کُوڑا کرکٹ

ڈاکڑ شہزاد بسرائ
میں نئے سرے سے رَن اپ مارک کر رہا تھا کیونکہ میں حسبِ معمول میچ کا پہلا اوور کروا رہا تھامگر پہلی ہی دو گیندیں لیگ سٹمپ کے باہر وائیڈ ہو چکی تھیں۔ تیسری گیند میں نے قدرے کم رفتار سے پھینکی مگر وہ بھی پہلی دو کی طرح لیگ اسٹمپ کے باہر وائیڈ ہو گئی تو وکٹ کیپرطافی اونچی آواز میں بولا ۔
شہزاد صاحب بال ایتھے ای رکھو۔ وا وا بیٹسمین بیٹ ہو ریا اے(شہزاد صاحب گیند اِسی لائن پہ رکھیں کیونکہ بیٹسمین بِیٹ ہو رہا ہے)”۔

حسب معمول چھُٹی والے دِن ہماری کرکٹ کلب کا ایک فیصل آباد کی مہمان ٹیم کے ساتھ میچ تھا۔چک جھمرہ ہائی سکول کی گرائونڈ کی پچ دو دن کی سخت محنت کے بعد میچ کے لئے تیار کی گئی تھی۔کوئی ٹھیکیدار ایک بہت بڑا لوہے کا رولر سڑک پر ہی چھوڑ گیا تھا جسے ہم سکول کے اندر رول کر لاے آئے تھے۔بہت بھاری تھا غالباََ کسی روڈ رولر کا پہیہ تھا۔پچ پر پانی لگا کر کٹی ہوئی گھاس بچھا کر رولر اوپر پھیرا کرتے تھے۔ رولر اتنا بھاری تھا کہ تین لڑکے رولر کے اوپر کھڑے ہو کے ایک دوسرے کو پکڑ لیتے اورپیروں سے اُسے رول کرتے ۔ یہ انتہائی مہارت، مشقت والا مگر دلچسپ کام تھا۔ایک احتیاط یہ بھی کی جاتی کہ رولنگ کے دوران گرنے والا پچ کی بجائے باہر گرے تا کہ گیلی پچ خراب نہ ہو۔ یہ ہمارا اپنا ایجاد کرتا طریقہ تھا۔ بڑے کمال کی باونس والی پچ بنتی تھی۔حسب سابق اچھی خاصی تعداد تماشائیوں کی موجود تھی۔ چونکہ ابھی TV پر کیبل نشریات شروع نہیں ہوئی تھیں لہذا لوگ بڑے شوق سے علاقائی کھیلوں کے میچوں میں دلچسپی لیتے تھے۔ گراونڈ کے چاروں اطراف بچے، جوان، بوڑھے غرض ہر عمر کے تماشائی صبح سے ہی آ ن موجود ہوتے۔پھلوں، فروٹ چارٹ، گول گپوں، لڈو کھٹیاں والے،نان چنے وغیرہ کے ٹھیلے بھی اپنی بولیوں کے ساتھ موجود ہوتے۔ ایک میلے کا سا سماں ہوتا۔کئی مستقل تماشایئوں کو کلب نے اعزازی عہدے دے رکھے تھے مثلاََصدر، نائب صدر، منیجر، اسٹنٹ منیجر ، خزانچی، پراپگنڈا سیکریٹری۔یہ عہدے دار بڑے ٹُھسے سے گراونڈ میں ایسے پھرتے جیسے یہ سب میلہ اُنہیں کی وجہ سے لگا ہے۔ یہ سب بڑے پیار کرنے والے لوگ تھے اور دل و جان سے ہماری خدمت کرتے تھے۔ یہ لوگ باقاعدہ ٹیم کے ساتھ میٹنگ کرتے اور ہمارے لئے فنڈز کا بندوبست کرتے۔ ہمیں تماشائیوں کی اتنی زبردست سپورٹ ملا کرتی تھی کہ عموماََ مہمان ٹیمیں اپنا اعتماد کھو بیٹھتیں۔
وکٹ کیپر طافی کی بزلہ سنجی اور جُگت بازی مشہور تھی۔ ہم سب بلکہ تماشائی تک اُس کی باتوں سے محظوظ ہوتے تھے اور منتظر رہتے کہ وہ کب چُٹکلا چھوڑے۔کبھی کبھی وہ میچ پر کومِنٹری بھی کیاکرتا تھا تو پورا گراونڈ زعفرانِ زار بن جاتا ۔مثلاََ
