افکار تازہ جہاد سے فساد تک ڈاکٹر عارف محمود کسانہ

دنیا کی اقوام علم و آگہی اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ہمہ وقت تحقیق و جستجو میں مصروف ہیں۔ سمندر گہرائیاں ہوں یا کائنات کی وسعتیں، مریخ پر کمند ڈالنی ہو یا خلیہ کے اندر ایک جہاں کی کھوج غرض ہر شعبہ زندگی میں نت نئی ایجادات اور دریافتیں سامنے آرہی ہیں۔ نئے نئے علوم اور بہترین درسگاہیں قائم کرنے میں ایک دوسرے مقابلہ جاری ہے مگر صد افسوس کہ امت مسلمہ کے افراد ایک دوسرے کے گلے کاٹنے اور حکومتیں ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے میں اپنی تمام توانائیاں صرف کرہی ہیں۔ یہ درست ہے کہ غیر مسلم طاقتیں اس کی پشت پناہی کررہی ہیں لیکن آلہ کار کون بنا ہوا ہے ۔ کیا مسلم دنیا سے دانش اور حکمت بالکل اٹھ گئی ہے اور کسی کو بھی اس کا احساس نہیں۔ نسلی، علاقائی اور مذہبی تعصبات کے پس منظر میں اپنے سیاسی اور دوسرے مفادات کی خاطر ملت اسلامیہ کوناکارہ اور دنیا میں تماشہ بنا دیا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ علامہ اقبال سے تھوڑی سی معذرت کے ساتھ کل ایک شوریدہ خواب گاہ نبی پہ رو رو کے کہہ رہا تھا کہ عرب و ایران کے مسلم بنائے ملت مٹا رہے ہیں
غضب ہیں یہ ‘مرشدان خود بیں خدا تری قوم کو بچائے! بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزت بنا رہے ہیں
اللہ تعالیٰ نے فرقے بنانے سے سخت منع کیا ہے (آل عمران ١٠٣، الشوریٰ ١٣) اس کے باوجود ہم اپنے آپ کو کسی نہ کسی فرقہ سے منسلک کرتے ہیں اور سینہ تان کر اپنے آپ کو سُنی، شیعہ اور سلفی وغیرہ کہتے ہیں۔ غیرمسلم طاقتوں نے مسلمانوں کو تباہ اور آپس میں لڑانے کا راز بھانپ لیا ہے کہ اس کے لیے انہیں خود سامنے آنے کی ضرورت ہی نہیں۔ فرقہ پرستی، عربی و عجمی، علاقائی اور نسلی تعصبات کی موجودگی میں کسی بیرونی دشمن کی ضروت ہی نہیں۔ علاقائی اور فرقہ وارانہ کشیدگی ایک عذاب کی صورت مسلمانوں پر مسلط ہے اور یہ ہو بھی کیوں نہ جب اللہ تعالیٰ نے فرقہ بندی کا نتیجہ عذاب قرار دیا ہے (آل عمران ١٠٥) ۔ فرقہ اور گروہ بندی ضد اور ہٹ دھرمی کا نتیجہ ہے(الشوریٰ ١٤) تعصبات اور فرقہ واریت کی بنیاد پر امت مسلمہ کو پارہ پارہ کرنے والے افراد، رہنما یا حکومتیں وہ یہ ضرور ذہن میں رکھیں کہ روز قیامت خدا اُن سے اس جرم عظیم کے بارے میں ضرور پرچھے گا۔ اور اللہ فیصلہ کردے گا (الجاثیہ ١٧) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی واضع کر دیا کہ جنہوں نے بھی فرقے بنائے رسول پاکۖ کا اُن سے کوئی تعلق نہیں ( انعام ١٥٩)۔ پاکستان اور مشرقی وسطیٰ جس آگ میں جل رہا ہے وہ اسی فرقہ واریت کی لگائی ہوئی ہے اور اب نہ بجھی تو سب کا گلستان جل اٹھے گا۔
جہاد جیسی اہم اصطلاح کو بہت غلط معنی پہنائے گئے ہیں۔ جہاد کا لفظ سنتے ہی ایک تصور ابھرتا ہے کہ داڑھی والے مذہبی دیوانوں کا ایک مسلح گروہ نعرہ تکبیر بلند کرتا ہوا آگے بڑھا رہا ہے اور جو بھی مخالف سامنے آئے گا اُن کی گردن اڑا دے گا۔غیر مسلموں تو ایک طرف خود مسلمانوں میں جہاد کا اسی نوعیت تصور ہے یعنی بوئے خون آتی ہے اس قوم کے افسانوں سے ۔ حالانکہ جہاد کا معنی جنگ کرنا یا قتل کرنا ہے ہی نہیں بلکہ اس کا معنی کوشش اور مصروف جدوجہد ہونا ہے۔ کسی مقصد کے حصول کے لیے اپنی پوری کوشش اور طاقت استعمال کرنا اور اس میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھنا۔ قرآن حکیم نے اسی مفہوم میں جہاد کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اسی کے اندر ایک گوشہ دین کی سربلندی کے لیے میدان کارزار میں اترنا ہے اور اس مقصد کے لیے اپنی جان کی بھی پروا نہ کرنا اور جو دشمن دین پر حملہ آور ہوں ان کاخاتمہ کرنا جسے قرآن نے قتال سے مسوسوم کیا ہے۔ لہذا ہر جہاد جنگ یا لڑائی نہیں البتہ قرآنی احکامات کی روشنی میں کی جانے والی جنگ جہاد کے ذمرہ میں آئے گی۔ قرآن مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتا ہے صرف اس لیے کہ فتنہ اور ظلم ختم ہوجائے اور دنیا میں امن قائم ہو۔اسلام صرف اپنے دفاع کے لیے جنگ کا حکم دیتا ہے یا پھر ظلم اور زیادتی روکنے کے لیے چاہے یہ کسی کی بھی طرف ہو۔یہ جنگ بنیادی حقوق انسانی کے لیے ہوگی جس کی کچھ شرائط ہیں۔جنگ کا مقصد مال غنیمت کا حصول نہیں۔جنگی قیدی جن میں عورتیں بھی شامل ہیں انہیں فدیہ لے کریا اپنے قیدیوں کے تبادلہ میں یا پھر احسان کرکے چھوڑنا ہوگا۔ انہیں غلام یا لونڈی نہیں بنایا جاسکتا(٤٧٤) پورے قرآن میں ایک آیت بھی ایسی نہیں جس میں یہ کہا گیا ہو کہ جنگی قیدیوں کو غلام اور لونڈیاں بنا لو۔ قرآن حکیم میں جہاں یہ ذکر آیا کہ کافروں سے لڑوں اس کا اطلاق دور حاظر کے ہر غیر مسلم پرنہیںکیا جاسکتا بلکہ وہ احکامات اُن مشرکین اور کفار کے بارے میں ہیں جنہوں نے بار بار معائدے توڑے اور جن سے مسلمان محفوظ نہ تھے۔ سورہ توبہ کا آغاز اسی اعلان سے ہوتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے جہاں بھی قرآن حکیم میں یہ آیا کہ اللہ کی راہ میں لڑو ۔ محکوم عورتوں اور بچوں کو آزاد کرائو وغیرہ ۔ یہ احکامات مسلمانوں کی حکومت کے لیے ہیں اور نظام مملکت ہی جنگ کا فیصلہ کرے گا جیسا کہ دور حاضر میں ہر ملک کرتا ہے۔ ان آیات کامطلب یہ نہیں ہر مسلمان اٹھے اور جہاں جہاں غیر مسلم دیکھے اُن کو قتل کرتا جائے۔ دور رسالتۖ ہو یا خلفائے راشدین کا عہد ایک بھی ایسی مثال نہیں کہ کسی صحابی نے انفرادی طور پر یا صحابہ اکرام کے کسی گروہ نے اپنے طور پر کوئی فیصلہ کیا ہو اور وہ جہاد کے نام پر از خود مسلح کاروائیاںکی ہوں ۔ جب بھی تلوار کے جہاد کی ضرورت پیش آئی اُس وقت کی حکومت نے فیصلہ کیا۔ اس لیے اسلامی ممالک جہاں مسلمانوں کی اکثریت رہ رہی ہو وہاں صرف حکومت ہی جہادبسیف کا اعلان کرسکتی ہے۔ اگر کوئی مسلمان حکومت ایسا اعلان نہیں کررہی لیکن شخص یا گروہ یہ سمجھتا ہے کہ ایسا ضروری ہے تو وہ اس مقصد کے لیے رائے عامہ ہموار کرسکتا ہے لیکن پھر بھی ازخود مسلح جہاد کا نہ اعلان کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسی کاروائیاں کرنے کا مجاز ہے۔ البتہ جو مسلمان محکوم ہیں اور اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں وہ باہم متحد ہوکر جہاد آزادی کرنے میں حق بجانب ہیں۔ ایسے مسلمان جو غیر مسلم ممالک میں اقلیت کی صورت میں رہ رہے انہیں وہاں کے قوانین کی پابندی لازمی ہے بصورت دیگر وہ پہلے اُن ممالک کی شہریت سے دستبردار ہوجائیں اور پھر جہاں مرضی جائیں کیونکہ قرآن حکیم ہمیں معائدوں کی پابندی کا حکم دیتا ہے۔
اپنے بچوں کو نام نہاد جہادیوں کے چنگل میں جانے سے بچائیے۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ بچوں کو جہاد کی اصل تعلیمات سے روشناس کروائیں کیونکہ وہ شدت پسند عناصر قرآن کی چند آیات اور کچھ احادیث لیکر بچوں کو اپنا شکار بناتے ہیں۔ جہاد کے نام پر جو فساد ہورہا ہے اس سے آگہی بہت ضروری ہے ۔چونکہ بچوں ناسمجھ ہوتے ہیں اور یہ عناصر اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بچوں کو جہاد اور قتال کی اصل صورت سے آگاہ کرنے کے ساتھ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اللہ نے ناحق قتل کرنے کو حرام قرار دیا ہے (١٧٣٣، ٦١٥٢)۔ اگرفریق مخالف رک جائے توتم بھی رک جائو اور زیادتی نہ کرو (٣۔٢١٩٢)۔ اگر دشمن صلح کی طرف جھک جائے تو تم بھی جھک جائو(٨٦١)۔ اگر مشرکوں میں سے کوئی پناہ طلب کرے تو انہیں پناہ دو اور امن کی جگہ پہنچا دو(٩٦)۔ جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں کی اور تمہیں جلاوطن نہیں کیا ان کے ساتھ احسان اور منصفانہ سلوک کرو (٦٠٨)، دشمن سے بھی عدل کرو(٥٨)، دشمن سے نرمی سے بات کرو ممکن ہے کہ وہ سمجھ جائے (٢٠٤٤)، جنگ سے پہلے معائدہ صلح پیش کرو اور دشمن کے سربراہوں کو عزت سے مخاطب کرو (٢٧٢٩)۔ کیا ایسی تعلیمات دینے والا دین امن کا پیامبر نہیں لیکن نام نہاد جہادی عناصر یہ آیات نہ پڑھتے ہیں اور نہ اپنے پیروکاروں کے سامنے رکھتے ہیں۔ دین نے فتنہ کو قتل سے بھی بد تر قرار دیا ہے چاہیے اس فتنہ کے لیے شمشیر اٹھے یا نعرہ تکبیر ، بقول اقبال
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ

افکار تازہ جہاد سے فساد تک ڈاکٹر عارف محمود کسانہ“ ایک تبصرہ

  1. بہت ہی اچھی بات کہی ہے آپ نے۔

    خود مسلمانوں میں جہاد کا اس نوعیت تصور ہے یعنی بوئے خون آتی ہے اس قوم کے افسانوں سے ۔ حالانکہ جہاد کا معنی جنگ کرنا یا قتل کرنا ہے ہی نہیں بلکہ اس کا معنی کوشش اور مصروف جدوجہد ہونا ہے۔

    اصل میں اس کے زمہ دار بھی ہمارے ھکمران ہی ہیں۔ جنہوں نے دین کی تعلیمات کو عوام تک پہنچایا ہی نہیں۔ اگر قوم کے بچے بچے کو پتہ ہو کہ جہاد کیا ہے اور دین کی تعلیمات کیا ہیں تو کیا مجال کہ لوگ چند افراد کع ہاتھون گمراہ ہو جائیں۔ پھر اگر عدل کا نظام قائم ہو تو کسی کو کیا ضرورت کہ وہ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔ اگر روزگار کے مواقع دستیاب ہوں تو چند ٹکوں کے عوض لوگ کسی کا آلہ کار کیوں بنیں۔

    اللہ تعالی ہمارے وطن کو ظالم ھکمرانوں سے نجات دلائے اور ہماری قوم کو مشکلات سے بچائے۔ آمین

اپنا تبصرہ لکھیں