالکل لاابالی ہوگئی ہے
خدا محفوظ رکھے نظر بد سے
غزل میری مثالی ہوگئی ہے

’ڈھونڈ رہا ہوں میں انسان،
دھرتی کس کی کھوج میں پھرتی رہتی ہے
سورج کس کی یاد میں جلتا رہتا ہے
امبرکی گہری نیلی چادر پر
یہ چاند ستارے
کس سے ملنے کی خواہش میں
اونگھتے رہتے ہیں
ذرہ ذرہ دنیا کا
ہے کس کے واسطے گردش میں
مجھ کو کیا معلوم
مگر میں خود بھی کتنی صدیوں سے
دھرتی ، سورج، چاند ، ستاروں کی مانند
پریشاں ہوں
اپنی کھوج میں رقصاں ہوں
سر گرداں ہوں
اس دھرتی پر صرف فرشتے ملتے ہیں
یا پھر شیطان
ڈھونڈ رہا ہوں میں انسان
ڈھونڈ رہا ہوں میں انسان

آگ کا ’دریا ،دیا جس نے گزرنے کے لیے
ناؤ بھی دے گا وہی پار اترنے کے لیے
تیری آنکھیں نہ بجھیں میری قضا سے پہلے
تیری آنکھیں ہیں مرے خواب اترنے کے لیے
میرے جذبات کی قسمت میں فنا لکھی ہے
میرے آنسو ہیں چٹانوں پہ بکھرنے کے لیے
زندگی میں نے تجھے دل کا لہو نذر کیا
اور کیا چاہیے اب تجھ کو سنورنے کے لیے
موت کے بعد بھی جینا ہے یہی سوچ کے بس
دل کسی طرح بھی راضی نہیں مرنے کے لیے
جناب عتیق انظر کے بعد ناظم مشاعرہ نے اسٹیج کا رخ کرتے ہوئے آج کی نشست کے مہمان اعزازی جناب طیب شیخ سے اپنے تاثرات پیش کرنے کی گزارش کی۔
جناب طیب شیخ نے فرمایا کہ میرا تعلق ممبئی سے رہا ہے اور بچپن سے ہی مشاعروں میں شرکت کا شوق تھا ۔ ممبئی میں کافی بڑی سطح پر مشاعرے ہوا کرتے تھے اور ان مشاعروں کے توسط سے بیسویں صدی کے بہت نمایاں اور معتبر شعرا کو روبرو سننے کا موقع نصیب ہوا ہے ، ترقی پسند تحریک کے دور عروج میں اس تحریک کے تقریبا تمام بڑے شاعروں کو سنا اور پڑھا ، ساحر لدھیانوی سے خصوصی دلچسپی تھی اسلئے ان کا تقریبا سارا ہی کلام پڑھا ہوا ہے ۔ آپ لوگوں سے یہ سب اس لئے شیر کررہا ہوں کہ آپ کو یقین دلا سکوں کہ میرے ان طویل ’مشاعرانہ، تجربات کی روشنی میں آج کا مشاعرہ ایک کامیاب مشاعرہ تھا ۔ برصغیر سے دور دراز اس صحرا میں اردو پھل پھول رہی ہے اور اپنی دنیا وسیع سے وسیع تر کر رہی ہے۔ یقیناًآپ لوگ مبارکباد اور شکریہ کے مستحق ہیں کہ اپنی کاروباری مصروفیات کے دوران اردو ادب اور ہندوستانی تہذیب کی خدمت کے لئے بھی وقت نکال لیتے ہیں۔
مہمان خصوصی ڈاکٹر ابو سعد احمد نے فرمایا کہ ’ انڈیا اردو سوسائٹی ‘ کی ماہانہ شعری نشستوں کو بحال کرنے کا اصل مقصد یہی تھا کہ ہمارے نوجوان دوستوں کی خفتہ ادبی صلاحیتیں بیدار ہوں اور ان میں رفتہ رفتہ نکھار پیدا ہو، ایک دن میں کوئی غالب ، مومن یا ذوق نہیں بن جاتا تدریج اور مشق سے ہی ترقی کا راستہ طے ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ سب لوگوں کے لئے شعر کہنا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے ، شعر فہمی بذات خود ایک بڑی صلاحیت اور نعمت ہے ، اس لئے اپنی اپنی صلاحیتوں کی مناسبت سے اس اسٹیج سے فائدہ اٹھایا جانا چاہئے ۔ شعرو ادب کے حوالے سے مجھے ایک حدیث بھی یاد آرہی ہے ’ إن من البیان لسحرا وإن من الشعر لحکمۃ ‘ یعنی فصاحت و بلاغت کے شہ پاروں میں ایک طرح کا جادو ہوتا ہے اور شاعری میں حکمت و دانائی کی باتیں ہوتی ہیں ۔
آج کی نشست کے صدر جناب عتیق انظر نے ایک شعر سے اپنی گفتگو کا آغاز کیا :
اتنی ملتی ہے مری غزلوں سے تیری صورت
لوگ تجھ کو مرا محبوب سمجھتے ہوں گے
صدر صاحب نے فرمایا کہ ’ انڈیا اردو سوسائٹی ‘ کے نو منتخب جنرل سکریٹری جناب محمد شاہد خان نے آج کے مشاعرے کی بڑی کامیاب نظامت کی ، بجا طور پر ان سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ بحسن و خوبی سوسائٹی کی ذمہ داریاں نبھائیں گے۔ ہم لوگوں کا مقصد بھی دراصل یہی تھا کہ ’ انڈیا اردو سوسائٹی ‘ سے کچھ ایسے لوگ جڑیں جو ادب کے اس قافلے کو لے کر آگے بڑھیں ، الحمد للہ یہ مقصد پورا ہوتا نظر آرہا ہے ، گزشتہ چند مہینوں کے دوران بہت قابل قدر لوگ اس سوسائٹی سے وابستہ ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔آپ نے اس کامیاب مشاعرے کے انعقاد اور اہتمام پر جناب شاہد کو مبارکباد پیش کی۔
اس مختصر صدارتی گفتگو کے بعد آج کے مشاعرے کے میزبان سید محمد رفیع صاحب نے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور اس کے ساتھ ہی ناظم نے مشاعرہے کے اختتام کا اعلان کیا۔

اپنا تبصرہ لکھیں