”کھا لےِد (خالد) نے مڈل اسٹمپ پہ بال کی ۔بیٹسمین نے بڑے اعتماد سے گیند کو بیٹ، پیڈ اور نالا (شلوار والا) جوڑتے ہوئے کَور کی جانب کھیلا”
”فیلڈر گیند کی رفتار نہ دے سکے کیونکہ وہ تین گلاس لسی پی کے آئے ہیں”
”ایمپائر نے تو آوٹ دے دیا تھا مگر لطیف بطخے نے بیٹنگ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ہم اپنے ماہرچاچے جھورے پان والے سے پوچھتے ہیں کہ اُن کی اِس سلسلے میں کیا رائے ہے۔ جی میرا خیال ہے کہ لطیف بطخا غالباََ یہ سمجھا ہے کہ ایمپائر نے جو انگلی کا اشارہ کیا ہے اُس کا مطلب ہے اللہ ایک ہے”
”حاضرین بلے باز نے اعتراض کر دیا ہے کہ گیند کا رنگ تبدیل ہونے کی وجہ سے دشواری ہو رہی ہے۔ یہ غالباََ جو ابھی چھکا ہوا تھا تو گیند مائی کرموں کے گھر چولہے پر رکھی ہنڈیا میں جا گری تھی۔ تو اِس کے نتیجے میں مائی کرموں نے ہم سب کے اباو اجداد کی شان میں ناقابلِ بیان ارشادات فرماے تھے۔اور شکایت کی تھی کہ گیند نے اُن کی ہنڈیا توڑ دی جس میں مرغی پک رہی تھی۔ مگر گیند تو سبز تھی۔ شائید اُن کے گھر ساگ کو مرغی کہتے ہیں۔”
”حاظرین میچ شروع ہونے والا ہے۔ کپتان نے کھلاڑیوں کو اہم ہدائیت دیں ۔مثلاََآدھے دکٹ کے ایک طرف کھڑے ہو جایں اور آدھے دوسری طرف”
”اور مولوی سلیکشنا پنڈت نے پھر کیچ چھوڑ دیا”۔ انوار صاحب بڑے شریف اور باریش کھلاڑی تھے۔ میچ کے لیے ٹیم کا انتخاب بڑا مسئلہ بنا ہوا تھا تو انوار صاحب پر یہ ذمہ

داری ڈالی گئی۔ انہوں نے ایک میچ میں طافی کو ڈراپ کر دیا۔ اب طافی تماشائیوں میں بیٹھا کومِنٹری کر رہا تھا اور انوار صاحب پر غُصہ ایسے نکالا کہ انڈین اداکارہ ”سلکنا پنڈت” کے نام پر ٹیم سلیکٹر انوار صاحب کو ”مولوی سیلیکشنا پنڈت” بنا ڈالا۔ لوگ آج تک انہیں اسی نام سے پکارتے ہیں۔
آج کا میچ بڑا اہم تھا کہ مہمان ٹیم بڑے زُعم میں تھی کہ وہ بڑے عرصے سے ناقابلِ شکست ہیں اور وہ ہمیں کسی خاطر میں نہیں لا رہے تھے۔ ہم یہ میچ ایک چیلنج کی طرح کھیلنا چاھتے تھے اور اِسی وجہ سے کچھ نروس بھی تھے۔ طافی ایک کیچ چھوڑ چکا تھا اور بائی کے بھی رنز دے رہا تھا تو کپتان خالد نے وکٹ کیپنگ اقبال کو دیدی اور طافی کو لانگ آن پر کھڑا کر دیا گیا۔اگرچہ طافی اچھا فیلڈر مانا جاتا تھا مگر میری ایک گیند پر بیٹسمین نے سٹریٹ ڈرائیو کیا تو ناہموار گرائونڈ کی وجہ سے گیند اچانک طافی کے قریب سے گھوم کر نکل گئی۔
میں چلایا ”او طافی کیا کر رے او۔ دھیان سے فیلڈنگ کرو”۔
