یہ دل دلی میں بستا ہے پہلی قسط ویزہ

تsadf 22حقیق کے میدان میں کسی سمجهوتے کی قائل نہیں ہوں. اردو کارپس پر لکهنا تها اور اس ضمن میں محترم حافظ صفوان صاحب کا انٹرویو کرنا تها تا کہ مکمل معلومات مل سکیں. 

اسی مقالے دہلی کانفرنس میں شمولیت کا دعو ت نامہ بہت پہلے مل چکا تها اور تحقیقی مقالہ بهی تحریر کر کے بهیجا جا چکا تها. اکیسویں صدی میں اردو زبان اور برق رفتار کمپیوٹر کی ترقی کے اثرات ، جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے کی اہلیت ، چیلنجز، امکانات، تقاضے وغیرہ. کی بدولت ان سے گفتگو ہوئی اور جس کشادہ دلی اور خندہ پیشانی سے انہوں نے رہنمائی کی وہ بذاتِ خود ایک موضوع ہے. 
اردو او سی آر … کی تحقیق کے لیے ڈاکٹر سرمد حسین کا نام بہت معتبر ہے. وہ خود تو مسلسل سفر میں تهے لیکن ان کے شعبے سے حنا صاحبہ نے بہت مدد کی. 
ہم اپنا مقالہ مکمل کر کے چین کی بانسری بجانے لگے. 
آن لائن ویزے کی درخواست مہینہ پہلے دے چکے تهے. 

کانفرنس سے ہفتہ پہلے محترم خواجہ اکرام الدین کا فون آیا کہ یہاں سے تمام کاغذات بهجوا دئیے گئے ہیں . ویزہ لے لیجئے. 
ہم نے انڈین ایمبیسی کو فون کیا …. 

دیپا والی ( دیوالی) کی وجہ سے دو دن گزر چکے تهے. 
ہم نے اپنا نام اور پاسپورٹ نمبر بتایا اور استفسار کیا…
ہمارا ویزہ آ چکا ہے .؟ 
جی نہیں .. ہمارے ہاس یہ پاسپورٹ نمبر درج نہیں ہے… 
ہماری مسرت کافور ہو گئی…. 
یہ کیسے ہو سکتا ہے…. 

ہم نے واپس خواجہ صاحب کو فون کیا. وہ کانفرنس کے انتظامات میں بے حد مصروف تهے لیکن انہوں نے بے حد تحمل سے بات سنی. 
“” صدف صاحبہ آپ فکر مت کیجئے یہاں سے سب کاروائی مکمل ہے . آپ سفارتخانے سے دوبارہ رابطہ کیجئے. “”

سفارت خانے فون کیا. جس کسی نے بھی فون اٹهایا بہت آرام سے بات سنی پهر اپنے افسر کو بلا لایا. انہوں نے کہا کہ آپ پرانی درخواست لے کر آ جائیے ہم وعدہ تو نہیں کرتے کہ ویزہ مل جائے گا لیکن پوری کوشش کریں گے . 

دوسرے دن ہم علی الصبح وہاں پہنچ گئے…. 
از سر نو ویزہ درخواست … 2 تصاویر… کے ساتھ. 

سفارت خانے میں تل دهرنے کی جگہ نہیں تهی. ہم سے پہلے کم از کم پچاس لوگ تهے جن میں اکثریت ڈینشوں کی تهی. 

اپنی باری آنے پر ہم نے اپنے کاغذات اندر بهجوائے ساتھ ہی اپنا ڈینش پریس کا کارڈ دیا . اور بتایا کہ کل کانفرنس شروع ہو جائے گی. 
تهانے کے مجرمان کی طرح ہماری فوٹو لی گئی… دونوں ہاتهوں سے فنگر پرنٹس لیے گئے اور ہماری واپسی ہوئی. 

پتا نہیں ویزہ ملتا ہے… نہیں ملتا… کب ملے گا… کانفرنس ختم ہو گئی تو کیا فائدہ.. 
پهر کونسل کے ڈائرکٹر محترم اکرام الدین خواجہ کو اطلاع دی کہ کاغذات جمع ہو گئے. انہوں نے پهر بہت رسان سے یقین دہانی کروائی کہ یہاں سے فون بهی کروایا جائے گا اور وزارت خارجہ کا خط بهی براہِ راست سفارتخانے کو بهیجا جا چکا ہے. 
خواجہ صاحب کی بردباری اور حسن اخلاق کے تو ہم قائل ہو گئے. 
کسی بهی ادارے میں ایسا کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے یہ مثالی خوبیاں ہیں جو سربراہان میں موجود ہوں تو وہ کامیابی کی ضمانت ہوتی ہیں. 

اگرچہ کانفرنس شروع ہو چکی تهی اور جو لوگ بین الاقوامی سطح پر ایسے کاموں کا انعقاد کرتے ہیں انہیں خبر ہے کہ یہ انتظامات اعصابی طور پر کتنی مضبوطی کے متقاضی ہوتے ہیں. آفرین ہے خواجہ صاحب پر کہ کانفرنس کے دوران مجھ سے نہ صرف مسلسل رابطہ رکها بلکہ بہترین ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے رہے کہ بے شک آخری دن پہنچ جائیں لیکن پوری کوشش ضرور کریں. آپ کی کاوشیں قابل داد ہیں. 

میں خود ذاتی طور پر آخری گولی اور آخری قطرہء خون تک لڑنے کی قائل ہوں ڈاکٹر صاحب. فکر مت کیجئے. 

