زندگی تجھ سے رہا اور کیا رشتہ میرا

اب نہ وہ میں ہی رہا اور نہ وہ چہرہ میرا
میری پہچان کو بس نام ہی ٹھہرا میرا
 
جاگتی آنکھوں کے خوابو مجھے اب سونے دو
کچھ تو نیندوں کا بھی ہو قرض تو ہلکا میرا
 
قرض خواہوں کی طرح یا تو پڑوسی جیسا
زندگی تجھ سے رہا اور کیا رشتہ میرا
 
یا زبانوں پہ ہوں یادل یا ذہن میں سب کے
کوئی محفل ہو وہاں رہتا ہے چرچہ میرا
 
تھک گیا ہوں میں بہت راستے سب کے چلتے
کاش کچھ دیر چلے کوئی تو رستہ میرا
 
ڈہ گئی عمر بناتے ہوئے جس گھر کو علیم
میں نہیں رہتا وہاں رہتا ہے ملبہ میرا
اپنا تبصرہ لکھیں