طافی بولا ”چنیوٹ کی بس کی طرح تو گیند آ رہی ہے۔یہاں طافی کیا کرے”۔یاد رہے جھمرہ چنیوٹ روڈ اُن دنوں خاصی ناہموار تھی۔
ایک گیند پر بلے باز نے اونچی شاٹ لگائی۔ تو بالر چلایا” طافی کیچ پکڑ ”
مگر گیند کافی اونچی چلی گئی اور چھکا ہو گیا۔
طافی بولا۔ ”ایک بانس لائو اور اُس کے اوپر طافی کو ٹانگو ۔پھر طافی کیچ پکڑے گا”۔

70 پر ہم نے 5 کھلاڑی آئوٹ کر دیئے مگر چھٹی وکٹ کی شراکت میں 50 کے قریب رنز بن چکے تھے۔ میں نے کہا ”خالد صاحب کیوں میچ لمبا کر رہے ہیں۔ اکرم صاحب کو بائولنگ دیں اور ختم کریں”۔
خالد کہنے لگا ”ارے مہمان ہیں کھیلنے دو۔ کچھ تو سکور بن جائے۔ Chase کرنے کے لئے بھی تو سکور ہو”۔
مگر میری تائید میں آوازیں اٹھنے لگیں اور گراونڈ کے اندر اور باہر، ہر جانب سے ایک شور سا مچ گیا کہ اکرم صاحب کو بائولنگ دو تا کہ اننگز جلدی سے ختم ہو۔ مگر اس شور کے باوجود کپتان نے دو اوورز اور کروا دیئے۔ اکرم صاحب کا اس قدر شور مچ چکا تھا کہ دونوںبلے باز پریشان لگ رہے تھے کہ یہ کوئی یقینا خطرناک بائولر ہے یا ہو سکتا ہے کوئی فرسٹ کلاس کرکٹر ہی ہو۔آخر کار کپتان نے اکرم صاحب کو سلپ سے اشارہ کیا۔ اکرم صاحب ایک 35-36 سال کے بہت Dashing شخصیت والے شخص تھے۔ بہترین صاف ستھری CA کی سفید استری شدہ کٹ، نیا ہیٹ اور باٹا کے بہترین سفید جاگرز، گلے میں سونے کا لاکٹ ۔ دیکھنے میں بالکل ماجد خاں جیسے لگتے تھے۔ جب کہ باقی کھلاڑیوں نے رنگ برنگی کِٹ اور جوتے پہن رکھے ہوتے تھے۔
اکرم صاحب بڑے باوقار انداز سے بائولنگ اینڈ پر آئے اور انتہائی سٹائل سے ہیٹ ایمپائر کے حوالے کیا۔ کپتان کے ساتھ کافی دیر صلح مشورے کے بعد تقریباً پوری فیلڈنگ کو بدل دیا۔ دونوں بلے باز خاصے پریشان ہو چکے تھے۔ پہلے بلے باز یہ اندازہ لگا رہے تھے کہ اکرم صاحب قد کاٹھ کے اعتبار سے شاید فاسٹ بائولر ہوں گے مگر جب دیکھا کہ وکٹ کیپر وکٹوں کے ساتھ کھڑا ہے اور سٹرائیک اینڈ پر انتہائی جارحانہ فیلڈنگ کھڑی کر دی گئی ہے تو بلے باز سمجھ گئے کہ اکرم صاحب خطرناک لیگ سپنر بائولر ہیں۔ اکرم صاحب نے 3-4 قدم کا رن اپ ناپا اور جیب سے ایک مارک نکال کر رکھا۔ اس دوران ہم مسلسل بول رہے تھے کہ اکرم صاحب دو اوورز میں ساری ٹیم آئوٹ کر دیں۔ بلے باز نے پانی منگوا کر پیا ۔ وہ اضطراری انداز میں زبان ہونٹوں پر پھیر رہا تھا اور بلامسلسل زمین پر مار رہا تھا۔
اکرم نے چھوٹے سے سٹارٹ سے پہلی گیند کروائی۔ بال خاصی سلو تھی اور گڈلینگتھ پر گری۔ بلے باز گیند کو لیگ بریک سمجھتے ہوئے پہلے ہی کریز سے باہر نکل چکا تھا اور دفاعی انداز سے روکتے ہوئے بلا آگے لے گیا۔ گیند اس کی توقع کے برعکس بہت زیادہ سلو اور سیدھی تھی مگر اس کے سمجھنے تک وہ گیند کو ہوا میں کھیل چکا تھا جسے فیلڈر نے آرام سے

شارٹ ایکسٹرا کور پر پکڑ لیا۔ ایک شور مچ گیا۔ اکرم نے پہلی ہی گیند پر آئوٹ کر دیا۔اس دوران بلے باز اینڈ بدل چکے تھے۔ اگلی گیند بھی ویسی ہی سلو اور سیدھی تھی۔ بلے باز خاصا نروس تھا مگر دفاعی انداز سے گیند کو روکنے میں کامیاب ہو گیا ۔
ہم نے شور کرنا شروع کر دیا۔ اکرم صاحب گگلی، گگلی۔ تیسری گیند کو بلے باز نے پھر محتاط انداز سے روک دیا۔گیند ویسی ہی تھی۔ بلے باز یقینا سمجھ رہا تھا کہ اکرم نے خفیہ گیند ابھی نہیں پھینکی۔ پانچویں گیند پر بلے باز نے باہر نکل کر اونچا کھیلنے کی کوشش کی مگرگیند اس قدر سلو تھی کہ بلا پہلے گھوم گیا اورگیند کافی دیر بعد پیڈ سے ٹکرائی۔
LBW۔ میڈن اوور دو وکٹیں۔ 126/7۔اگلا اوور میرا تھا جو میڈن رہا۔اکرم کے اگلے اوور میں پہلی ہی گیند پر بلے باز نے سویپ کرنے کی کوشش کی مگر گیند پھر انتہائی سلو اور سیدھی تھی LBW، 129/8۔
نیا بلے باز کچھ سمجھدار تھا۔ تین گیند آرام سے روک کر کہنے لگا ”او ایسے ہی ڈر رہے ہو۔ بے کار بالر ہے”۔ اگلی دو گیندوں پر اس نے آرام سے دو چوکے لگا دیئے۔
اب وہ لوگ سمجھ چکے تھے کہ اکرم کوئی خاص بولر نہیں جس کی سپیڈ ہے اور نہ سپن۔ وہ تو بڑی مشکل سے گیند کو بس سیدھا سا پھینک دیتا ہے اور اس کی واحد خوبی گیند کو Good Lenghtپر اور سیدھا پھینکنا ہے۔ مگر اب پانی سر سے گزر چکا تھا۔ 8 آئوٹ ہو چکے تھے۔ ٹیل آ چکی تھی جسے ہم نے دو اوورز میں اڑا دیا۔ اکرم والا نسخہ ہم بار ہا آزما چکے تھے اور اکثر لمبی شرکت توڑنے میں کامیاب ہوتے تھے۔ اگلی ٹیم کے سمجھنے تک اکرم ایک دو وکٹیں اڑا دیں۔اُسے بیٹنگ میں گیارہویں نمبر پربھیجتے تھے اور فیلڈنگ وہ کہیں بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس لئے مجبوراً اسے سلپ میں کھڑا کرنا پڑتا تھا۔ اگر کبھی اتفاق اُس کی طرف کیچ آ جاتا تو نتیجہ ظاہر ہے وہی ہوتا جو نیوزی لینڈ میں ہماری سلپ فیلڈنگ کا ہے۔
اکرم کو انتہائی اچھے کھلاڑی باہر بٹھا کر کھلانا ہماری مجبوری تھی۔ وہ کلب میں سب سے امیر تھا اور ٹیم کے زیادہ تر اخراجات وہی برداشت کرتا تھا لہذا سب اُس کی تعریف اور عزت کرنے پر مجبور تھے۔جیسے ہمارے مُلک کی مجبوری ہے کہ اہل لوگوں کی بجائے نا اہل مگر طاقتورلوگ ہر جگہ براجمان ہیں ۔
باقی آپ سمجھ تو گئے ہی ہوں گے۔

اپنا تبصرہ لکھیں