اب بھی وہ وقت نہیں آیا؟

ایم ودودساجد
سماجودای پارٹی کے قائد اور یوپی کے وزیر‘ محمداعظم خان اگر فرقہ وارانہ نوعیت کاکوئی اشتعال انگیز بیان دیں تو اس کی تائید نہیں کی جاسکتی۔لیکن اگر اعظم خان کے بیانات کا موازنہ بی جے پی کے بدزبان اور اشتعال انگیز لیڈروںیوگی آدتیہ ناتھ‘ساکشی مہاراج اور سنگیت سوم وغیرہ کے بیانات سے کیا جائے تو یہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہونا چاہئے۔اس لئے کہ موخرالذکر تینوں لیڈربراہ راست مسلمانوں کو نشانہ بناکر اشتعال انگیز بیان دیتے رہے ہیں۔یہی نہیں ان کے بیانات کے الفاظ بھی انتہائی سطحی اور منافرت سے بھر پور ہوتے ہیں۔جبکہ اعظم خان ہندوؤں کو نشانہ بناکر کوئی بیان نہیں دیتے۔ان کے الفاظ بھی معیارسے گرے ہوئے نہیں ہوتے اور ان کا انداز بھی جارحانہ نہیں ہوتا۔لیکن اس سلسلہ میں مجھے ایک ٹی وی مباحثہ کے دوران نئی دنیا کے ایڈیٹراور جہاں دیدہ صحافی شاہد صدیقی کے طرز عمل پر بہت حیرت ہوئی۔
واضح رہے کہ اعظم خان نے حال ہی میں یہ بیان دیا ہے:’’ناگپورسے آر ایس ایس کا حکم آیا ہے کہ اپنے ہتھیار تیار رکھو ‘کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے‘‘۔ٹی وی اینکر کے مطابق یہ بیان انتہائی اشتعال انگیز ہے اور سماجوادی پارٹی کو چاہئے کہ وہ اعظم خان کے خلاف سخت کارروائی کرے۔وہ اس بیان کو سنگیت سوم‘مہیش شرما‘یوگی آدتیہ ناتھ اور ساکشی مہاراج کے بیانات کے برابر بلکہ ان سے بھی زیادہ خطرناک قرار دے رہا ہے۔ساکشی مہاراج نے حال ہی میں کہا ہے کہ’’ گائے کے معاملہ پر وہ مرنے اور مارنے کو تیار ہیں۔‘‘سادھوی پراچی کہتی ہے کہ جو گؤ ہتھیا کرے گا اس کا یہی حشر ہوگا۔(جو حشر دادری کے محمد اخلاق کا ہوا ہے۔)سنجیوبالیان (جو نریندر مودی کی کابینہ میں وزیر بھی ہے)کہتا ہے کہ ’’لوگوں کو جوش آگیا اور انہوں نے( محمد اخلاق کو) ماردیا۔
اعظم خان کا مذکورہ بیان شاہد صدیقی صاحب کو اتنا برا لگا کہ انہوں نے زیادہ تروقت اعظم خان کو پورے جوش وخروش میں سخت وسست کہنے میں ہی گزاردیا۔اس کے مقابلہ میں انہوں نے بی جے پی کے بدزبان اور اشتعال انگیز لیڈروں کو دس فیصد بھی لعن طعن نہیں کی۔وہ پروگرام میں موجود سماجوادی پارٹی کے ترجمان پر ہی برستے رہے۔مجھے یاد آیا کہ اعظم خان کا جو بیان زیر بحث ہے اس جیسی (ہزاروں)شہ سرخیاں تو نئی دنیاپچھلی کئی دہائیوں سے لگاتا آرہا ہے۔بلکہ بعض معاملات میں تو اس سے بھی زیادہ سخت لکھا گیا۔کوئی
اور اگر اعظم خان کے اس بیان کو اشتعال انگیز کہے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔لیکن شاہد صاحب اگر اس بیان کو انتہائی اشتعال انگیز سمجھ کر سماجوادی اور اعظم خان کی گوشمالی کریں تو یہ قابل فہم نہیں ہے۔واضح رہے کہ شاہد صاحب کو سماجوادی پارٹی نے ہی راجیہ سبھا میں بھیجا تھاجہاں وہ 6سال تک سماجوادی پارٹی کی ہی نمائندگی اور ترجمانی کرتے رہے۔
ہماری حالت یہ ہے کہ ایک کام ہم کریں تو جائز اور جب وہی کام دوسرا کرے تو ناجائز۔ ہماری یہ طرز فکر ہی ہمیں متحد ہوکر کوئی متفقہ مسلم قیادت ظہور میں نہیں آنے دیتی۔جب ایسا ہوگا تو مودی‘یوگی‘ساکشی اور اسی قبیل کے دوسرے لوگ کیوں ہمیں آسان چارہ نہ سمجھیں گے؟ میں سنتا آرہاہوں کہ مسلمان کسی ایک قائد کے پیچھے جمع نہیں ہوتے۔میں اس کلیہ کو قطعی غلط اور خلاف واقعہ تصور کرتا
ہوں۔عام مسلمان کا قیادت کے نام پر خوب استحصال ہوا ہے اس کے باوجودوہ ایک آواز پر جوشیلے قائدین کے پیچھے آکر جمع ہوجاتا ہے۔لیکن جب وہ قائدین کے درمیان شرمناک اختلافات کی موٹی لکیریں دیکھتا ہے تو CONFUSEہوجاتا ہے۔یاد کیجئے کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں80کی دہائی میں ایسا صرف ایک بار ہوا ہے کہ جب (بابری مسجد کے اشوپر)کسی ایک قائد(سید شہاب الدین) کی آواز پر دہلی کے بوٹ کلب پردس لاکھ مسلمان جمع ہوگئے ہوں۔لیکن عین اس وقت جب سید شہاب الدین تقریر کر رہے تھے تو آنجہانی سابق شاہی امام حضرت عبداللہ بخاری صاحب نے اپنی بینت(کھلا)ان کی گردن میں ڈال کر انہیں مائک سے پیچھے کھینچ لیا تھا۔حکومت اپنے کھیل میں کامیاب ہوگئی اور مسلمانوں کی اتنی بڑی طاقت ‘جس سے حکومت کے ہوش اڑ گئے تھے‘پل بھر میں منتشر ہوگئی
۔ایسے ایک دو نہیں سینکڑوں واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔70 کی دہائی میں دارالعلوم دیوبند کا جب صد سالہ اجلاس ہوا تو چشم فلک نے اس سے پہلے کسی ادارہ کا اتنا بڑا اجتماع نہیں دیکھا تھا۔لیکن اندرا گاندھی نے جب محسوس کیا کہ اس اجلاس میں انہیں دعوت دینے کے معاملہ پرمہتمم قاری طیب صاحب مرحوم اور مولانا اسعد مدنی مرحوم کے درمیان اختلاف ہے تو اندراگاندھی نے موخرالذکرکو شہ دی اور دارالعلوم کی شرمناک‘افسوسناک اور الم ناک تقسیم عمل میں آگئی۔کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن ایک جملہ جو نوک قلم پر آنے کو بے تاب ہے وہ یہ ہے کہ کیا اب بھی مسلمانوں کے قائدین کے لئے وہ وقت نہیں آیاکہ وہ سارے فروعی اختلافات کے باوجود اس لٹی پٹی ملت کی خاطرایک پلیٹ فارم پر آجائیں اور دکھاوے کے لئے ہی سہی ملک دشمن اور مسلم دشمن طاقتوں کے سامنے متحدہ بلاک بن کر ڈٹ جائیں؟

اپنا تبصرہ لکھیں