انتقام



alia chishti 1تحریر شازیہ عندلیب
نادرہ نومان کی گوری رنگت غصہ اور انتقام کی آگ سے اس وقت سرخ ہو گئی جب ناشتے کی میز پر بہزاد علی نے یہ خبر سنائی کہ سحرش رومانی پھر اپنی امی کے پاس اسلام آباد چھٹیاں گزارنے جا رہی ہے۔اسے جیسے ہی یہ خبر اس کے شوہر نے سنائی نادرہ نے فوراً طنزیہ انداز میں کہا وہ یہاں شادی کر کے گھر بسانے آئی ہے یا چھٹیاں گزارنے!! مگر سحرش کے شوہر کے جواب نے اسے مزید آگ بگولا کردیا و ہ ہنس کر بولا۔۔۔۔
نہیں بھابھی وہ اکیلی تو نہیں جا رہی میں اسے چھوڑنے جا رہا ہوں۔اسلام آباد بہت خوبصورت شہرہے میری بھی آئوٹنگ ہو جائے گی۔
اونہہ۔۔ رن مریدکہیں کا وہ منہ ہی منہ میں بڑ بڑائی۔۔۔۔
بھابھی کا بگڑتا موڈ دیکھ کر بہزاد نے جلدی سے چائے حلق میں انڈیلی اور صحن میں کھڑے موٹر سائیکل پر بیٹھ گیا۔
سحرش اپنے ساس سسر کو سلام کر کے پچھلی سیٹ پر بیٹھی ۔اور دونوں گھر سے نکل گئے۔نادرہ کے پانچ سالہ بیٹے قاصم نے پوچھا امی چچی پھر اسلام آباد جا رہی ہیں؟؟امی ہم بھی اسلام آباد جائیں گے۔۔۔ہاں بیٹے مگروہ تو اپنی امی کے پاس جا رہی ہیں۔۔۔۔
وہ بڑے دلارسے اپنے بیٹے کوسمجھا نے کے انداز میں کہہ رہی تھی۔بیٹے کی اداسی دیکھ کر اسکا غصہ رفو ہو گیا اب اس کے چہرے پہ ہلکی سی فکر مندی کے اثرات ابھر آئے تھے۔امی میں بھی چچی کی امی کے پاس جائوں گا ۔۔چچا بھی تو۔۔۔ننھے قاصم کا جملہ پورا ہونے سے پہلے ہی نادرہ نے اسے ڈپٹ دیا۔تم ذیادہ چچی کے لاڈلے نہ بنا کرو۔۔اور قاصم منہ بسور کرصحن میں لگے پیڑ کے نیچے جا کر بیٹھ گیا۔نادرہ نے اسے سائیکل دی تاکہ وہ چلائے مگر اسکا بالکل جی نہیں چاہ رہا تھا۔اس کا تو دل تو اسلام آباد جانے کو چاہ رہاتھا۔
سحرش کی شادی کو ابھی چھ ماہ کا ہی عرصہ گزرا تھا۔اس عرصہ میں قاصم اس سے کافی مانوس ہو چکا تھا۔وہ ایک مہنگے اسکول میں ملازمت کرتی تھی۔وہ خود بھی خوب ہنستی اور سب کو خوب ہنساتی تھی۔ وہ بچوں کی نظمیں خوب لہک لہک کرسنایا کرتی جسے بچے سن کرلطف اندوز ہوتے۔
رو لے منے رو لے اس کی فیورٹ نظم تھی۔
وہ جاب سے گھر آتی توقاصم کا بیشتر وقت اس کے پاس ہی گزرتا تھا۔وہ اس سے کافی مانوس ہو چکا تھا۔وہ اسے مزے مزے کی نرسری رائمز اور کہانیاں سنایا کرتی تھی۔اسے ہنستی مسکراتی اور سجی سنوری چچی بہت اچھی لگتی تھی۔سب گھر والے ا کے اتنے عادی ہو گئے تھے جیسے وہ یہاں چھ ماہ سے نہیں بلکہ چھ برس سے آباد ہو۔
