پیار کی پائل


تحریر شازیہ عندلیب
پڑوسی ملک سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں۔اس سے دوستی کرو ، تعلقات بڑھائو، تجارت کرو پیسہ کمائو،یہ ہمارے دوست ہیں، ہمارے ساتھی ہیں، ان کے فنکار ہمارے پسندیدہ فنکار ہیں۔اپنے پیارے پڑوسی ملک کے لیے واہگہ بارڈر کھول دو، آزاد کشمیر کا بارڈر کھول دو،اپنے دل کے دروازے کھول دو۔انڈین فنکار، انڈین فلمیں انڈین کلچر پاکستانیوں کو دل و جان سے عزیز ہیں۔ وہ پوری جان اور آن سے ان پہ صدقہ واری جانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔پوری پاکستانی قوم دل و جان سے انکی محبت میں پور پور ڈوبی ہوئی ہے۔ ثقافت و تجارت کے بہانے انکے قریب آنے کے لیے بیقرار و بے چین۔گلے میں منگل سوتر ، پائوں میں انڈین پیار کی پائل، دل بھارت کے پیار میں گھائل۔ یہ ہے پاکستانی قوم کی تصویر وفا اپنے ہمسائیوں کے ساتھ۔بھارتی قوم کی چاہت اور دل میں پھوٹنے والے پیار کے دھاروں نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔
حکومت کے حلقوں سے لے کر عوامی حلقوں تک پریم کا ایک ہی راگ ہے۔ اب تو انڈیا نے ویسے بھی بہت ترقی کر لی ہے۔ اس لیے اب ہمیں چونکہ ترقی کرنے کی فرصت نہیں لہٰذٰ ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں۔کیونکہ ہمارے پاس نہ عسکری طاقت ہے اور نہ کافی اصلحہ ہے۔دو قومی نظریہ کی وجہ سے جو قومی غیرت تھی اسکا تو کب کا جنازہ نکل چکا ہے۔نئی تاریخی تبدیلیوں سے ہمارے تاریخی قومی ہیرو زیرو ہو چکے ہیں۔اب وہ نئے نظریات کی روشنی میں چور داکو اور لٹیرے بن چکے ہیں۔ ہماری محبت کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنی اقدار اور مفادیت سے بیگانے ہو کر انکی جانب بڑھے جا رہے ہیں۔ مگر ان پر جب بھی کوئی آفت پڑتی ہے وہ سارے دشمنوں کو اپنی ساری علیحدگی کی تحریوں کو بھول کر پاکستان پر الزام لگا دیتے ہیں۔ کہیں بھی کیوں نہ ہم انکی خوشی کی خاطر اپنے ہیروز کو برا کہیں گے تو انکے حوصلے تو خود ہی بلند ہونگے۔ہمارے حکمران بیچارے گڑگڑا کر دہائی دے رہے ہیں کہ سومنات کا مندر ہم نے نہیں توڑا، دہشت گرد ہم نے نہیں بھیجے۔ مگر مجال ہے جو انکے کانوں پر جوں بھی رینگی ہو۔ انکا میڈیا ممبئی دھماکوں کی کاروائی کے دوران ہی مسلسل پاکستان پر الزام تراشی ہی کرتا رہا۔پاکستان کو کسی وحشی درندے کی طرح اپنے پنجے اور دانت دکھاتا رہا۔جبکہ ہمارے ارباب اختیار مسلسل ان سے معافیاں مانگتے رہے، انکا منت ترلہ کرتے رہے۔ وہ انہیں دہائی دے دے کر بتاتے رہے کہ ہم نے دہشت گردی نہیں کی۔ ہم تو خود بیچارے معاشی ، معاشرتی دہشت گردی اور غنڈہ گرد ی کے شکار ہیں۔ہمیں معاف کر دیں سرکار مگر بقول شاعر
