سفیرِ پاکستان کے موثر و جامع خیالات کے اظہار کے بعد صاحبِ کتاب کو کلامِ شاعر بہ زبانِ شاعر کے لئے دعوتِ سخن دی گئی ۔آغاز میں انہوں نے اپنے کرم فرمائوں کا شکریہ ادا کیا جن کے تعاون سے اس کتاب کی اشاعت و اجراء ممکن ہو سکا۔ انہوں نے اپنے اساتذہ سرور خان سرور، پروفیسر ریاض احمد قادری اور مقتدرہ قومی زبان کے صدر نشین
اس کیٹا گری میں 1674 خبریں موجود ہیں
ہمیں تو ان اشعار کا قاری چونکنے سے زیادہ خوف زدہ ہو تا نظر آتا ہے ، ساتھ ہی ساتھ اس کو جناب اثر غوری کی سلامتی کی فکر بھی لاحق ہوجاتی ہے ۔ خامہ بگوش کی رحلت کے بعد ان کے دیرنیہ ہمدم، استاد لاغر مراد آبادی ہمیں ایک چائے خانے میں بیٹھے مل گئے۔ان چھ برسوں میں وہ مزید لاغر ہوچکے ہیں لیکن بذلہ سنجی کا وہی عالم ہے جو خامہ بگوش کے ساتھ روا رکھا جاتا تھا۔ استاد نے یہ اشعار سن کر فرمایا کہ ” اس قسم کے اشعار کے ساتھ تو کسی کھنڈر ہی میں اترا جاسکتا ہے۔لیکن شاعر کو
محمد منشا یاد کے والد حاجی نذیر احمد پیشے کے اعتبار سے کسان تھے ۔اس کے ساتھ ساتھ وہ طب اسلامی کے ممتاز حکیم تھے ۔ان کی طبابت کے پورے علاقے میں چرچے تھے اور دکھی انسایت کی بے لوث خدمت ان کا شعار تھا ۔انھوں نے اپنے ہونہار بیٹے کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی ۔ ابھی محمد منشا یاد کی عمر تین سال تھی جب ان کی والدہ انھیں پنجابی لوک کہانیاں،نعتیں ،اسلامی واقعات اور داستانیں سناتی۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ
جناب عبدللہ جاو ید کے مذکورہ بالا بیانات کو پڑھ کر صوفیہ ملامیہ کے اڑوس پڑوس سے تعلق رکھنے والے بہت سے حاسدوں نے کہا کہ جناب شاعر کی شاعری کوعلامتی نہیں بلکہ ‘ملامتی ‘ کہا جائے تو بہتر ہوگا، لیکن ہم ایسی شرپسندانہ باتوں پر سے کان ہی نہیں دھرتے۔ البتہ جاوید صاحب کے اس
امجد اسلام آجکل اردو اخبار ایکسپریس میں کالم نگاری کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ الحمراء آرٹس کاوئنسل میں بھی بیٹھتے ہیں۔جلد ہی معروف شاعر منشا یاد کی افسوسناک جدائی پر انکا کالم اردو ایکسپریس پر پڑھنے کو ملے گا۔ امجد اسلام اس عطیم ادبی شخصیت کے بچھڑنے پر بہت دلگرفتہ نظر آتے ہیں۔آجکل امجد ناروے میں
میری پہلی کتاب برزخ میری بیوی فردوس کے نام معنون ہے جو اس وقت میری منگیتر تھی اور یہ چوتھی کتاب ان تین خوبصورت پھولوں کے نام ہے جو قدرت نے ہمارے مشترکہ آنگن میں مہکائے ہیں۔برزخ کا انتساب لکھتے و قت میں نے شائید ان بہت سی باتوں کو سوچا بھی نہیں تھا جو گزشتہ چودہ برس میں ظہور پذیر ہوئیں۔اور
یہ افسوسناک کہانی ہے ،دینہ کے جہانگیر اعوان کی جو 1990ء میں اپنے گھر گلشن دیس مٹی کی خوشبو اور خونی رشتوں کی بہاریں چھو ڑ کر سیاحت کے ویزے پر امریکہ آیا ۔اور اپنے پسینے سے خاندان کا مستقبل سیراب کرنے لگا۔
تنہائی میں ساکن خاموش دیواروں اور چھت سے باتیں کرنے والے عام طور پر کئی ایک موذی امراض کو سینے میں بسا
حا لت یہ ہے کہ ہر 4 سیکنڈ میں ایک شخص بھوک کے ہاتھوں لقمہ اجل بنتا ہے۔ یعنی جسے روٹی کا نوالہ میسر نہیں وہ موت کا نوالہ بن رہا ہے۔18000 بچوں سمیت 25 ہزار انسان روزانہ مرتے ہیں جبکہ ایک سال میں یہ تعداد 90 لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ جو کہ ملیریا ،کینسر، ایڈز اوردیگر موذی
بعض لوگوں کے خیال سے ادبی گوشوں میں ادباء اور شعراء کو قید کرنے سے بہتر ان کی تصانیف کی تقریب رونمائی ہوٹل وغیرہ میں کرنا زیادہ مناسب ہوتا ہے ، جہاں لذت کام و دہن کا بھی معقول انتظام رہتا ہے۔ فروری 1966 میں شمس الرحمان فاروقی کے جریدے شب خون کی تقریب