میں اب زمانے کی چالاکیوں سے تنگ آ کر


ڈاکٹر جاوید جمیل
 
 
کبھی فلک تو کبھی خاک ہونا چاہتا ہوں
ازل سے پیکر_ادراک ہونا چاہتا ہوں
 
جنوں ہوں ایک گریبان کی طرح اک روز
خود اپنے ہاتھوں سے ہی چاک ہونا چاہتا ہوں
 
میں چاہتا ہوں رہوں میں بھی گلستاں ہوکر
میں کب بھلا خس و خاشاک ہونا چاہتا ہوں
 
بلا جھجھک وہ لکھوں جو مجھے نظرآئے
قلم ہوں، قاصد_بیباک ہونا چاہتا ہوں
 
جو علم بن کے سیہ تخت پر چمکتی ہے
کسی کے ہاتھ میں وہ چاک ہونا چاہتا ہوں
 
میں اب زمانے کی چالاکیوں سے تنگ آ کر
نہ چاہتے ہوئے چالاک ہونا چاہتا ہوں
 
مجھے گناہ کا احساس ہو چکا جاوید
میں دیر سے ہی سہی پاک ہونا چاہتا ہوں
 
اپنا تبصرہ لکھیں