خطاوار سمجھے گا تجھ کو زمانہ
آج اپنی اتنی صفائی نہ دے
کے مصداق انکی ایک ہی رٹ تھی۔ یہ سب پاکستانیوں کا کیا دھراہے۔اس سارے پراپگنڈے کا مرکزی خیال یہ ہے کہ مسلمانوں نے آج سے ساٹھ سال پہلے دہشت گردی کر کے پاکستان بنایا ، اور اب ہوٹل تاج محل پر دہشت گردی کردی۔اگر اپنے ہمسایہ ملک کی تاریخ بینی ، اور مستقبل بینی زرا باریک بینی کے ساتھ کی جائے تو ایک ہی جواب ملے گا۔وہ جواب ہے متعصب بنیا ہندو قوم۔
دور کیا جانا پاکستانیوں کے فیورٹ ہیرو امیتابھ بچن نے پنے بیٹے کی شادی پہ کیا رویہ اختیار کیا تھا۔اس نے سختی سے مسلمان صحا فیوں کو اپنے بیٹے کی شادی کی کوریج دینے سے منع کر دیا تھا۔مگر ہمارے فنکار پھر بھی ان پہ فریفتہ ، پاکستانی قوم ان پہ لٹو۔کہاں گئے وہ مرد مجاہد جن کی ایک دھاڑ سے دشمنوں کے دل دھڑکنا بھول جاتے تھے، قدم اکھڑ جاتے تھے۔اللہ اکبر کے نعرے سے دشمن کا کلیجہ دہل جاتا تھا۔ دشمن کی فوج لرز اٹھتی تھی۔ فلک دہل جاتا تھا، زمین کانپ اٹھتی تھی۔ مسلمانوں کا اتنا رعب و دبدبہ تھا دشمنوں پرکہ جھوٹا الزام لگانا تو دور کی بات ہے انہیں مسلمانوں کی طرف آنکھ اٹھانے کی تو کیا انگلی اٹھانے کی بھی جرآت نہ ہوتی تھی۔اب جب انکا جی چاہتا ہے اٹھ کر نہ صرف جھوٹے الزام لگاتے ہیں بلکہ اسے بار بار دہراتے بھی ہیں۔ وہ تو بھلا ہو امریکہ سرکار کا کہ اس نے آکے بڑک ماری اور بھارت کے منہ میں لگام دی۔ورنہ دونوں ممالک کی سرکار کی تو تو میں میں سے خطہ کا امن خطرے میں پڑ جاتا۔کہاں گئے وہ اقبال کے افکار ، وہ اقبال کے شاہیں۔ وہ دلوں کو گرمانے وا لی شاعری انڈین گیتوں کی دھنوں اور ڈسکو موسیقی میں کھو گئی ہے۔ ہماری قوم میر جعفروں سے بھر گئی ہے۔ قوم کی کمان ایک عرصہ تک رنگیلے ، رقاص اور بھگوڑے بادشاہوں کے ہاتھ میں رہ چکی ہے۔ہماری قوم کو تو پڑوسی ملک کے ثقافتی طائفوں ،انکی فلموں کا شوق ہے۔ہم لوگ تو خودشمن کو پلیٹ میں رکھ کر اپنی غیرت اور حمیت پیش کر رہے ہیں۔اب بھی وقت ہے کہ قوم اس خواب غفلت سے جاگ جائے۔ اپنا ایمان مضبوط کر لے ۔ سب ایک محاذ پر ملکی سا لمیت کے لیے اکٹھے ہو جائیں، تو دشمن کو جرآت نہ ہو کہ وہ ہمیں للکارے۔اگر جنگ بدر میں مٹھی بھر مسلمان کفار کو شکست دے سکتے ہیں ، سن پینسٹھ کی جنگ میں ڈنڈوں سے انڈین فوج کو بھگا سکتے ہیں کا رگل میں فتح حاصل کر سکتے ہیں تو کوئیی وجہ نہیں کہ اس موجودہ چیلنج کو بھی نہ نبٹ سکیں۔ ہمیں ایک مضبوط و موثر قیادت کی ضرورت ہے ۔ پوری قوم کو اپنی گمراہیوں سے تائب ہو کر دشمن کا سامنا کرنا چاہیے۔