خدا جانے خواجہ صاحب نے کوئی تار ہلائی. … 
یا سفارتخانے کو ہماری لگن اور گلی کے پهیروں نے متاثر کر دیا. … 

شام کو فون بجنا شروع ہوا… گاڑی چلا رہی تهی نہیں اٹهایا
500 کرائون جرمانہ عائد کیا جاتا ہے

گهر پہنچی… ٹی وی لنک کے ساتهی زبیر صاحب کا پیغام موبائل کی سکرین پر چمکا. 

پلیز کال ارجنٹ

میں نے فورا فون کیا 
“” آپ بهی عجیب ہیں … شاعر کرام ..

انہوں نے اپنے فطری بے تکلف انداز میں مجهے اطلاع دی
انڈین ایمبیسی سے آپ کے لیے فون ہے… ان سے رابطہ کیجئے

لو جی … مژدہ جاں فزا …. 

دوسری طرف نائر صاحب کی آواز ابھری
“”
صدف صاحبہ .. کل ویزہ لے جائیے. ہم بے حد نادم ہیں اپ کو اتنی زحمت ہوئی”” 
خوشی کے مارے ہمیں کهانا اور سونا بهول گیا 
پہلے خواجہ صاحب کو اطلاع دی. بے حد خوش ہوئے… 
ہم نے چند منٹ کے اندر ڈهول پیٹ کر اعلان کر دیا کہ ہم تو چلے….. 
رات سونے سے پہلےسوٹ کیس تیار کیا. صبح دس بجے سفارت خانے پہنچنا تها. 

سید ٹریولز کو فون کیا کہ انتظار کی گهڑیاں تمام ہوئیں.

رات کو مارے خوشی کے نیند ہی نہیں آئی.

سلطنت مغلیہ اور ان کا پایہ تحت دہلی
بارہا.. اجڑتی بستی
روتی ہنستی  دلی….
خسرو ،  درد…   غالب ، مومن، زوق،
زیارتیں.. عمارتیں…   یونیورسٹی
دوست و احباب

علی الصبح سہارا ٹائمز اور ٹی وی لنک ٹیم سے رابطہ کیا. 
زبیر رائی صاحب کہنے لگے
جب تک آپ ڈنمارک کی حدود سے نہیں نکلیں گی نہ چین لیں گی. . نہ لینے دیں گی.  تیار ہو جائیے ..  میں ا رہا ہوں.

سفارت خانے پہنچتے ہی ہمیں نائر صاحب نے کانفرنس ویزا لگا ہوا  پاسپورٹ واپس کیا  ….
ہم نے کہا کہ ہم فرسٹ سیکرٹری محترم راجیش کمار  سے ملنا اور ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں.

ان سے مختصر ملاقات ہوئی. بے حد اخلاق اور تپاک سے ملے. ویزے میں تاخیر کا سبب ان کے پاس کاغذات کی عدم موجودگی تهی.
یقینا یہ ان کی اعلیٰ ظرفی تهی کہ ویزہ دینے کے ساتھ سفر بخیر اور کامیاب پروگرام کے لیے نیک خواہشات بهی زاد راہ کے طور پر عنایت کیں اور امید ظاہر کی
کہ آئندہ ویزے کے حصول کے لیے کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا.
اسی وقت خواجہ اکرام الدین صاحب کو پیغام بهیجا
Here I come India
جوابا  ان کے خوشی سے بهر پور آواز آئی…
خیر سے آ جائیں ہم سب آپ کے منتظر ہیں. 

سید ٹریولز کے محترم تنویر صاحب نے ٹکٹ ای میل کر دی تهی اور ہمیں سفارت خانے سے سیدها ہوائی اڈے جانا تها.
 
ہم پاسپورٹ ہاتھ میں لیے باہر نکلے…  یقینا مسرت ہمارے چہرے پر رقصاں تهی.  زبیر صاحب نے اپنے کیمرے سے تصاویر بنائیں … ہمیں سیدھا ایر پورٹ پہنچایا. ….

یہاں ایک سر پرائز ہمارے انتظار میں تها

چیک ان کروا کر سیکورٹی کے بیزار کن اور صبر آزما مرحلے سے گزر کر اندر پہنچے. 
کافی ہاتھ میں لے کر ہم نے گهر فون کیا.
ہماری صاحبزادی کو بهی آج ہی سکاٹ لینڈ جانا تها اپنی تین سہیلیوں کے ہمراہ….

اسلام علیکم امی
کہاں ہیں……

ہم نے جواب دیا سیکورٹی سے گزر کر سکون سے لاونج میں بیٹهے ڈبل کریم کافی  نوش فرما رہے ہیں….
واقعی امی ؟؟؟

کہاں ہیں…  نمبر بتائیے. ….
میں آ رہی ہوں….
ابهی سیکورٹی سے گزرے ہیں ہم…..
دس منٹ بهی نہ گزرے کہ چاروں بچیوں کا  چہچہاتا .. شور مچاتا گروپ ہمارے سر پر

امی…..

خالہ….
اسلام علیکم…. مرحبا…. ..

عالیہ کی عرب اور ترک سہیلیاں ہمیں خالہ کہتی ہیں.

کڑیاں… چڑیاں….. بکریاں
تنے ذاتاں……     اتهریاں

گردو پیش میں لوگوں نے دلچسپی سے دیکها…..
کچھ لوگ مسکرا دئیے….
کچھ کو یہ شور  یقیناً ناگوار گزرا .
بہرحال ہمارے سفر کی شروعات ان کے معصوم دمکتے چہروں  کی دید سے ہوئی.
خوب تصاویر بنائی گئیں…..   
ہم نے فری میں کرنسی بدلوا کر دی….
اور اپنے اپنے راستے پر  چلدئیے
جاری ہے۔۔۔

یہ دل دلی میں بستا ہے پہلی قسط ویزہ“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں