صادقین سے ایک دلچسپ ملاقات

– مری والدہ ذرا نفاست پسند تھیں ، انکا حلیہ دیکھ کر کہنے لگیں ‘اس کا حلیہ دیکھو ،شہرت اور کام دیکھو ” بہت تپاک سے ملے ایک ایک تختی کے پاس جا کر اپنے کام کی تفصیلات بتاتے رہے اتنے میں روشنیاں جل اٹھیں

خودکش

وہ سامنے غسل خانہ ہے، یہ نیند کی گولی ضرور کھا لینا،رات کو آرام سے سونا، کوئی چیز چاہیے ہو تو مجھے آواز دے دینا لیکن کمرے سے باہر مت نکلنا، صبح جلدی اٹھنا ہے۔۔ باریش شخص نے اسے تنبیہ کی۔ اس کے منہ میں بڑا سا نوالہ تھا اس لیے وہ محض سرہلا کررہ گیا۔کھانے کے بعد برتن سمیٹ کر وہ چلا گیا تھا اور خودکش حملہ آور چارپائی پر نیم دراز ہوگیا۔

خزاں کے بعد

لڑکا Jeff اگے بڑھا مجھے آہستہ سے ہائی کہا اور ایک عورت کے کان میں کھسر پھسر کی – وہ آگے آئی اور مجھے تابوت کے پاس لے گئی آئی لن ویسے لگ رہی تھی جیسا میں نے اسے اس دِن چرچ سے واپسی پر دیکھا تھا اور وہی سرخ چمکدار بلوز پہنا تھا بلکل تیار ،مک اپ کیا ہوا، بال سامنے سے بنے ہوئی ،چہرے پر ہلکا جالی کا سیاہ نقاب — – عورت

پیر ویلنٹائن کا عرس

اب ہم کیا عرض کریں؟ اگلے وقتوں کے ایک اور شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کا ایک حکم ہمیں موصول ہوا ہے کہ: اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انھیں کچھ نہ کہو سو ہم انھیں کچھ نہیں کہتے۔ فقط پیر ویلینٹائن علیہ ما علیہ کے فضائل، مناقب اورکرامتیں ہی بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ تو اے بزرگو! جب تک ہمارے سماج کا نطق پیر ویلینٹائن علیہ ما علیہ

امریکی یونورسٹی سے نارویجن ادبی شخصیت جمشید مسرور کا اعزاز

اس علاقے میں موجود پاکستانی اور انڈین کمیونٹی پر جب یہ انکشاف ہوا کہ اردو کے مشہور شاعر انکے شہر میں موجود ہیں شائقین نے صرف پانچ گھنٹوں میں ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا۔جمشید مسرور کے مداحوں نے ادبی محفلوں کے شائقین میں تقریب کے پمفلٹس تقسیم کیے۔ پانچ گھنٹوں کی قلیل مدت میں دنیا کے مصروف ترین ملک میں اردو مشاعرے کے لیے لوگ اکٹھے

فیس بک اور چہرے

قرار دیا جاتا ہے -لاکھوں لوگ اس سے مستفید ہورہے ہیں ہزارہا مثبت مقاصد کے لئے اسے استعمال کرتے ہیں اپنے کاروبار اور مشن کو پھیلانے کے لئے بہترین زریعہ ھے- وہیں لاکھوں اسے منفی مقصد کے لئے استعمال کرتے ہیں حتی کہ صدر اوبا ما کو بھی خبردار کرنا پڑا کہ فیس بوک پر تصویر ڈالتے ہوے احتیاط لازم ہے اور ظاہر ہے کہ یہ انتباہ

ویلنتائن ڈے کیا ہےـ

یہ ہماری انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اس برائی کو روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں۔لوگوں میں اسلامی تعلیمات کے حوالے سے آگہی پیدا کریں، اس دن اور ایسے دیگر تہواروں کے خرابیوں اور خرافات سے اپنی نوجوان نسل کو آگا کرنے کے ساتھ اسے اس دلدل میں گرنے سے بچانے کی کوشش کریں۔ اگر ہم نے ابھی آنکھیں نہ کھولیں،