اپنے مقصد حیات میں وسعت نظری پیدا کرنی چاہیے۔ اے مرد مومن لوٹ آئو قوم تمہاری راہ دیکھتی ہے۔ جب پاکستانی انڈیا سے محبت اور دوستی کا راگ الاپتے ہیں تو میری آنکھوں کے سامنے تقسیم ہند کا خون آشام نظر گھوم جاتا ہے۔شہیدوں کی روحیں سوال کرنے لگی ہیں ۔ اپنی جانوں کے نذرانوں کا حساب مانگتی ہیں۔ کہ کیا تم ہمارے مقبروں پرنئی محبتوں کے تاج محل تعمیر کرنے جا رہے ہو۔اگر صرف گلے لگانے سے دشمن دوست بن جاتے تو ساری دنیا کے مسائل ہی ختم ہو جاتے۔ کفار قومیں کبھی اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کرتیں۔انکی دوستی میں انکا ذاتی مفاد چھپا ہوتا ہے۔ ہمارے دشمن تو پیٹھ میں چھرا گھونپنے والے ہیں۔امن کا وقت اصل میں اگلی جنگ کی تیاری کی مہلت کا وقفہ ہوتا ہے۔ ایسے و قفوں میں دوستیوں کے جزبے پروان نہیں چڑھتے۔ وہ صرف ہمیں اپنا غلام دیکھنا چاہتے ہیں۔ انکی محبت و الفت محض ایک ڈونگ ایک دھوکہ ایک فریب ہے۔
ممبئی دھماکوں کے فوراً بعد انڈین فوج کی پاکستانی سرحدوں پر نقل و حرکت دیکھی گئی۔ اور آئندہ اڑتالیس گھنٹوں کو اہم قرار دیا گیا۔ اس خبر کے ساتھ ہی جنگ کی تباہ کاریوں کے تصور سے روح تڑپ اٹھی ۔ میرے دل سے ہر دم وطن کی خیریت کی دعائیں نکلنے لگیں۔ وطن عزیز کا من تو پہلے ہی وزیرستان کی جنگ اور خود کش حملہ آوروں نے یرغمال بنا رکھا ہے ۔ جنگ سے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے خطہ کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ دوسرے روز اس خبر کو افواہ قرار دے کر قوم کو تسلی دینے کی کوشش کی گئی۔اسکے ساتھ ہی پاکستان کے سربراہوں نے تمام دنیا کے سربراہوں سے ٹیلی فون پر تازہ صورتحال پر گفتگو کی۔ ملک میں کانفرنسیں بلائی گئیں۔ادھر امریکہ نے بھی مداخلت کر کے بھارت کو پاکستان پر بلا جواز الزام تراشی سے روکا۔ ورنہ پوری قوم اس جھوٹے الزام کے کرب میں مبتلا تھی۔ممبئی دھماکوں میں ضائع ہونے والی انسانی جانوں کا قلق تو ہر انسان کو ہے۔ پاکستان تو پھر بھارت کا ہمسایہ ملک ہے۔اسے اس حادثہ کا دکھ کیوں نہ ہو گا۔ایسی صورتحال میں بھارت کی پاکستان پر الزم تراشی ایک غیر دانشمندانہ خارجہ پالیسی ہے۔ اس سلسلے میںبھارت کو ایسے بے دھڑک الزام تراشی کی روش ترک کرنی چاہیے۔ تاکہ خطہ میں امن و امان رہے۔بہتر ہے کہ بھارت اپنے اس رویہ پر نظر ثانی اور عوام کو جنگ میں جھونکنے سے باز رہے۔ عالمی مالی بحران کے پیش نظر دونوں ممالک جنگ کا ارادہ ترق کر کے اپنی قومی ترقی اور فلاح و بہبود پر سرمایہ کاری کریں۔

پیار کی پائل“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں