کم سے کم لفظوں میں جس نے بات ہمیں سمجھائی ہے

غزل
کم سے کم لفظوں میں جس نے بات ہمیں سمجھائی ہے 
غور کیا تو پایا ان میں ساگر سی گہرائی ہے
 
بادل گرجیں بجلی چمکے طوفاں ہو یا تیز ہوا
آگے بڑ ھنے والوں نے ہی اپنی منزل پائی ہے
 
ہر گل کیوں ہے دست وگریباں اپنوں سے ہی آپس میں
گلشن کی بدنامی ہے یہ مالی کی رسوائی ہے
 
جیل کی دیواریں زنجیریں بے بس ہوکر ٹوٹیں ہیں
دیوانوں نے جب بھی ان پر کاری ضرب لگائی ہے
 
اسکی گلی میں آنا جانا رکھا اس امید کے سا تھ
ایک نظر بھی ڈال دی اسنے پھر اپنی بن آئی ہے
 
خاک ہوئی تھی جلکر بستی جسکے ایک اشارے پر
وہ لوگوں سے پو چھ رہا تھاکس نے آگ لگائی ہے
 
کیسا ہے دستور تمہاری آزادی کی محفل میں
ہونٹوں سے چلکر پابندی آج قلم تک آئی ہے
 
 مشرق کی سرخی میں ہیں آثار نمایاں صبح کے
ظلمت کے حصے میں مسلم آئی بس پسپائی ہے
 
محمد مسلم خان
کوٹہ-را جستھان
اپنا تبصرہ لکھیں