مگر جب بھی لمبی چھٹیاں ہوتیں وہ اسلام آباد اپنی امی کے پاس چلی جاتی تو قاصم اداس ہو جاتا۔اب وہ پھربہار کی چھٹیاں گزارنے اسلام آباد جا رہی تھی۔اس کے جانے کے بعد گھر بھر میں اداسی چھا جایا کرتی تھی ۔مگر اب نادرہ نے سوچ لیا تھا کہ وہ اسے ایسا مزہ چکھائے گی کہ وہ اسلام آباد کا راستہ ہی بھول جائے گی۔خوش قسمتی سے نادرہ کی ساس بھی کچھ روز کے لیے لاہور چلی گئی تھیں اب نادرہ گھرمیں اکیلی تھی ۔یہ اس کے منصوبے پرعمل کا اچھا موقعہ تھا۔چنانچہ اس نے سحرش کی واپسی سے دوروز پہلے رات کے کھانے کی میز پر یہ اعلان کر دیا کہ وہ پورے ہفتے کے لیے اپنی امی کے گھر جا رہی ہے۔اور وہ بھی بچوں سمیت۔۔۔ویسے نادرہ کے لیے بھی یہ تھا تو مشکل لیکن سحرش کو سبق سکھانے کے لیے بہت ضروری تھا۔حالانکہ اس کی امی کے گھرتین عدد بھابھیوںاور ان کے سب کے تیرہ بچوں سمیت گھر میں گزارہ مشکل کام تھا۔پھر یہاں سسرال جیسی عیش و عشرت نو کر چاکر اور ہر چیز کی فراوانی بھی نہ تھی۔بہرحال وہ فیصلہ کرچکی تھی۔اس نے اپنے شوہر سے بھی کہہ دیا تھا تھا کہ وہ اسے نہ روکنے کی کوشش نہ کرے کیونکہ وہ سحرش کو سبق سکھانے جا رہی ہے۔ویسے بھی دیورانی جیٹھانی کا رشتہ ساس بہو کے بعد سب سے پیچیدہ رشتہ ہوتا ہے۔اس رشتہ میں بظاہر بہت رکھ رکھائو ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن بیشتر جیٹھانی دیورانی ایک دوسرے سے مقابلہ بازی اور حسد کے زیر اثر ہی رہتی ہیں۔جبکہ خاندان کے مرد ان معاملات سے دور ہی رہتے ہیں۔حالانکہ ان باتوںکا ا ثر نہ صرف بچوں کی تربیت پر بلکہ گھر کے حالات اور ماحول پر بھی پڑتا ہے۔بیشترساسوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی بہوئوں کی دوستی آپس میں نہ ہونے دیں ورنہ ان کی حکومت کی بنیادیں کمزور ہو جائیں گی۔نہ صرف یہ بلکہ وہ اپنی بہوئوں کو قابو میں رکھنے کے لیے دیگر رشتہ داروں سے بھی دورر ہی رکھتی ہیں۔جن گھرانوں میں ساس سسر کی آپس میں کشیدگی رہتی ہے وہاں ایسی سازشیں بہت پنپتی ہیں جبکہ خاندان کے بزرگوں کا آپس میں دوستانہ رویہ ایسے حالات پیدا نہیں ہونے دیتا۔مگر اب نادرہ بدلہ لینے کی ٹھان چکی تھی اس لیے اس نے کچھ نہ کچھ تو کر کے ہی دکھانا تھا۔
جب وہ بچوں سمیت امی کے گھر پہنچی تو بھابھیاں بھی یہ سن کر بہت حیران ہوئیں کہ ان کی اکلوتی اور ماں کی لاڈلی نند اتنا ذیادہ وقت گزارنے میکے آ گئی ہے۔حالانکہ اس سے پہلے وہ دو روز سے ذیادہ کبھی نہیں آئی تھی۔نادرہ یہاں آ تو گئی تھی مگر اس سے تو یہاں ٹھیک سے سویا بھی نہیں جاتا تھا۔ بھائیوں کے شیر خواربچے مرغ کی پہلی بانگ کے ساتھ ہی اٹھ کرشورو غوغا شروع کر دیتے تھے۔وہ یوں صبح سویرے تڑکے تڑکے اٹھ بیٹھتے تھے جیسے مرغوں کے ساتھ ان کا مقابلہ چل رہا ہو کہ کون پہلے جاگتا ہے؟؟
پھر اس کے بعد ناشتے کی میز پر عجب سماں ہوتا تھا ۔وہاں بھی ایک مقابلے کی فضا ہوتی تھی۔ہربھابھی سب سے موٹے اوربڑے انڈے اپنے بچوں کے لیے چن کر رکھ لیتی تو بچوں کے والد فرج سے دودھ کے اوپربننے والی بالائی اپنے اپنے پیالوں میں بھر کر رکھ لیتے۔اس کے بعد جو بچا کھچا ہوتا اس سے نادرہ اورا سکے بچے ناشتہ کر لیتے۔اس کے بعد بچوں کی آپس میں لڑائی مارکٹائی شروع ہو جاتی تاکہ ناشتہ صحیح طرح سے ہضم ہو جائے۔کم آمدن اورذیادہ عیالدار گھرانوں میں یہ بھی ایک قسم کی تفریح ہوتی ہے جس ے بچوں کے اعضاء کی نشو نماء کے لیے ضروری خیال کیا جاتا ہے ۔اس لیے والدین بچوں کی لڑائی کا ذیادہ نوٹس نہیںلیتے بلکہ یہ مشاہدہ کرتے ہیںکہ کون ذیادہ طاقتو رہے؟؟غرض یہ گھر کم اور چڑیا گھرذیادہ لگتا تھا۔نادرہ کا یہاں ایک پل بھی رہنے کو جی نہیں چاہتا تھا مگر وہ تو سحرش کو سبق سکھانے آئی تھی۔تاکہ اسے بھی اس کی طرح خالی گھر کاٹ کھانے کو دوڑے۔اسے اس کی اور اس کے بچوں کی یاد ستائے۔اس کا بھی دل گھبرائے۔اور پھروہ اسے فون کر کے بلائے کہ بھابھی پلیز گھر لوٹ آئو نا ۔۔۔تمہارے بنا ء گھر میں بہت اداسی ہے ۔۔۔۔میرا اکیلے گھر میں جی نہیں لگتا۔۔۔وہ تصورہی تصور میں سحرش کو اداس اورپریشان دیکھ کرخوش ہوتی۔
سحرش کو اسلام آباد سے واپس آئے ہوئے پانچ چھ روز ہونے کو آئے تھے۔مگر اس کا کوئی فون نہیں آیا ۔نادرہ کے شوہر نے اسے بتایا تھا کہ وہ اس کا پوچھ تورہی تھی لیکن کسی قسم کی اداسی کا اظہار نہیں کیاتھا۔کوئی بات نہیں دو چارروز گزریں گے تو خود ہی عقل ٹھکانے آ جائے گی۔پورا ایک ہفتہ گزرگیا نہ تو سحرش نے اسے فن کیا ور نہ ہی خود اسے لینے آئی۔نادرہ نے سوچ رکھا تھا کہ جب وہ اسے فون کرے گی تو وہ سحرش کو خوب کھری کھری سنائے گی اور اسے بتائے گی کہ شادی کے بعد روز روز میکے جانا اچھا نہیں ہوتا اگر ا ماں باپ کی اتنی ہی اداسی تھی تو شادی ہی نہیں کرنی تھی۔۔۔۔ اب بتائو رہو گی اتنے دن میکے جا کر؟؟۔ویسے یہ بات تو اس کے شوہر کو کہنی چاہیے تھی جسے اس کی پرواہ ہی نہیں تھی۔۔۔او نہہ رن مرید کہیں کا۔۔۔۔ اس نے اپنی چٹیا کو بل دیتے ہوئے غصہ سے سوچا۔ابھی پانچ روز ہی گزرے تھے کہ وہ گھبرا گئی۔بھابھیوں کے بچوں کے شور و غل اور ہلڑ بازی سے تنگ آ کر اس کا جی چاہ رہاتھا کہ ابھی سامان سمیٹے اور اپنے گھر چلی جائے مگر ۔۔۔مگراسے سبق بھی تو سکھانا تھا ۔۔۔نا ۔۔۔وہ یہ سوچ کر ہی رہ گئی۔۔وہ تو نازش کا داس چہرہ دیکھنا چاہتی تھی جو ہر وقت بنی سنوری اور ہشاش بشاش ہنستی مسکراتی رہتی تھی۔اداسی کیا ہوتی ہے۔۔۔ یہ بھی اسے پتہ ہونا چاہیے۔ٹھیک ہے اس کی شادی پسند کی ہوئی تھی مگر اس کا مطلب یہ بھی تو نہیں تھا کہ اور کسی کے جذبات کا خیال ہی نہ رکھا جائے ۔زندگی میں شوہرکے علاوہ اور لوگ بھی ہوتے ہیں ۔یہ بات اسکے ماں باپ نے شائید اسے نہیں سکھائی تھی مگر میں اسے ضرور یہ سبق سکھائوں گی۔یہ سوچ کر اس نے اطمینان کی سانس لی اور ٹھنڈی سیون اپ کے گلا س میں مزید برف کی ٹکڑیاں ڈال کر چسکیاں لینے لگی۔اب اس کے چہرے پرایک فاتحانہ مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔یا د تو اسے ضرور آتی ہو گی۔۔۔ہم سب کی ۔۔۔۔میرے قاصم کی بھی ۔۔۔ بس بتانا نہیں چاہتی ہو گی ۔اس خیال کے ساتھ ہی اس نے اسی روز گھرواپس جانے کا فیصلہ کر لیا۔حالا نکہ ا س نے پورے ایک ہفتہ رہنے کا سوچا تھا۔ اور ابھی تو دو روز باقی تھے مگراس کا دل بہت جلدی اوب گیا تھا ۔اس نے اپنا سامان لپیٹا رکشہ لیا اور اپنے گھر پہنچ گئی۔بالکل اچانک۔گھر کا گیٹ ملازمہ نے کھولا ۔
صحن میں اس کی متلاشی نگاہوں نے سحرش کا داس چہرہ تلاش کیا ۔۔۔۔۔
وہ آم کے درخت کے نیچے کوئی ڈائجسٹ پڑہتی نظر آ گئی۔مگریہ کیا ۔۔۔۔اس کے چہرے پر تو کوئی اداسی نہیں تھی اور نہ پثر مردگی ہی چھائی ہوئی تھی۔بلکہ ۔۔وہ تو اسے پہلے سے بھی ذیادہ ہشاش بشاش دکھائی دے رہی تھی۔جب اس نے اسے سلام کیا تو اس نے بڑی جان دار مسکراہٹ کے ساتھ اس کا استقبال کیا۔ نادرہ اپنے سامان کے ساتھ اپنے کمرے میں چلی گئی۔مجھے دیکھ کرایکٹنگ کررہی ہو گی ۔ڈرامہ باز کہیں کی۔نادرہ نے جل کر سوچا۔
دوسری صبح اس نے گھریلو ملازمہ رجو سے پوچھا ۔۔۔رجو کیا سحرش میرے جانے کے بعد اداس ہوئی تھی ؟؟ رجو ہنستے ہوئے بولی باجی اس نے اداس کیا ہونا تھا وہ تو اتنی خوش تھی کہہ رہی تھی کہ اف اکیلے گھر میں کتنا مزہ آ رہا ہے۔۔۔۔باجی سحرش باجی تو کہہ رہی تھی کہ میں اپنے گھر میں بھی اکیلی ہی رہتی تھی میری بہن کی شادی جب ہوئی میں بہت چھوٹی تھی اور بھائی بہت بعد میں پیدا ہوا تھا اس لیے مجھے تو اکیلے رہنا ہی اچھا لگتا ہے۔یہ سن کر نادرہ کو لگا جیسے ا سکی ساری محنت اکارت چلی گئی ہو

۔

اپنا تبصرہ لکھیں