ابابیلوں کو آنا تھا

ابابیلوں کو آنا تھا

محسنہ جیلانی ابابیلوں کو آنا تھا۔۔۔۔۔۔ یہ کیسی ساعتیں گذریں یہ کیسی آفتیں آئیں ابابیلوں کو آنا تھا ابابیلیں نہیں آئیں یہ کیسا زعم تھا اپنا یہ کیسی خوش گمانی تھی وہی تھی داستان غم وہی دکھ کی کہانی تھی مزید پڑھیں

بلو چستان لفظوں کی سولی پر

چند سا ل بیشتر شہر کی گہما گہمی سے دور اپنی فیملی کے ہمراہ بلو چستان کے ایک فا رم ہاوس جا نے کا اتفا ق ہوا مگر افسوس کہ ہما را وہ سفر انتہا ئی دکھ اور تکلیف بھرا ثابت ہوا ۔فا رم ہا ئوس کی حدتک تو زندگی بڑی سر سبزو پر بہا ر دکھا ئی دیتی تھی لیکن اس کے با ہر چٹختی سنگلا خ سر زمین بلو چستان اپنی بھوک،غربت ،بے چا رگی اور مجبوری کی داستان سنا تی ایک ایسی کہانی تھی جو بیا ن سے با ہر ہے بڑوں کی تو چھوڑیے ان کی آنے والی نسلوں کی با ت کریں خو شیوں سے آزاد لڑکپن کی عمر کے معصوم بچے محسوس ہو تا تھا کہ اپنی زندگی کے تما م ما ہ وسال گزار چکے ان بچوں کی صحت، حلیی،ناخن، چہرے ،با ل ان کی زندگی کے کئی دھا ئیاں طے کر چکے تھے اگر یہ کہا جا ئے کہ یہ بچے بچپن میں بو ڑھے ہو چکے تھے تو بلکل غلط نہ ہوگا انھیں زندگی کی کوئی بنیا دی سہو لتیں حاصل نہ تھیں وہ زندہ تو تھے لیکن زندوں سے بد تر !وہ یقینا آگے زندگی کا سفر حیا ت طے کر یں گے لیکن ایک بد تر زندگی ! لیکن وہ کیوں ایسی بد تر زندگی گز ارئیں ؟ان کا قصور کیا ہے ؟ کیوں ڈر ڈر کر سہم سہم کر جئیں ؟ روٹی ،کپڑی، پا نی ،صحت اور تعلیم سے محروم رہیں ان کے حصے کی تما م خوشیا ں کیو ں دوسرے لوٹ کر لے جا ئیں ہما رے تما م سیا ت دان کب تک وعدے تسلی اور دلا سوں سے بلو چ عوام کو بہلا تے رہیں گے ؟کب تک بلو چستان کو خوبصورت لفظوں کی سولی پر لٹکا ئے رہیں گے ؟۔

پاکستانی نثراد نارویجن سماجی کارکن غزالہ نسیم سے گفتگو

تعارف غزالہ نسیم کا تعلق پاکستان کے سرحدی صوبہ سے ہے ۔ ا و ر آبائی شہر پشاور ہے۔غزالہ شادی کے بعد پہلے ڈنمارک اور پھر ناروے میں آباد ہوئیں۔غزالہ پاکستانی کمیونٹی کی ایک متحرک سماجی کارکن ہیں۔وہ تین نوجوان مزید پڑھیں