فاٹا سو سال پیچھے چلا گیا ہ

Kid.. زیب محسود کا انتخاب
abdullah-malik-mohmad
مغربی سرحدوں کے محافظ قرار پانے والے باسیوں کی سرزمین کو فاٹا کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔ فاٹا سات ایجنسیوں اور چھFrontier Regio پر مشتمل علاقہ ہے ۔ یہ علاقہ ہمیشہ سے محرومیوں کا شکار رہا ہے ۔ کون سے دکھ اور مصائب ہیں جو اس سرزمین کے باسیوں نے نہیں جھیلے ۔ انگریزوں نے یہاں ایک ایسا قانون نافذ کیا جس نے ایک طرف تو یہاں کے لوگوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیا تو دوسری طرف ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غلامی کی زنجیروں میں جکڑدیا۔ انگریزوں کا مسلط کردہ Frontier Crimes Regulations کا کالا قانون ایک سو چودہ سال گزرنے کے باوجود فاٹا کے عوام پر لاگو ہے ۔ یہ قانون جو ایک طرف یہاں کی اشرفیہ کے لیے سرماٖئے کا کارخانہ ہے تو دوسری طرف عام عوام کی زندگی اجیرن بنارہا ہے ۔ پاکستانی آئین کی رو سے تو فاٹا پاکستان کا حصہ ہے مگر 1973 کے آئین تحت یہاں کے لوگ نہ انصاف مانگنے عدالت جاسکتے ہیں اور نہ عدالت کا کوئی فیصلہ ان پر لاگو کیا جا سکتا ہے ۔یہاں سے منتخب نمائندے چاہے وہ قومی اسمبلی کے ہوں یا سینٹ کے زیادہ تر کا تعلق ان ہی خاندانوں سے ہوتا ہے جن کے باپ دادا انگریزوں کے وفادار اور چاپلوس تھے ۔ وہ انگریزوں کے اس قانون کے حمایتی تھے اور ہیں کیونکہ ان کے مفادات اسی قانون سے وابستہ ہیں۔یہاں پر درجنوں صحافی قتل ہوئے ، سیاسی کارکنوں کو زندگی کی بازی ہارنا پڑی، موسیقاروں، شاعروں اور فنکاروں کو تشدد کا نشانہ بنا کر مارا گیا، امن کے داعیوں کو سولی پر لٹکا دیا گیا یہاں کی سرزمین کو اگر مصائب کی سرزمین نہ کہا جائے تو انصاف نہ ہوگا۔فاٹا سے منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی سارے پاکستان کے لئے قانون سازی کر سکتے ہیں مگر اپنے علاقے کے لیے نہیں۔ 1997 سے پہلے یہ لوگ حق رائے دہی بھی استعمال نہیں کر سکتے تھے ۔ تاریخ میں جب بھی فاٹا کا ذکر آتا ہے تو اس کے ساتھ یہ تمہید ضرور ہوتی ہے کہ یہاں کے لوگ جنگجو اور سٖخت جان ہیں، بغیر تنخواہ کی فوج ہیں اور یہی گھسی پٹی اور فرسودہ پہچان اس علاقے کی ترقی کی راہ میں روکاوٹ ہے ۔ وطن پرستی اور بہادری یہاں کے لوگوں کے اوصاف ہیں ، وطن پر جب بھی کوئی آزمائش آئی یہاں کے باسیوں نے جنگ لڑی اور جانوں کے نذرانے دئیے ، خواہ وہ کشمیر کی جنگ ہویا 1965 کی پاک بھارت جنگ ہو مگر لاکھوں قربانیوں کے باوجود یہاں کے لوگوں کے اچھے دن نہیں آئے بلکہ ہمارے حالات روز بروز بُرے ہوتے گئے اور ہم پر ہماری ہی زمین تنگ ہوتی گئی۔ فاٹا کے لوگوں اور زمین کو ریاست ہمیشہ اپنے تزویراتی مفادات کے تحت استعمال کرتی رہی ہے اور یہی اس علاقے کے لوگوں پر مسلط کیا گیا سب سے بڑا عذاب ہے ۔ افغان جہاد کے دوران اور نائین الیون کے بعد یہ خطہ عالمی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ خطے کے لوگوں کو ایک اور جنگ کا ایندھن بنا دیا گیا اور مقامی لوگوں پر غیر ملکی جنگجووں اور جہادی لشکروں کا بوجھ بھی لاد دیا گیا۔ریاست کے پالتو جہادیوں کے خلاف فوجی کارروائی کے بعد یہاں کے باسیوں نے جب اپنے ہی ملک میں ہجرت کرنا شروع کی تو اُن پر قیامت ٹوٹ پڑی یہاں کی عورتوں نے راستے میں بچوں کو جنم دیا اور درجنوں خواتین زچگی کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ یہاں پر درجنوں صحافی قتل ہوئے ، سیاسی کارکنوں کو زندگی کی بازی ہارنا پڑی، موسیقاروں،شاعروں اور فنکاروں کو تشدد کا
نشانہ بنا کر مارا گیا، امن کے داعیوں کو سولی پر لٹکا دیا گیا یہاں کی سرزمین کو اگر مصائب کی سرزمین نہ کہا جائے تو انصاف نہ ہوگا۔ سینکڑوں تعلیمی ادارے تباہ ہوئے اور صحت عامہ کے مراکز کی صورت حال بھی ابتر ہے ۔ یہاں کے خود دار مرد اور عورتیں امدادی کیمپوں میں جہنم جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جہاں پر راشن کے حصول کے لئے بھی قطاروں میں ذلیل ہونا پڑتاہے ۔آپ فاٹا کی سرزمین پہ قدم رکھیں تو اپ کو پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے تمام آثار نظر آ جائیں گے ۔ خطے کا سب سے بڑا المیہ یہاں کے تعلیمی اداروں کی تباہی ہے ۔ کئی سال سے جاری جنگ کی وجہ سے سینکڑوں تباہ ہوچکے ہیں جب کہ ہزاروں بند ہیں یا مقامی ملکوں کے ذاتی استعمال میں ہیں۔ لاکھوں طلبہ تعلیم سے محروم ہوچکے ہیں جو کبھی بھی جرم یا شدت پسندی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ پندرہ سال کے دوران سات سو سے زائد سکول تباہ ہوچکے ہیں مگر تاحال ان کی تعمیر کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ مئی 2013 کے انتخابات میں نواز شریف کے حکومت میں آتے ہی لوگوں کے دلوں میں اُمید کی ایک کرن جاگ اُٹھی کہ شایداب اُن کی تقدیر بدلنے والی ہے مگر حالات پہلے سے بدتر ہوئے ہیں بہتر نہیں۔پنجاب کے سرمایہ دار بادشاہ کو فاٹا میں دلچسپی نظر نہیں آتی۔ انہوں نے تمام ملک کا پیسہ میٹرو اور اورینج ٹرینو ں پر لگانا شروع کردیا ہے جب کہ فاٹا میں تبدیلی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ۔ میاں نواز شریف کو اپنے دور اقتدار میں میٹرو اور فلائی اورز سے اتنی فرصت نہیں ملی کہ وہ سرزمین بے آئین فاٹا کا دورہ کرتے ۔ میاں صاحب نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ جتنا پیسہ میٹرو اور فلائی اورز پر خرچ ہورہا ہے اُس کا نصف بھی فاٹا کے تعلیمی اداروں کی بحالی پر لگایا جائے تو شاید فاٹا کے باسیوں کے احساس محرومی میں کمی ہو۔ مگر خدا گواہ ہے کہ میاں صاحب کو لاہور، رائیونڈ اور ماڈل ٹاون کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اس جنگ زدہ علاقے میں بین الاقوامی اداروں کی امداد بھی مخصوص جیبوں یا چند خیموں کی صورت میں ہی نظر آتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے جیسے فاٹا سو سال پیچھے چلا گیا ہے ۔ بس دعا اور اُمید یہی ہے کہ وزیر اعظم صاحب کو میٹرو یا بلندوبالا فلائی اوورز بناتے بناتے بغیر تنخواہ کی فوج کی سرزمین فاٹا بھی نظر آ جائے ورنہ فاٹا کے عوام اپنے حال پر روتے اور سسکتے رہیں گے کیونکہ میاں صاحب رائیونڈ محل میں آرام فرما ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں