ہمارا دل سویرے کا سنہرا جام ہو جائے​
چراغوں کی طرح آنکھیں جلیں جب شام ہو جائے​
میں خود بھی احتیاطا” اُس طرف سے کم گزرتا ہوں​
کوئی معصوم کیوں میرے لیئے بدنام ہو جائے​
عجب حالات تھے یوں دل کا سودا ہو گیا آخر​
محبت کی حویلی جس طرح نیلام ہو جائے​
مجھے معلوم ہے اُس کا ٹھکانہ پھر کہاں ہو گا​
پرندہ آسماں چھونے میں جب ناکام ہو جائے​
سمندر کے سفر میں اس طرح آواز دے مجھ کو​
ہوائیں تیز ہوں اور کشتیوں میں شام ہو جائے​
اُجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو​
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے​
بشیر بدر
اپنا تبصرہ لکھیں